پکار

468

سیدہ امبرین عالم
’’(اپنی تکلیف پر) یہ لوگ جن کو (اللہ کے سوا) پکارتے ہیں، وہ تو خود اپنے رب کے قریب ہونے کا ذریعہ تلاش کرتے ہیں کہ کون زیادہ مقرب ہوتا ہے، وہ اس کی رحمت تلاش کرتے ہیں۔ تیرے رب کا عذاب ڈرانے والا ہے، وہ اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل، آیت 57)
سلمیٰ بیگم رات سے پریشان تھیں، ان کی بہو نے ان سے خاصی بدتمیزی کی تھی۔ سلمیٰ بیگم کی عادت تھی بات بے بات ٹوکنے کی اور ہر کام میں کیڑے نکالنے کی، مجال ہے جو دنیا میں کسی کے کام کی آج تک تعریف کی ہو۔ بس اپنی مرحومہ والدہ کی تعریف میں 24 گھنٹے رطب اللسان رہتیں۔ بہو بے چاری نے بہت برداشت کیا مگر اب جب وہ ایک بیٹے کی ماں بن چکی تھی، تو بھی سلمیٰ بیگم اُسے ایسے ڈانٹتیں جیسے پوتا بس ان کا ہے، اور پوتے کی ماں کو اس کی بالکل فکر نہیں۔ آخرکار آج بہو خوب روئی، اور پوتے کو ان کے حوالے کرگئی کہ آپ خود ہی پالیں۔ پوتے کو موشن لگے ہوئے تھے۔ دو، تین گھنٹے میں ہی سلمیٰ بیگم کی ہمت جواب دے گئی اور ہنستی مسکراتی گئیں، بہو کو گلے لگا کر پوتا واپس کر آئیں۔
مگر دل میں بہت سیخ پا تھیں کہ بہو کی ایسی ہمت ہوئی کیسے! تیار ہوئیں اور چل پڑیں شاہ صاحب کے پاس۔ انہی کے پاس پچھلے چھ ماہ سے ہر کام کے لیے جاتی تھیں۔ شاہ صاحب نے فرمایا ’’اُلّو کا گوشت چھٹانک بھر ہی لے آئو، دَم کرکے دوں گا، اپنی بہو کو کھلانا، غلام بن کر رہے گی۔‘‘
’’بھلا میںکہاں سے لائوں اُلّو کا گوشت! آپ ہی کچھ کیجیے‘‘۔ سلمیٰ بیگم نے التجا کی۔
’’اچھا تو پھر میں ہی کچھ کرتا ہوں، لڑکے کو جنگل بھیجنا پڑے گا، کچھ خرچا پانی عنایت کیجیے، ورنہ پتا بتا دیتا ہوں آپ ہی لے آیئے‘‘۔ شاہ صاحب بولے۔
سلمیٰ بیگم نے بیٹے کی حق حلال کی کمائی سے پانچ ہزار روپے شاہ صاحب کو دیے، اگلے ہی روز اُلّو کا گوشت سلمیٰ بیگم کو فراہم کردیا گیا۔ جانے اُلّو کا تھا یا کوّے کا، بس سلمیٰ بیگم خوش ہوگئیں۔ اب روز اس چھٹانک بھر گوشت کی یخنی بناکر بہو کو پلاتیں اور روز پانچ ہزار روپے شاہ صاحب کو دے آتیں۔ بہو کے دو ہزار کا سوٹ خریدنے پر کہرام مچانے والی سلمیٰ بیگم ایک ہفتے کے اس ٹوٹکے کے 35 ہزار شاہ صاحب کو دے چکی تھیں۔ بہو حیران تھی کہ میری ساس اچانک اتنی مہربان کیسے ہوگئیں! بہرحال ایک دن جب وہ ہر بات پر بہو کو ٹوک رہی تھیں، بہو کا پارہ ہائی ہوگیا اور وہ بول پڑی ’’آئندہ اگر آپ اس طرح مسلسل گھورتی رہیں، میرے پیچھے پیچھے پھرتی رہیں اور ٹوکتی رہیں تو میں آپ کا کھانا پکانا چھوڑ دوں گی، اگر میرا ہر کام برا ہے تو میرے ہاتھ کا کھانا کیوں کھاتی ہیں آپ؟‘‘
