نہ خدا ہی ملا، نہ وصالِ صنم

458

اوریامقبول جان
سیکولر، لبرل اور سود پرست جمہوری دانشوروں کا ایک طریق کار ہے جسے وہ اُس وقت سے نبھا رہے ہیں جب سے 1947ء کی 14 اگست کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ایسی ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا جو اسلام کے نام پر بنی تھی۔ انہیں کسی اور مذہب کی بنیاد پر وجود میں آنے والی ریاست سے کوئی نفرت نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ عیسائیت کی بنیاد پر انڈونیشیا سے الگ ہونے والے خطے مشرقی تیمور کی بھی مخالفت کرتے۔ انہیں 9 جولائی 2011ء کو عیسائیت کے نام پر سوڈان سے آزاد ہونے والے ملک جنوبی سوڈان سے بھی نفرت ہوتی۔ دنیا بھر کا سیکولر، لبرل، یہاں تک کہ انسانی حقوق کا علَم بردار طبقہ اکثریتی طور پر صرف اور صرف ایک مذہب سے نفرت کرتا ہے، اور وہ ہے اسلام۔ اور اسے صرف ایک ملک کا وجود زہر لگتا ہے، اور وہ ہے پاکستان۔
اللہ کے نام پر بننے والے اس ملک کو ناکام ثابت کرکے، گالی دے کر، اسے زوال پذیر بتاکر وہ اپنے اندر اسلام سے نفرت اور بغض کی آگ کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے یہ بزدل لوگ جب اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ کہنا چاہتے ہیں اور کہہ نہیں پاتے تو مولوی کو نشانہ بناکر دل کا غبار نکال لیتے ہیں۔ پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے میرے ملک کی اسلامی شناخت سے بغض رکھنے والا یہ دانشور طبقہ گزشتہ 47 سال سے بنگلہ دیش کی کامیابیوں کی کہانیاں سنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ ایک اسلامی شناخت والے ملک سے آزاد ہوکر بنگلہ دیشی کس قدر اطمینان اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان دانشوروں کے پاس اپنے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے دنیا کا سب سے بڑا دھوکا یعنی معاشی ترقی کے اعداد و شمار ہیں جن کو وہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ایسے ہیں جیسے ایک آدمی کی تنخواہ پچاس لاکھ ماہانہ ہے، جبکہ ننانوے لوگ دس ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں۔ یوں پورے ملک کی اوسط ماہانہ تنخواہ 64,850 روپے بن جاتی ہے اور ملک کتنا خوش حال دکھائی دیتا ہے۔
جس بنگلہ دیش کو یہ ’’فاریکس ریزرو‘‘ اور ’’ٹریڈ بیلنینن،، جیسے الفاظ بول کر خوش حال ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دنیا کے نقشے پر1971ء کے بعد سے ایک ایسے ملک کے طور پر سامنے آیا اور آج بھی ہے جہاں سے بھارت جیسے مفلوک الحال، غربت کے مارے اور دنیا کی سب سے بڑی جھونپڑ پٹی جیسے ملک میں نہ صرف ایک کروڑ کے لگ بھگ بنگلہ دیشی معمولی نوکریاں کرنے کے لیے غیر قانونی طریقے سے داخل ہوتے ہیں بلکہ لاکھوں بنگالی بچیاں بھارت اسمگل کی جاتی ہیں۔
بنگلہ دیش انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز نے صرف چھ ماہ قبل یعنی جولائی 2018ء میں ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق گزشتہ دس سال میں ہر سال پچاس ہزار بچیاں، جو بارہ سال سے تیس سال تک کی عمروں کی تھیں، بھارت اسمگل کی گئیں۔ اس وقت تین لاکھ بنگالی بچیاں، جو سولہ سال سے کم عمر ہیں، بھارت کے جسم فروشی کے بازاروں میں دھندہ کرنے پر مجبور کردی گئی ہیں۔ اسی طرح کے اعداد و شمار ایک مشہور این جی او جسٹس اینڈ کیئر نے بھی شائع کیے ہیں۔ مغربی بنگال کے بارڈر پر واقع تین علاقے میتہ بازار، کول ٹالی اور کانگ ہیں جہاں بنگلہ دیشی بچیوں کی منڈیاں آج بھی لگتی ہیں۔ چھوٹے سے علاقے میتہ بازار میں چار سو بنگلہ دیشی لڑکیوں پر مشتمل جسم فروشی کا بازار موجود ہے۔ کول ٹالی کے پاس ایک علاقے مادھو سودھان پور میں ہر دوسرے گھر میں ایک بنگلہ دیشی لڑکی ملے گی جسے کلکتہ کے بازارِ حسن سے خرید کر لایا گیا ہے۔
بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحد کے ساتھ حسن آباد اور بشیرہٹ کا سرحدی مقام پورے بھارت بلکہ دنیا بھر میں بنگالی عورتوں کی اسمگلنگ کے لیے مشہور ہے۔ خلیج بنگال میں گرتے ہوئے ندی نالوں اور سمندری جنگلات کی وجہ سے یہ علاقے اس خاردار تار سے محفوظ ہیں جو بھارت اور بنگلہ دیش نے دو ہزار کلومیٹر بارڈر پر لگائی ہے اور جو اس وقت دنیا کی سب سے خونیں خاردار تار بن چکی ہے۔ وہ غریب بنگلہ دیشی، جو بھارت جاکر چند ہزار روپے رزق کمانا چاہتے ہیں اور دلالوں کو پیسے نہیں دے سکتے، وہ اِدھر اُدھر بارڈر سیکورٹی فورسز والوں کی نظروں سے بچ کر بلند و بالا خاردار تار کو پھلانگنے کی کوشش کرتے ہیں اور روز کسی نہ کسی بنگلہ دیشی کی خون آلود لاش وہاں لٹک رہی ہوتی ہے جسے بھارتی فوجیوں نے گولی کا نشانہ بنایا ہوتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کم سن بچے ہوتے ہیں جو پکڑے جائیں تو بدترین تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔
اس غیر قانونی بارڈر کراسنگ کے بارے میں بنگلہ دیش کی بارڈر پولیس نے یکم جنوری 2000ء سے 31 مئی 2018ء تک کی اٹھارہ سالہ رپورٹ شائع کی۔ ان کے نزدیک بھارتی سیکورٹی فورسز نے سرحد عبور کرنے والوں میں سے 1136افراد کو گولی مار کر قتل کردیا، 1065 شدید زخمی ہوئے، 1360اغوا کرلیے گئے، 15 عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی، 111 لاپتا ہیں، 157 سے نقدی اور سامان چھین لیا گیا اور 354 کو واپس بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا۔ یہ کہانی اُس مشرقی پاکستان کی ہے جس کے بارے میں 1971ء سے پہلے میرے ملک کا لبرل، سیکولر دانشور یہ کہا کرتا تھا کہ یہ تقسیم ہی غلط تھی۔ بھلا مذہب کے نام پر کوئی ملک ایک ہزار میل کی دوری پر ایک ساتھ رہ سکتا ہے! ایک پوری مہم کے تحت ایک بنگالی تہذیب، کلچر، موسیقی، شاعری اور زمین و فضا کی کہانی بیان کی گئی۔ نفرتوں کی فصل بوئی گئی اور بھارتی فوج کی مدد سے بنگلہ دیش بنادیا گیا۔ مگر یہ کیا! بنگلہ دیش علیحدہ ملک کیوں؟ وہ بنگالی تہذیب و نسل کہاں چلی گئی؟ کلکتہ کا بنگالی ہندو تھا وہ بنگالی رہا، لیکن ڈھاکہ کا بنگالی بنگلہ دیشی کہلایا کیونکہ وہ مسلمان تھا۔ تقسیم صرف مذہب کے نام پر ہوئی، لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں۔
اس دو قومی نظریے پر مہرِ تصدیق اُس وقت لگی جب دو دن پہلے بھارت کی لوک سبھا میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے شہریت کا ایک ترمیمی بل پیش کیاکہ بھارت پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی تفریق سے تنگ آکر بھاگنے والے ہندو، سکھ، چینی، پارسیوں، بودھ اور مسیحیوں کو شہریت دے گا۔ بل میں نیپال اور سری لنکا کی مسلمان اقلیت کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ مسلمان کا نام ہی اس فہرست سے خارج ہے۔ ان میں وہ کروڑوں غیر ملکی بنگلہ دیشی تارکین وطن بھی ہیں جن کی آج پورے بھارت میں جانچ پڑتال ہورہی ہے۔ اس جانچ پڑتال کے تحت آسام میں چالیس لاکھ ایسے بنگلہ دیشی سامنے آئے ہیں جن کے بھارتی شہریت کے کاغذات کو جعلی قرار دے دیا گیا ہے اور وہ غریب الدیار بنگالی اس بنگلہ دیش میں بھی واپس نہیں جانا چاہتے جسے میرا سیکولر، لبرل، سود پرست جمہوری دانشور ایک خوش حال اور معاشی طور پر مستحکم بنگلہ دیش کہہ کر پکارتا ہے۔ اس سب کے باوجود یہ دانشور بلوچستان، سندھ اور خیبر پختون خوا میں نعرہ لگاتا ہے کہ ہم نے بنگلہ دیش سے کچھ نہیں سیکھا۔ دربدر بکتی ہوئی بنگلہ دیشی لڑکیوں سے پوچھو، بھارت میں پہچان سے عاری ڈیڑھ کروڑ بنگلہ دیشیوں سے جاکر پوچھو، تم نے 1971ء کے سانحے سے کچھ سیکھا ہے؟ تو پھر پتا چلے گا۔ 2007ء میں کلکتہ میں پاکستانی سول سوسائٹی کی ایک خاتون نے بازارِِ حسن میں بنگلہ دیش سے لائی گئی ایک بدنصیب خاتون سے پوچھا تھا: تم پاکستان سے علیحدہ ہوکر خوش ہو؟ تو اُس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا تھا: میری جگہ اس سات فٹ ضرب سات فٹ کے کمرے میں گاہکوں کے انتظار میں کھڑے ہوکر دیکھو، پتا چل جائے گا۔

حصہ