دردِ دل کے واسطے پید ا کیا انسان کو…!۔

517

اسٹیج سے عطیات کے اعلانات ہورہے تھے کہ اچانک درمیان کی صفوں میں سے ایک صاحب آگے بڑھے، مائیک سنبھالا اور گویا ہوئے ’’میں کوئی مالدار شخص نہیں، مگر اپنی والدہ کے لیے دس اینٹیں عطیہ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ شخص تھوڑی دیر رکا اور پھر کہا ’’میں اپنے والد کی روح کو بھی سکون پہنچانا چاہتا ہوں، اس کے لیے دس اینٹیں اور عطیہ کرتا ہوں۔‘‘
وہ ایک بار پھر مخاطب ہوا اور کہا ’’میں اپنی وفادار بیوی اور زندگی بھر کی ساتھی کے لیے بھی دس اینٹیں عطیہ کرتا ہوں‘‘۔
وہ پھر اٹھا اور تھوڑی دیر بعد کہا ’’میرے دو بیٹے ہیں، میں دس دس اینٹیں اُن کے لیے بھی عطیہ کرتا ہوں، تاکہ جب وہ بڑے ہوں تو وہ بھی اپنے باپ کے لیے اسی طرح صدقے کا اہتمام کرتے رہیں۔‘‘
اب مجمع پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھا۔ وہ ایک بار پھر گویا ہوا ’’میری دو بیٹیاں بھی ہیں، سب سے چھوٹی ایک ہفتہ قبل پیدا ہوئی ہے۔ میں ان پیاری بیٹیوں کے لیے بھی دس دس اینٹیں راہِ خدا میں لگاتا ہوں۔ اور اب گھر کا آخری فرد بس میں ہی بچا ہوں، سو میں اسپتال کے ایک مریض کی کفالت اپنے ذمے لیتا ہوں۔‘‘
پھر اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ’’پروردگار میں نے اپنا پورا خاندان تیرے سپرد کردیا، تُو اسے قبول فرما۔‘‘
یہ شخص سندھ کے چھوٹے سے شہر ڈھرکی میں یتیم بچوں کی کفالت اور اسپتال کے لیے منعقدہ فنڈریزنگ کی تقریب میں شریک تھا۔
پاکستان میں رفاہی اداروں کا کردار ہمیشہ سے بڑا اہم رہا ہے۔ ان اداروں میں الخدمت فاؤنڈیشن، شوکت خانم، اخوت، انڈس اسپتال، ایدھی فاؤنڈیشن کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہ ادارے رفاہی میدان میں حکومت کی ذمہ داریوں کو کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ملک میں قدرتی آفات ہوں تو الخدمت فاؤنڈیشن بڑی افرادی قوت اور وسائل کے ساتھ میدان میں نظر آتی ہے، وہ متاثرین کی موقع پر مدد کے ساتھ ساتھ ان کی بحالی تک مکمل ضروریات کو پورا کرتی ہے، جبکہ بحالی کے ٹھوس اقدامات مکانات، مساجد، اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ یتیم بچوں کی کفالت اور یتیم خانوں کے حوالے سے بھی الخدمت نے نئی جہت متعارف کروائی ہے۔ آغوش کے نام سے قائم کردہ اداروں میں والدین سے محروم بچوں کی رہائش اور تعلیم کا ایسا نظام نظر آتا ہے جس نے یتیم خانوں کے تاثر کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ پاکستان میں صحتِ عامہ کی صورتِ حال کچھ زیادہ اچھی نظر نہیں آتی، غریب اور متوسط طبقے کے لیے مسائل کہیں زیادہ ہیں، اور خدانخواستہ اگر کینسر یا کوئی اور موذی مرض لاحق ہوجائے تو حالات سے مقابلہ کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ ایسے میں لوگوں کی نظریں شوکت خانم، انڈس اسپتال، SIUTکی طرف اٹھتی ہیں۔ یہ بات انتہائی حوصلہ افزا اور خوشی کا باعث ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ دل کھول کر ایسے اداروں کو عطیات دیتے ہیں اور ان کو چلانے میں اپنا کردار بخوبی ادا کرتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی ادارے کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان عطیات دینے میں انگلینڈ اور کینیڈا جیسے امیر ممالک کی فہرست میں موجود ہے۔ پاکستان اپنی GDP کا ایک فیصد سے زیادہ عطیات کی مد میں دیتا ہے، جبکہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک انڈیا، بہ لحاظ GDP پاکستان سے 50فیصد کم رقم عطیات کی مد میں دیتا ہے۔ Pakistan Centre for Philanthropyکے مطابق پاکستانی عوام 240 ارب روپے سالانہ عطیات کی مد میں دیتے ہیں جو کہ ملکی معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے بہت زیادہ ہے۔ایک سروے کے مطابق پاکستان کے 98 فیصد افراد اپنی اپنی بساط کے مطابق عطیات دیتے اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے شہروں کے افراد یکساں طور پر اس کارِِ خیر میں حصہ ڈالتے ہیں۔ اس کا ایک واضح ثبوت سندھ کے چھوٹے شہر ڈہرکی میں منعقدہ چیریٹی ڈنر میں دیکھنے میں آیا۔