’’میں تمہیں اپنے بیٹے سے طلاق دلوا دوںگی، بہت زبان چلاتی ہو‘‘۔ سلمیٰ بیگم بولیں۔
’’آپ کی جادو ٹونے کی یخنی تک چپ کرکے پی رہی ہوں، اور کتنا برداشت کروں؟ مجھ پر نظر رکھنے کے لیے مسلسل پیچھے لگی رہتی ہیں اور کوئی کام کہہ دو تو ٹانگوں میں درد…‘‘ بہو نے چیخ کر جواب دیا۔ بہت دیر دونوں کی جھڑپ جاری رہی، آخرکار سلمیٰ بیگم کو یقین ہوگیا کہ شاہ صاحب کے اُلّو کے گوشت نے کچھ کام نہیں کیا، بہو اب بھی ان کے رعب میں نہیں آئی۔
اب سلمیٰ بیگم نے ایک مزار پر جانا شروع کردیا۔ اُدھر منت کے لال دھاگے باندھے کہ بہو غلام ہوگئی تو دو دیگیں میٹھے چاول کی چڑھائوں گی۔ حالانکہ بے چاری بہو تو غلام ہی تھی، صبح چھ بجے سے گھر کے کام شروع کرتی تو رات کے بارہ بج جاتے۔ سلمیٰ بیگم تو پانی تک خود اٹھ کر نہیں پیتی تھیں۔ بہو کو آواز لگاتیں۔ اس نے کبھی کسی کام سے انکار نہیں کیا، بس ایک مطالبہ تھا کہ مسلسل ٹوکا نہ جائے اور اس پر بھروسا کیا جائے، نظر نہ رکھی جائے، بہو سمجھا جائے، ماسیوں جیسا سلوک نہ کیا جائے۔ سلمیٰ بیگم یہ مطالبے ماننے کو تیار نہیں تھیں۔
ایک روز سلمیٰ بیگم بازار گئیں، گھر کا تمام سودا خود لاتی تھیں کیوں کہ بہو پر تو ایک روپے کا بھی بھروسا نہیں تھا۔ چلتے چلتے اچانک پائوں مڑ گیا اور گر پڑیں، لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے، مگر ان سے اٹھا ہی نہیں جارہا تھا۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور سلمیٰ بیگم کے پاس بیٹھ گئے، منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے رہے اور پھر سلمیٰ بیگم کی پنڈلی پر پھونک ماری۔ سلمیٰ بیگم کو جھٹکا سا لگا اور درد ایک دَم غائب۔ آرام سے نہ صرف بیٹھ گئیں بلکہ بھلی چنگی ہو کے کھڑی بھی ہوگئیں۔ وہ صاحب بغیر کچھ کہے سنے چل دیے۔ سلمیٰ بیگم تو ایسی متاثر ہوئیں کہ خریداری چھوڑ کر چپ چاپ ان صاحب کا پیچھا کرنے لگیں، یہاں تک کہ ان صاحب کا گھر بھی دیکھ لیا۔
دو دن نہ گزرے تھے کہ سلمیٰ بیگم ان صاحب کے گھر پہنچ گئیں۔ ان کا نام ملک ابراہیم تھا۔ چھوٹا سا گھر، سفید چادروں کے فرش بچھے ہوئے۔ نہ کوئی الیکٹرانک آئٹم، نہ کوئی فرنیچر۔ ان کی بیگم نے سلمیٰ بیگم کا استقبال کیا اور بڑی عزت سے بٹھایا۔ ابراہیم صاحب حیران پریشان ملنے آئے کہ نہ جانے انجان عورت کو کیا کام پڑ گیا۔ اب جو سلمیٰ بیگم نے منشا بتائی کہ بہو کو قابو کرنے کا وظیفہ چاہیے تو وہ بڑے جزبز ہوئے، کہنے لگے ’’ہمشیرہ محترمہ! میں سیدھا سادہ آدمی ہوں، کلرکی کرتا ہوں، روکھی سوکھی کھاتا ہوں، سکون سے سوجاتا ہوں، کبھی کسی کو قابو کرنے کا سوچا ہی نہیں، مجھے کیا خبر کہ بہوئوں کو کیسے قابو کیا جاتا ہے۔ آپ پیار، محبت سے بات کیجیے، خود ہی غلام ہوجائے گی۔‘‘
