شہر قائد کی تفریح گاہوں پر مافیا کا راج

571

عارف میمن
سی ویو کراچی میںایک ایسی تفریح گاہ ہے جہاں نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک سے لوگآتے ہیں۔ ایک طرف جہاں فیملیز سیروتفریح کی غرض سے آتی ہیں وہیں بہت سے لوگ سکون اورشور شرابے سے دور رہنے کے لیے اس جگہ کا رخ کرتے ہیں ۔ جب کہ بعض لوگ ایسے ہیں جنہیں اس جگہ سے بے حد لگائو ہے اور وہ روزانہ کی بنیا دپر مصروفیت باوجودیہاںآ کر اپنی پریشانی اوربے چینی دور کرتے ہیں ۔
سی ویو آنے والے گزشتہ ایک سال تک تو مفت اس جگہ کا رخ کرتے رہے ہیں مگر اب کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کی مہربانی سے ایک مرتبہ پھر پارکنگ کے نام پربھتہ وصولی مہم شروع کردی گئی ہے۔جس کے تحت نشان پاکستان پارک اور بن قاسم پارک کادورہ کرنے کے لیے بھی الگ الگ پارکنگ فیس کے نام پر شہریوں کے ساتھ ایک بہت بڑا دھوکا کیاجارہاہے ۔اصولاً پارکنگ فیس وصول کرنے کے بعد دی گئی پرچی پر شہریوں کا حق ہونا چاہیے لیکن یہاں کا اصول ہی نرالا بنایاگیا ہے وہ یہ ہے کہ پارکنگ کی پرچی واپسی پر لے لی جاتی ہے تاکہ کوئی ثبوت ہی نہ ہو۔
موٹرسائیکل سے لے کر رکشہ ،ٹیکسی ،کار اور کوچ سے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے بٹورے جارہے ہیں جس کاکسی کے پاس کوئی حسا ب نہیں ۔ یہ اندھی کمائی کا ایک بہترین اور آسان ذریعہ ہے جسے آج پورے کراچی میں لاگو کردیاگیا ہے، اس کے پیچھے کوئی فردواحد نہیں بلکہ وہ ادارے ہیں جن کا کام قانون پرعملدرآمد کرانا ہے۔تاہم یہ تمام ادارے مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں ، ان اداروں نے تمام آمدنی والے کام ٹھیکے پر دے دیے ہیں تاکہ ان سے کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہ ہواور یہ آرام سے اپنا اپنا حصہ لے کر سائیڈ پر ہوجائیں ۔
پارکنگ ایریا میں پرچی کاٹنے والے ایک شخص کے مطابق صرف سی ویو پر روزانہ 2ہزار سے زائد گاڑیاں آتی ہیںجب کہ تعطیل پریہ تعداد دگنی ہونے کے ساتھ کمائی بھی ڈبل ہوجاتی ہے۔ یہ سارا کام ٹھیکے پر دیاگیا ہے اور یہاں پر کام کرنے والے بھی ٹھیکے دار کے لوگ ہیں جنہیں روزانہ کی بنیاد پر دیہاڑی دی جاتی ہے۔ باقی بن قاسم پارک اور نشان پاکستان پارک کی پارکنگ میں بھی روزانہ لگ بھگ اتنی ہی گاڑیاںآتی ہیں اوروہاں بھی یہ ہی نظام رائج ہے۔
پارکنگ فیس یا بھتہ
ایک اندازاے کے مطابق روزانہ ایک ہزار موٹرسائیکل ،300رکشہ ،200ٹیکسی ،400کار اور100بڑی گاڑیاں ساحل سمندر کا رخ کرتی ہیں جس کی پارکنگ فیس کا حساب کچھ یوں بنتا ہے۔ 20ہزار روپے موٹر سائیکل کی پارکنگ،9ہزار روپے رکشہ کی پارکنگ،8ہزار روپے ٹیکسی ،20ہزار روپے کاراور 10ہزار روپے بڑی گاڑیوں کی پارکنگ فیس کی مد میں وصول کیے جارہے ہیں جوتقریبا67ہزار روپے روزانہ بنتے ہیں ۔ یہ صرف سی ویو کی چندجگہوں کا حساب ہے باقی مقامات اس میں شامل نہیں اور نہ ہی اس میں بن قاسم پارک اور نشان پاکستان پارک کا حساب شامل ہے۔ اگر تمام جگہوں کا حساب کیاجائے تو یہ روزانہ ڈھائی لاکھ روپے سے زائد اورماہانہ 70سے 80لاکھ روپے بنتا ہے۔ ایک ماہ میں 80لاکھ روپے صرف پارکنگ کی مد میں وصول کیے جارہے ہیں اس کے علاوہ ٹھیلہ لگانے والے ،کیفے شاپس ،جیپ ڈرائیو اوراسٹال لگانے والوں کا ٹھیکہ الگ ہے ،جوماہانہ ایک کروڑ روپے سے زائدبنتا ہے۔ اس ساری صورت حال کے باوجود سی ویو کی صفائی کا کام این جی اوز سرانجام دیتی نظرآتی ہیں ۔ کنٹونمنٹ کا کوئی بھی ملازمین نظرنہیں آتا ۔
