آیت کریمہ کا ورد

715

زاہد عباس
’’یااللہ! سلامتیِ ایمان، سلامتیِ جان رکھیو، کبھی بھی کسی کا محتاج نہ کیجیو‘‘… ’’یااللہ اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔‘‘
بچپن میں جب علاقے کی مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتے، تو خاص طور پر فجر کی نماز کے بعد بڑے بوڑھے ہاتھ بلند کرکے اور گڑگڑا کر ہمیشہ یہی دعا مانگتے دکھائی دیتے۔ اور اگر کوئی اور دعا نمازی ہر نماز کے بعد مانگتے تو وہ بے روزگاروں کے لیے روزگار، کاروبار میں ترقی اور رزقِ حلال میں برکت سے متعلق ہوا کرتی۔ گھر کے بزرگ خاص طور پر بزرگ خواتین بچوں کو دل لگا کر کام کرنے اور فضولیات سے بچنے کا درس دیا کرتیں۔ یہی وجہ تھی کہ اُس زمانے میں ہر دوسرا شخص یا تو اچھی تعلیم حاصل کرنے کی جستجو کرتا، یا پھر کسی بھی پیشے یا چھوٹے کاروبار سے منسلک ہوکر اپنے گھر کی کفالت کے فرائض انجام دینے لگتا۔ یوں پاکستان میں نہ صرف تعلیمی سرگرمیوں بلکہ کاروباری میدان میں بھی غیر معمولی ترقی ہونے لگی جس سے لوگوں کی معاشی زندگی میں بہتری کے نمایاں اثرات نظر آنے لگے۔ اس معاشی تبدیلی کے پیچھے خاص طور پر چھوٹے دکان داروں کا بڑا اہم کردار رہا۔ ایسے ہی ایک چھوٹے کاروباری ہمارے دوست بھی گزشتہ پانچ دہائیوں سے کورنگی میں سلمہ ستارے یعنی شادی بیاہ کے لیے تیار کیے جانے والے شراروں، غراروں اور ساڑھیوں پر لگائے جانے والے میٹریل کی دکان کیا کرتے ہیں۔ طارق بھائی چونکہ انتہائی نفیس شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ خاصے مہمان نواز بھی ہیں، اس لیے میں اُن سے ملنے اکثر اوقات اُن کی دکان پرچلا جاتا ہوں۔ گھریلو مصروفیات کے باعث اِس مرتبہ میرا وہاں جانا بہت دن بعد ہوا۔ گزشتہ دو روز قبل جب میں کورنگی مارکیٹ پہنچا تو میرے اوسان خطا ہوگئے۔ پُررونق بازار کھنڈرات کا منظر پیش کررہا تھا۔ ہر طرف ملبے کے پہاڑ تھے، سارا علاقہ شام اور بیروت کا منظر پیش کررہا تھا۔ جہاں کل تک کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہوا کرتی تھیں آج اس جگہ کی حالت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی دشمن ملک کی فوج نے بمباری کرکے سب کچھ تہس نہس کردیا ہے۔ وہاں کوئی دکان باقی تھی اور نہ ہی کسی کے کاروبار کا کوئی نام و نشان… ہر طرف تباہی اور بربادی کے اثرات دکھائی دے رہے تھے۔ میں لوگوں کے ہجوم کو چیرتا اور سڑک پر پڑے منوں ملبے کے ڈھیروں سے گزرتا ہوا اُس جگہ جا پہنچا جہاں گزشتہ تین روز قبل تک طارق بھائی کی دکان ہوا کرتی تھی۔ معلومات کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ طارق بھائی دکان ڈھائے جانے کا صدمہ برداشت نہ کرنے کے سبب اسپتال میں داخل ہیں۔ میرے لیے یہ خبر انتہائی دلخراش تھی۔ ظاہر ہے کسی بھی انسان کا بیمار ہونا اُس کے حلقۂ احباب اور خاص طور پر اُس کے خاندان کے لیے ویسے ہی پریشان کن ہوتا ہے، جبکہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا، یعنی طارق بھائی انتظامیہ کی جانب سے دیے گیے صدمے کی وجہ سے اسپتال میں داخل تھے۔ تجاوزات کے نام پر کیے گئے آپریشن کے تحت گرائی جانے والی دکانوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے میں خاصی دیر وہاں کھڑا رہا۔ انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی کارروائی نے سارے بازار کو کسی مفتوح علاقے میں تبدیل کردیا تھا۔ میں جتنی دیر بھی وہاں رہا، ایک سے بڑھ کر ایک دل ہلا دینے والے واقعے کا سامنا کرتا رہا۔ سڑک کے کنارے مرد، خواتین اور خاص طور پر چھوٹے چھوٹے بچے بڑی تعداد میں موجود تھے۔ کوئی جھولیاں پھیلا کر بددعائیں دیتا، تو کوئی اپنی ٹوٹی ہوئی دکان کا ملبہ سمیٹتا دکھائی دیا۔ بعض نوجوان انتہائی غصے کے عالم میں حکومت اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کرنے میں مصروف تھے۔ گو کہ انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے آپریش کو مکمل ہوئے تیسرا دن تھا لیکن لوگوں کے غصے اور جذبات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا جیسے یہ ساری کارروائی ابھی کی گئی ہو۔ لوگ ٹولیوں کی شکل میں ایک دوسرے سے تکرار کرتے دکھائی دیے۔ لوگوں کے ہجوم کے درمیان کھڑا ایک شخص متاثرین کو نہ صرف قانونی مشورے دینے میں مصروف تھا بلکہ انتہائی دکھ اور پریشانی کی اس گھڑی میں اپنے مکمل تعاون و مدد کی یقین دہانی کراتے ہوئے بھی دکھائی دیا۔
میرے قریب کھڑے شخص نے بتایا کہ یہ عالم بھائی ہیں جو عرصہ دراز سے مارکیٹ یونین کے سرگرم رہنما ہیں۔ عالم بھائی المعروف جان صاحب ہمیشہ ہی دکان داروں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہ کچھ کام کرتے رہتے ہیں۔
ضروری تھا کہ میں بھی جان صاحب سے ملوں اور کورنگی نمبر 6 جناح مارکیٹ میں کیے جانے والے تجاوزات کے خلاف آپریشن پر اُن کا مؤقف معلوم کروں۔ میں ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ وہ شخص مجھے سامنے بنی کتابوں کی دکان کی جانب لے گیا جس کے مالک نے میری ملاقات جان صاحب سے کروادی۔
جان صاحب نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے مارکیٹ ایسوسی ایشن سے منسلک ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے توڑی گئی دکانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کے ڈی اے کی جانب سے کیے گئے آپریشن کے تحت تقریباً چار سو دکانوں کو زمین بوس کردیا گیا ہے، قانونی طور پر یہ کام بلدیاتی اداروں یعنی کے ایم سی کا ہے، جس کے لیے باقاعدہ لینڈ ڈپارٹمنٹ ہوتا ہے۔ متعلقہ ادارے کے سوا کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ غیر قانونی تجاوزات کے نام پر کسی قسم کی کوئی کارروائی کرے، ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ کے ڈی اے کے پاس ایسے کون سے اختیارات ہیں جن کے تحت ہماری دکانیں توڑی گئیں! جہاں تک کے ایم سی کا تعلق ہے تو یہ محکمہ بھی ہماری دکانوں کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتا، ہم یہاں قانونی طور پر کاروبار کررہے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 1987ء میں جب وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت تھی، ملک بھر کی تقریباً تمام ہی غیر قانونی بستیوں، کچی آبادیوں اور مارکیٹوں کو باقاعدہ طور پر قانونی تحفظ فراہم کیا گیا تھا، اسی بنیاد پر اُس وقت کی حکومت نے اس مارکیٹ کو بھی ریگولر کرا دیا تھا، تب سے یہاں کے دکان دار قانونی طور پر اپنے کاروبار چلا رہے ہیں۔ ہمارے پاس کے ایم سی کا اجازت نامہ اور کرایے کی مد میں جمع کی جانے والی رقم کے بینک چالان بھی موجود ہیں، یہاں کے دکان دار نہ صرف حکومتی ٹیکس ادا کرتے آئے ہیں بلکہ تمام قانونی تقاضے بھی پورے کرتے رہے ہیں۔ اس صورت حال میں یہاں کے چھوٹے کاروباری طبقے کے خلاف کی جانے والی کارروائی معاشی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں۔