’’ارے آپ نہیں جانتے میری بہو کو، کل باورچی خانے میں اسے اکیلا چھوڑ دیا تو پورے دو آم کھا گئی۔ ہر وقت نظر رکھنی پڑتی ہے۔ بس میں چاہتی ہوں کہ بہو پر کم سے کم خرچا ہو اور وہ بالکل زبان نہ چلائے، جو میں کہوں بس ویسا ہی کرے‘‘۔ سلمیٰ بیگم بولیں۔
’’اب ایک انسان گھر میں رہ رہا ہے، تو کہاں جاکر کھائے گا؟ آپ کوئی ماسی رکھ لیتیں جو صرف کام کرتی، آپ کے حکم کے مطابق۔ مگر آج کل تو ماسیاں بھی بغیر زبان چلائے کام نہیں کرتیں اور تنخواہ بھی دینی پڑتی ہے‘‘۔ ابراہیم صاحب بولے۔
’’آپ یہ سب باتیں چھوڑیں، بس بہو کو قابو کرنے کا وظیفہ بتائیں۔ میں عینی گواہ ہوں کہ آپ اللہ سے خاص رابطہ رکھتے ہیں، میری مشکل آسان کیجیے‘‘۔ سلمیٰ بیگم نے کہا۔
’’ہمشیرہ! آپ اس دن تکلیف میں تھیں، تو میں نے آپ کی مدد کردی۔ خدانخواستہ میں اللہ کے نام کا کاروبار تھوڑی کرتا ہوں۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے، وہ آپ کی بھی سنے گا۔ آپ بھی اللہ کی بندی ہیں، جیسے میں اللہ کا بندہ ہوں‘‘۔ ابراہیم صاحب بولے۔
’’ارے بھائی کوئی بہت ہی سخت عمل کرنا پڑے گا، میری بہو پر تو اُلّو کے گوشت کا بھی اثر نہیں ہوتا، بڑی ڈھیٹ ہے‘‘۔ سلمیٰ بیگم افسردگی سے بولیں۔
’’کیا…؟‘‘ ابراہیم صاحب چونکے ’’آپ بہو کو قابو کرنے کے لیے اُسے اُلّو کا گوشت کھلاتی رہی ہیں…؟ استغفراللہ! آپ تو بہت خطرناک خاتون ہیں‘‘۔ وہ بولے۔
’’میں کہاں خطرناک! اصل تو میری بہو خطرناک ہے، کالا جادو کرکے میرے بیٹے کو قابو کرلیا ہے، مجھے وہ اب ساری تنخواہ نہیں دیتا، بہو کو بھی پیسے دیتا ہے‘‘۔ سلمیٰ بیگم نے نہایت دکھ سے بتایا۔
’’آپ نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت 57 پڑھی ہے؟‘‘ ابراہیم صاحب نے سوال کیا۔
’’ٹائم ہی نہیں ملتا، طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی، بہو بھی نکمی ہے، بچے کو بار بار میرے پاس چھوڑ جاتی ہے تاکہ میں بچہ ہی سنبھالتی رہوں، اس پر نظر نہ رکھوں‘‘۔ سلمیٰ بیگم جلدی سے بولیں۔ ان کا کوئی جملہ بہو کی برائی کیے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا تھا۔