سندھ اور پنجاب کو ملانے والے ضلع گھوٹکی کے اہم شہر ڈہرکی میں 19 دسمبر کو ایک شام سجائی گئی تھی جس کا مقصد شہر میں واقع میڈیکل سینٹر کی توسیع اور ڈہرکی شہر کے یتیم بچوں کی کفالت کے لیے عطیات جمع کرنا تھا۔ اس شام کو سجانے کے لیے شہر کی خوبصورت ترین جگہ اور ملک کی معروف شخصیات محمد عبدالشکور (صدر الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان) اور اختر عباس (نامور ادیب اور ٹرینر) کا بطور مہمان انتخاب کیا گیا۔
6 بجتے ہی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ مہمانوں کے استقبال کے لیے داخلی دروازے پر الخدمت کی مقامی ٹیم موجود تھی جو ہر مہمان کا گرم جوشی سے استقبال کرتی اور نشست تک چھوڑ کر آتی، ساتھ ہی ہر مہمان کو ایک عدد فائل فولڈر بھی دیا جارہا تھا جس میں تشہیری اور معلوماتی بروشر، نوٹ پیڈ، وعدہ فارم اور ایک عدد پین تھا۔ جلد ہی ہال مہمانوں سے بھرگیا اور خوبصورت آواز میں تلاوتِ کلامِ پاک اور نعت ِ رسول ِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ مقامی ذمہ داران نے الخدمت ڈہرکی کی سالانہ رپورٹ پیش کی، جس کو دیکھ کر چند نوجوانوں پر مشتمل ٹیم پر رشک آیا جو کہ اپنی روزانہ کی تمام تر مصروفیات کے ساتھ ساتھ وقت اور صلاحیتوں کا اہم حصہ انسانیت کی بے لوث خدمت کے لیے نکالتے ہیں۔
سالانہ رپورٹ میں سب سے نمایاں اور اہم منصوبہ الخدمت اسپتال ڈہرکی نظر آیا۔ الخدمت ضلع گھوٹکی کے صدر محمد ذیشان نے بتایا کہ الخدمت اسپتال کا یہ منصوبہ ایک کمرے سے جُز وقتی کلینک کی صورت میں شروع کیا جو اب تین منزلہ اسپتال کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے ذیشان بھائی نے ایک اہم بات یہ بتائی کہ اس اسپتال کی تعمیر میں بڑا حصہ مقامی ہندو تاجروں کا ہے، بلکہ جس زمین پر یہ اسپتال قائم ہے یہ ایک ہندو تاجر نے اصل قیمت سے بہت کم قیمت پر الخدمت کو دی اور اب تک اپنا حصہ ملاتے آرہے ہیں۔
لاہور سے آئے اختر عباس شائستہ لہجے اور پُراثر اندازِ گفتگو سے شرکاء کے دلوں کو گرما رہے تھے۔ میزبانوں نے اسپتال بنانے کی تاریخ، جدوجہد کی داستان اور کامیابیوں کے انوکھے اور دلچسپ واقعات سنائے۔
انتظامیہ نے لوگوں کی آسانی کے لیے تعمیر کی ایک اینٹ کی قیمت پندرہ سو روپے مقرر کر رکھی تھی، اور لوگ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اعلانات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔
عطیات کا سلسلہ شروع ہوا تومقامی ہندو برادری نے پہل کی، بچوں نے بھی گلک میں جمع کیا ہوا جیب خرچ یتیم بچوں کی کفالت کے لیے عطیہ کیا۔ پنڈال میں موجود خواتین نے بڑے دل کا مظاہرہ کیا اور اپنی محبوب ترین چیز سونے کے زیور عطیے کے طور پر الخدمت کے حوالے کردیے۔ حالانکہ خواتین کی زیورات سے جذباتی وابستگی ہوتی ہے، لیکن چونکہ مقصد اس سے کہیں بلند تھا تو پہنے ہوئے زیورات بھی عطیہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی۔ شرکاء کے پُر کیے ہوئے وعدہ فارم پڑھ کے بتائے جارہے تھے اور لگ یوں رہا تھا جیسے اس نیک کام میں لوگ ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتے ہیں۔
فنڈ ریزنگ کا اختتام ہوا تو اسٹیج پر لگی اسکرین پر 40لاکھ کی فِگر چمک رہی تھی۔ ڈہرکی جیسے چھوٹے سے شہر میں اتنے کم وقت میں اتنی بڑی رقم جمع ہونا یقیناً لوگوں کی دریا دلی کا واضح ثبوت ہے۔
پاکستان میں سینکڑوں فلاحی ادارے ایسے ہی دردِ دل رکھنے والے افراد کی وجہ سے چل رہے ہیں۔ ملک اور ملک سے باہر بسنے والے ہر پاکستانی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے فلاحی اداروں کے ساتھ کریں تاکہ معاشرے کے غریب اور بے سہارا لوگوں کی زندگی رواں دواں رہے۔

حصہ