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اتنی بڑی کارروائی کرنے سے قبل نہ تو ہمیں کسی قسم کی کوئی اطلاع دی گئی اور نہ ہی ہماری دکانوں کو غیر قانونی تجاوزات بتایا گیا۔ ہاں دکانوں پر لگے چھپر ہٹانے اور فٹ پاتھ خالی کرنے کے لیے انسداد تجاوزات بلدیہ کورنگی کی جانب سے ایک نوٹس ضرور دیا گیا تھا، جس پر تمام دکان داروں نے عمل کرتے ہوئے تمام شیڈ اتار دیے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کے ایم سی کے محکمہ انسداد تجاوزات کے نزدیک بھی ہماری دکانیں قانونی ہی تھیں، پھر یکدم یہ سب کیونکر اور کس کے کہنے پر کیا گیا؟
ایک تو ہم سے ہمارا روزگار چھین لیا گیا، اس پر بجائے متبادل جگہیں دینے کے، انتظامیہ کی جانب سے ہمیں ہی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔ سارے قوانین ہمارے ہی لیے ہیں! اگر غیر قانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنا ہے تو جاؤ، پورے شہر میں چائنا کٹنگ کے تحت بنائے گئے مکانات گرائو، وہ پلازے گراؤ جو رفاہی پلاٹوں پر بنائے گئے ہیں، سب سے بڑھ کر خود وزیراعظم پاکستان عمران خان کا وہ محل گرائو جس کی تعمیرات کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔ ہم کمزور ہیں اس لیے ہمارا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
کس سے فریاد کریں، کوئی سننے والا نہیں… بس ایک خدا کا ہی آسرا ہے، اس لیے اُس کی بارگاہ میں ہی دعائیں کررہے ہیں۔ جمعہ سے ایک کیمپ لگا رہے ہیں جس میں آیتِ کریمہ کا ورد کیا جائے گا۔ تمام لوگوں سے شرکت کی اپیل کررہے ہیں۔ آیت کریمہ کا ورد عمران خان کی حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لیے کیا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ میئر کراچی وسیم اختر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے خصوصی دعائیں بھی مانگی جائیں گی۔ ہمارے پاس زبردستی مسلط کی جانے والی حکومت سے نجات کا یہ واحد طریقہ رہ گیا ہے۔
جان صاحب کی باتیں سننے اور ان کھنڈرات کے درمیان خاصی دیر گزارنے کے بعد میں گھر کی جانب چل پڑا۔ ابھی تھوڑی دور ہی نکلا تھا کہ میرے قریب آتے ہوئے شخص نے مجھ سے کہا ’’بھائی یہ جو کچھ بھی تم سن کر اور دیکھ کر آرہے ہو اس پر نہ جانا، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہوتے ہیں، یہ لوگ برسوں سے یہاں کاروبار کررہے تھے، اسی جگہ سے انہوں نے کئی دوسرے کاروبار لگا لیے ہیں، اگر حکومت نے تجاوزات ختم کی ہیں تو یہ اچھا اقدام ہے، میں تو کہتا ہوں کہ سارے ملک سے ہی غیر قانونی تعمیرات کا صفایا کردیا جائے اور سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے۔‘‘
انتظامیہ کی جانب سے گرائی گئی دکانوں کے ملبے پر کھڑے ہوکر جان صاحب کی جانب سے کی جانے والی باتوں پر اس شخص کا ردعمل اپنی جگہ، لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ اوپر تحریر کی گئی دعاؤں میں آیتِ کریمہ کے ورد کا ضرور اضافہ ہوگیا ہے۔

حصہ