’’اللہ رب العزت اس آیت میں فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی تکلیف پر اللہ کے سوا جن لوگوں کو پکارتے ہیں وہ سب اللہ کی بارگاہ میں بے حد کمزور ہیں، وہ اللہ کے کسی منصوبے میں خلل پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، ہوگا وہی جو اللہ نے لکھ دیا۔ اور جن کو آپ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ بھی اللہ کی قربت کے طلب گار ہیں‘‘۔ ابراہیم صاحب نے فرمایا۔
’’میں تو اللہ کے سوا کسی کو نہیں پکارتی، یہ تو شرک ہوجائے گا‘‘۔ سلمیٰ بیگم نے صاف انکار کردیا۔
’’کیوں، آپ کیا شاہ صاحب کے پاس نہیں جاتی تھیں، اُن کو اپنا مشکل کشا جان کر؟ کیا آپ مزار پر نہیں جاتی تھیں، ایک مُردے سے مراد مانگنے؟ کیا آپ میرے پاس نہیں آئیں اپنی تکلیف پر مجھ کو پکارتی ہوئی، اپنے درد کا مسیحا مجھ کو سمجھ کر؟‘‘ ابراہیم صاحب نے سلمیٰ بیگم سے سوال کیا۔
’’آپ کو میں اللہ کا محبوب جان کر آئی ہوں، ورنہ جیسے آپ کے دو ہاتھ پائوں ہیں ویسے میرے بھی دو ہاتھ پائوں ہیں، مگر چوں کہ آپ اللہ کے نیک بندے ہیں تو اللہ آپ کی سنے گا‘‘۔ سلمیٰ بیگم نے کہا۔
’’یہی آپ کی غلط فہمی ہے، میں تو خود دن رات اللہ رب العزت کے خوف سے کانپتا رہتا ہوں کہ جانے مجھے بخشے یا نہیں۔ روزِ قیامت جانے میں عزت والوں میں سے ہوں گا یا ذلت والوں میں سے۔ مجھے تو اپنی اتنی فکر پڑی ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دوسروں کی جائز و ناجائز خواہشات کے لیے اپنے رب سے ضدیں کروں۔ خدا کا کچھ تو خوف کیجیے‘‘۔ ابراہیم صاحب نے کہا۔
’’جو اللہ سے محبت رکھتے ہیں وہ اللہ کی مخلوق سے بھی محبت رکھتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں عافیت کی خاطر اللہ سے دعائیں کرتے ہیں‘‘۔ سلمیٰ بیگم نے نیا پتّا پھینکا۔
’’محترمہ میں عالم الغیب نہیں ہوں، میں نہیں جانتا کہ آپ کی بہو حق پر ہے یا آپ؟ اس لیے میں صرف آپ کی بات سن کر فیصلہ نہیں کرسکتا، نہ دعا کرسکتا ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’میں ماں ہوں، میرے پیروں کے نیچے جنت ہے، بھلا میری بات کیسے غلط ہوسکتی ہے! میری بہو تو جہنمی ہے جو میری شان میں گستاخی کرتی ہے‘‘۔ سلمیٰ بیگم نے اترا کر کہا۔
’’بہن، ماں تو آپ کی بہو بھی ہے، جنت تو اس کے پیروں کے نیچے بھی ہے، آپ اس کے ساتھ زیادتی کریں گی تو آپ بھی جہنم میں جا سکتی ہیں‘‘۔ ابراہیم صاحب بولے۔
’’آئے ہائے، آپ تو میرے پیچھے ہی پڑ گئے، میری بہو کی ہی طرف داری کیے جارہے ہیں، آپ کو کیا معلوم کہ اس نے میرے بیٹے پر کیسا کالا جادو کیا ہے‘‘۔ سلمیٰ بیگم غصے سے بولیں۔
