برصغیرمیں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

364

(انتیسواں حصہ)
قسط نمبر:171
ہم نے گزشتہ اقساط میں سانحہ مشرقی پاکستان کا تقریباً ہر حوالے سے احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ سیاسی، سماجی، معاشی اور فوجی آپریشن اور مارشل لا کے حوالے سے یا مجموعی بغاوت، قتلِ عام اور مہاجرین کی ہجرت کے تمام پہلو قارئین کے سامنے آسکیں۔ اس موقع پر پاک فوج کے حوالے سے اخلاقی گراوٹ اور مالی معاملات میں بدعنوانی پر بھی بہت سے سوال اٹھائے گئے، لیکن ایک عام فوجی کی بہادری و جرأت مندی کو اس طرح اجاگر نہیں کیا گیا جیسا کہ اس کا حق تھا۔
مشرقی پاکستان میں ہلی کے محاذ پر میجر محمد اکرم نے اپنی فرنٹیئر فورس کی کمانڈ میں لڑتے ہوئے مسلسل پانچ دن اور پانچ راتیں اپنے سے کئی گنا زیادہ ہندوستانی فوج کی پیش قدمی روکے رکھی اور دشمن کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ میجر محمد اکرم ’’ہیرو آف ہلی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ نے دشمن کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے 5 دسمبر 1971ء کو جام شہادت نوش کیا۔
اسی طرح ہندوستانی فوج کے فیلڈ مارشل مانک شا کی پاکستانی سپاہی کے حوالے سے ایک گواہی بھی ذہن میں ضرور رکھیں (1971ء کی جنگ میں جب ہندوستانی افواج نے بنگلہ دیش میں پاکستان کو شکست دی تو مانک شا اُس وقت چیف آف آرمی اسٹاف تھے۔ وہ اس جنگ کے دو برس بعد 1973ء میں سبک دوش ہوئے)۔ ان سے پوچھا گیا کہ ’’فیلڈ مارشل صاحب آپ کو یہ جنگ جیتنے کا کتنا کریڈٹ جاتا ہے؟ کیونکہ پاکستانی فوج نے وہ بہادری نہیں دکھائی جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی۔‘‘
مانک شا نے جواب دیا: ’’یہ بات غلط ہے۔ پاکستانی فوج بڑی بہادری سے ڈھاکا میں لڑی تھی، لیکن ان کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ اپنے مرکز سے ہزاروں میل دور جنگ لڑرہے تھے۔ ان کی مقامی طور پر اور پاکستان سے تمام سپلائی لائن منقطع ہوچکی تھیں، جبکہ میں نے اپنی ساری جنگی تیاریاں آٹھ سے نو ماہ میں کی تھیں۔ ایک پاکستانی فوجی کے مقابلے میں میرے پاس پندرہ ترو تازہ ہندوستانی جوان تھے، لہٰذا اپنی تمام تر بہادری کے باوجود پاکستانی فوج یہ جنگ نہیں جیت سکتی تھی۔‘‘
اینکر نے دوسرا سوال داغا: ’’فیلڈ مارشل! ہم نے سنا ہے کہ پاکستانی فوج کا ایک کیپٹن احسان ملک تھا جس نے کومان پل کے محاذ پر اتنی ناقابلِ یقین بہادری دکھائی کہ آپ نے جنگ کے بعد ہندوستانی فوج کا چیف آف آرمی اسٹاف ہوتے ہوئے اسے ایک خط لکھا جس میں اس کی بہادری اور اپنے ملک کے لیے اتنے ناقابلِ یقین انداز میں لڑنے پر اسے خراجِ تحسین پیش کیا گیا تھا؟‘‘
مانک شا نے کہا: ’’یہ بات بالکل سچ ہے، ہماری افواج ڈھاکا کی طرف پیش قدمی کررہی تھیں اور یہ پاکستانی کیپٹن ہماری فوج کے آگے دیوار بن کر کھڑا ہوگیا۔ اس اکیلے نے محاذ پر موجود ہندوستانی فوج کو مشکلات میں مبتلا کرنا شروع کیا۔ ایک زوردار حملہ کیا گیا جو اس نے اپنی حکمت عملی کی بدولت پسپا کیا۔ ہندوستانی فوج نے دوسری دفعہ باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے اس محاذ پر پہلے سے بھی بڑا حملہ کیا لیکن کیپٹن احسان ملک نے انھیں ایک انچ بھی آگے نہیں آنے دیا۔ ہم عاجز ہوگئے تھے، بالآخر ہماری فوج نے اس محاذ پر تیسرا حملہ کیا، تب کہیں جاکر انھیں کامیابی ہوئی‘‘۔ مانک شا بڑا حیران تھا کہ آخر اتنی بڑی ہندوستانی فوج کے حملے کے سامنے کون تھا جو شکست ماننے کو تیار نہیں تھا۔
پاکستان کے دولخت ہونے کے اسباب جاننے کے لیے صدارتی نوٹیفکیشن کے ذریعے 26 دسمبر1971ء کو تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کمیشن کے سپرد یہ کام تھا کہ وہ ان حالات کی تحقیقات کرے، جن کے تحت کمانڈر ایسٹرن کمانڈ اور ان کے زیر کمان پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈالے، ہندوستان اور مغربی پاکستان کی سرحدوں پر جنگ بندی کے احکامات صادر کیے گئے، نیز جموں اور کشمیر کی سیزفائر لائن پر بھی جنگ بندی کا حکم دیاگیا۔
پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ مجریہ1956ء کے تحت قائم ہونے والا یہ کمیشن ابتدا میں جسٹس حمود الرحمن (ہلال پاکستان) چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کی سربراہی میں دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل تھا، جن میں جسٹس حمود الرحمن کے علاوہ جسٹس انوارالحق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، اور جسٹس طفیل علی عبدالرحمن چیف جسٹس سندھ بلوچستان ہائی کورٹ بحیثیت رکن شامل تھے۔
بعد ازاں تحقیقاتی کمیشن کی سفارش پر لیفٹیننٹ جنرل الطاف قادر (ریٹائرڈ) کو بحیثیت ملٹری ایڈوائزر اور اسسٹنٹ رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان مسٹر ایم اے لطیف کو بحیثیت سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ یہ تحقیقاتی کمیشن حمود الرحمن کمیشن کے نام سے مشہور ہوا۔
اس کمیشن کو اپنا کام کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی، اس طرح کہ
٭کمیشن اپنے طریقۂ عمل کے مطابق کام کرے گا اور اس کی تمام کارروائی خفیہ رکھی جائے گی۔
٭کمیشن کو اپنی کارروائی کے دوران میں تنیوں مسلح افواج کے نمائندوں کی معاونت حاصل رہے گی۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان کے ہر فرد کا یہ فرض ہوگا کہ وہ کمیشن کو جب کبھی ضرورت پڑے مطلوبہ تعاون فراہم کرے گا۔
٭تحقیقاتی کمیشن طے کردہ تاریخ اور مقام پر تحقیقات کا آغاز کرے گا اور تین ماہ کی مدت کے اندر تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی مکمل رپورٹ صدر کو پیش کردے گا۔کمیشن نے سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے 213 گواہوں کو طلب کیا اور بیانات ریکارڈ کیے۔ بیانات کا یہ سلسلہ راولپنڈی میں یکم فروری 1972ء سے شروع ہو ا اور جولائی کے پہلے ہفتے میں مکمل ہوا۔ اس طرح 12جولائی 1972ء کو مفصل رپورٹ اُس وقت کے صدر پاکستان کے حوالے کی۔ حمودالرحمن کمیشن کی شائع شدہ رپورٹ کے پہلے حصے میں سانحہ مشرقی پاکستان کے ’’اخلاقی پہلو‘‘ کا تذکرہ ہے، رپورٹ کے مطابق
’’گواہوں نے جن میں اعلیٰ اور ذمے دار فوجی اہلکار بھی شامل تھے، کہا کہ مارشل لا ڈیوٹیز سے پیدا ہونے والی بدعنوانیوں، شراب اور عورتوں کی ہوس اور جائداد اور مکانات کے لالچ کی وجہ سے اعلیٰ فوجی افسروں میں جنگ لڑنے کی خواہش ہی ختم ہوگئی تھی۔ نہ صرف یہ، بلکہ ان چیزوں سے ان کی پیشہ ورانہ اہلیت بھی متاثر ہوگئی تھی۔ یہاں تک کہ ان چیزوں سے ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی فنا ہوگئی تھی۔ گواہوں نے اصرار کے ساتھ یہ بات کہی کہ اچھی شہرت سے محروم لوگوں سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ پاک فوج کو فتح سے ہم کنار کریں گے۔ کمیشن پیش کی گئی شہادتوں کے تجزیے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اعلیٰ فوجی افسروں میں اخلاقی زوال کا آغاز 1958ء میں مارشل لا کے تحت خدمات انجام دینے سے ہوگیا تھا۔ جنرل یحییٰ نے 1969ء میں دوسرا مارشل لا لگایا تو اخلاقی زوال میں مزید شدت پیدا ہوگئی۔ مشرقی پاکستان کے سول معاملات میں فوج کی مداخلت اُس وقت بھی بند نہ ہوئی جب وہاں ڈاکٹر اے ایم ملک کو سول گورنر مقرر کیا گیا۔ گواہ نمبر 284 میجر جنرل رائو فرمان علی نے جو گورنر ہائوس میں میجر جنرل Civil Affairs کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، کمیشن کو بتایا کہ سابق صدر کے اعلان کے مطابق مشرقی پاکستان میں مکمل سول حکومت قائم نہ کی جاسکی۔ ڈاکٹر ملک ضعیف العمر سیاست دان تھے، ان کی شخصیت بھی کمزور تھی، وہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل نیازی کو ناراض نہیں کرسکتے تھے۔ اس کے برعکس جنرل نیازی اقتدار پسند تھے اور ان کے اندر سیاسی معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی، انہوں نے کبھی سول گورنر کے لیے احترام کا مظاہرہ نہ کیا اور فوج مشرقی پاکستان میں عملاً سول ایڈمنسٹریشن چلاتی رہی۔‘‘مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا عملاً اس میں کسی سول انتظامیہ کا کوئی کردار نہیں۔ اس لیے کہ مشرقی پاکستان میں سول انتظامیہ کا کردار برائے نام تھا، سارے اختیارات جرنیلوں کے پاس تھے۔
حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے:
’’مشرقی پاکستان میں فوج نے آپریشن شروع کیا تو نہ صرف یہ کہ مناسب لاجسٹک موجود نہ تھی بلکہ فوج کے لیے کھانے پینے کی چیزوں کی بھی کمی ہوگئی۔ جنرل نیازی نے جنرل ٹکا خان سے چارج لیتے ہی فرمایا ’’میں سن رہا ہوں کہ راشن کی کمی ہوگئی ہے۔ کیا ملک میں گائیں اور بکریاں موجود نہیں؟ یہ دشمن کی سرزمین ہے، جو تمہیں چاہیے چھین لو۔ ہم برما میں یہی کیا کرتے تھے‘‘۔ جنرل نیازی کے یہ ریمارکس میجر جنرل رائو فرمان علی کی گواہی کے توسط سے کمیشن تک پہنچے۔ جنرل نیازی نے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے ایسی کوئی بات کہی تھی، تاہم کمیشن کے روبرو حاضر ہونے والے دیگر گواہوں نے جنرل نیازی کی تردید کی تردید کی اور کہا کہ ان کے پاس اس سلسلے میں تحریری احکامات کی شہادت موجود ہے۔ جنرل نیازی کے خلاف ایک گواہی یہ آئی کہ جب وہ جی او سی سیالکوٹ تھے تو مارشل لا کیسز میں رشوت لیا کرتے تھے۔ ان کے خلاف ایک گواہی یہ آئی کہ وہ لاہور کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے تو ان کے مسز سعیدہ بخاری نام کی خاتون سے قریبی تعلقات تھے اور یہ عورت Senorito Home کے نام سے جسم فروشی کا ایک اڈا چلاتی تھی۔ علاوہ ازیں یہ عورت جنرل نیازی کی طرف سے رشوت بھی وصول کرتی تھی اور مختلف لوگوں کے کام کراتی تھی۔ جنرل نیازی جب سیالکوٹ میں تھے تو وہاں ان کا تعلق شامنی فردوس نام کی عورت کے ساتھ تھا، اور یہ عورت بھی جسم فروشی کے کاروبار سے منسلک تھی۔ جنرل نیازی کی یہ ’’شہرت‘‘ ان کے ساتھ مشرقی پاکستان پہنچی۔ جنرل نیازی مشرقی پاکستان پہنچ کر پان کی اسمگلنگ میں ملوث ہوگئے۔ اس سلسلے میں 6 عام گواہوں نے ان کے خلاف کمیشن کے روبرو گواہی دی، تاہم اس سلسلے میں کئی فوجیوں نے بھی ان کے خلاف گواہی پیش کی۔ لیفٹیننٹ کرنل عزیز نے جو مقدمے میں 276 ویں گواہ تھے، یہ تک کہا کہ عام فوجی کہتے تھے جب یہ سب کچھ خود کرتا ہے تو ہمیں کچھ کرنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ جنرل رائو فرمان علی نے کمیشن کو بتایا کہ جنرل نیازی مجھ سے ناراض ہوئے تو اس لیے کہ میں نے پان کے کاروبار میں اُن کی مدد نہیں کی۔ کئی اعلیٰ فوجی اہلکاروں نے بتایا کہ مشرقی پاکستان میں گڑبڑ کے دوران فوجی افسروں نے مشرقی پاکستان کے علاقے سراج گنج میں واقع نیشنل بینک سے ایک کروڑ 35لاکھ روپے لوٹ لیے۔ اس رقم کو ایک ٹرک میں چھپا کر علاقے سے نکالا جارہا تھا کہ ٹرک پکڑا گیا۔ اس سلسلے میں انکوائری کا آغاز ہوا مگر جنگ کی وجہ سے انکوائری مکمل نہ ہوسکی۔‘‘
(حوالہ: مضمون ’’پاکستان ٹوٹنے کی کہانی، حمود الرحمن کمیشن کی زبانی‘‘…معروف تجزیہ نگار جناب شا ہنواز فاروقی۔ اشاعت 14 دسمبر 2018۔ فرائیڈے اسپیشل)
(جاری ہے)

حصہ