’’اسے کالا جادو نہیں کہتے، ہوسکتا ہے کہ آپ کی بہو اتنی محبت والی اور خدمت گزار ہو کہ آپ کا بیٹا اُس کا شکر گزار ہوگیا ہو، مگر آپ اس بات سے خوش نہیں ہیں حالانکہ آپ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ کا بیٹا خوش ہے۔ مگر آپ فکرمند ہیں کہ آپ کی راجدھانی نہ چھن جائے، یہ غلط بات ہے‘‘۔ ابراہیم صاحب نے کہا۔
’’اگر میں بہو اور بیٹے میں دوستی ہونے دوں گی تو وہ دونوں مل کر الگ ہوجائیں گے اور میں اکیلی رہ جائوں گی‘‘۔ سلمیٰ بیگم نے کہا۔
’’جی نہیں! آپ اگر انہیں تنگ کریں گی تو وہ آپ سے علیحدہ ہوجائیں گے۔ محترمہ یہ زندگی کے بہت چھوٹے چھوٹے مسئلے ہیں جنہیں اسلام کے عمومی احکامات اور اخلاقیات سے حل کیا جاسکتا ہے۔ ان کے لیے شرک پر آمادہ ہوجانا اور در در بھٹکنا کہ کوئی آپ کا مسئلہ حل کردے، یہ تو بے وقوفی ہے۔ کوئی بھی اللہ سے زیادہ طاقتور نہیں ہے، اور کوئی بھی اللہ رب العزت کو فیصلے تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ اگر آپ مجھے بہت نیک سمجھتی ہیں تو میں بھی دن رات اللہ تعالیٰ سے معافیاں مانگتا ہوں اور اس کی رحمت کا طلب گار ہوں، میری کیا جرأت کہ اس عالی ذات سے ضد بحث کروں‘‘۔ ابراہیم صاحب نے سمجھایا۔
’’تو پھر میں کیا کروں؟ میں تو بہت پریشان ہوں‘‘۔ سلمیٰ بیگم بے چارگی سے بولیں۔
’’بہن! سب سے پہلے تو اپنا دل بڑا کریں۔ ہر خاندان میں، محلے میں، بلکہ جہاں بھی چار چھ لوگ اکٹھے رہتے ہیں سب کو ایک دوسرے سے تھوڑی بہت تکلیف ضرور پہنچتی ہے، درگزر کرنا پڑتا ہے، دل میں گنجائش رکھنی پڑتی ہے۔ اگر آپ اللہ کو راضی رکھنا چاہتی ہیں تو اللہ کے بندوں کو بھی راضی رکھیں، اگر آپ اللہ کے بندوں کو تنگ کریں گی، ناراض کریں گی تو اللہ رب العزت آپ سے کیسے خوش ہوگا! جب آپ سب سے محبت کریں گی، سب کا خیال کریں گی تو باقی سب بھی محبت کا جواب محبت سے دیں گے۔ جس گھر میں محبت ہو وہاں بہت سے مسئلے حل ہوجاتے ہیں۔ آپ بڑی ہیں، آپ کو ہی سمجھ داری سے کام لینا ہوگا۔ باقی یہ کہ اللہ سب سے بڑا ہے، اس سے دعا مانگیں‘‘۔ ابراہیم صاحب نے تفصیل سے بات کی۔
’’درست فرمایا آپ نے، میں اُن سے کیوں مانگوں جو اللہ کے آگے محتاج ہیں؟ میں کیوں ناں اپنے رب سے مانگوں جو کسی کا محتاج نہیں، سب کا بادشاہ ہے‘‘۔ سلمیٰ بیگم نے کہا۔
’’ماشاء اللہ، میرا رب آپ کو ہدایت دے‘‘۔ ابراہیم صاحب نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔

حصہ