پرسکون جگہ کو شورشرابے کے حوالے کردیاگیا
ساحل پر آنے والا شخص سکون کی تلاش میں ہی یہاں آتا ہے شہر کی بے سکون زندگی سے پریشان ہوکر یہاں چند لمحات سکون کی تلاش میں جب کوئی شخص یہاں آتا ہے تو کنٹونمنٹ کے نام نہاد ٹھیکے دار اس کا سکون غارت کردیتے ہیں۔ دنیا میں کسی بھی ساحل پر ایسی صورت حال نہیں جیسی کراچی سی ویو پر ہے۔ ساحل سمندر پر جانے والا شخص صرف لہروں کے شور سے خوش ہوتا ہے اور اس میں کھو کر وہ دنیا سے بے خبر ہوجاتا ہے تاہم کراچی کے ساحل سی ویو پر آنے والے اس خوشی سے محروم ہی واپس لوٹتے ہیں، یہاں پر کنٹونمنٹ اور پولیس نے مافیا کو کھلی بدمعاشی کا لائسنس دے رکھا ہے جو جنریٹر نما جیپ چلا کر ایک طرف لوگوں کی جان سے کھیل رہے ہیں تو دوسری طرف اس کے شور سے شہریوں کا سکون بھی غارت ہورہاہے ۔ یہ جنریٹر نما جیب معصوم بچوں اور خواتین کو زخمی کرنے کاسبب بن چکی ہے ، لیکن یہ مافیا اتنی طاقتور ہے کہ آج تک ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیاگیا اور نہ ہی مستقبل میں اس کی امید کی جاسکتی ہے۔ کئی گھرانے ان کی بے ہودگی اور بدتمیزی کا شکار ہوچکی ہیں اس ساری صورت حال میں پولیس ساحل پر نظرنہیں آتی اوراگر کبھی اتفاق سے نظرآبھی جائے تو وہ کسی کونے کھانچے میں اپنی چائے پانی کا بندوبست کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ جب ہم نے ایس ایس پی سوہائی عزیز سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی تو انہوںنے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا بلکہ انہوں نے یہ کہہ فون بند کردیا کہ کرائم کا معاملہ میں دیکھتی ہوںجبکہ پارکنگ کا معاملہ ٹریفک پولیس کے ذمے ہے اگر کوئی کرائم کے حوالے سے بات کرنی ہے تو مجھ سے پوچھیے ۔ جب ہم نے ان سے یہ کہا کہ ساحل پر پولیس نظرنہیںآتی تو اس پرایک مرتبہ پھر ان کایہی جواب تھاکہ یہ ٹریفک پولیس کا معاملہ ہے اور اس کے بعد انہوںنے فون بندکردیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب اگر ساحل پر کسی شخص کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس کا علاج صرف ٹریفک پولیس ہی کے پاس ہے ۔
ساحل پر بینچ ٹوٹ پھوٹ کا شکار
ماضی میں سی ویو پر شہریوں کی سہولت کے لیے بینچ اورسائے کے لیے پلاسٹک کی چھتریاں نصب کی گئیں تھیں تاہم آج ان کا حال ادارے کی کارکردگی کا منہبولتا ثبوت ہے۔ ساحل پر ہر جگہ صرف پیسا بولتا ہے لیکن وہ پیسا کس کی جیب میں جارہا ہے اس کا کسی کو علم نہیں۔ کوئی ذمے دارشخص بھی اس بگڑتی صورت حال کو بہتر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
لائف گارڈ دوربین میں بھی نظرنہیں آتے
ساحل پر اگر کوئی ڈوب جائے تو اسے بچانے کے لیے نیوی کا سہارا لیاجاتا ہے ،یا پھر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت یہ کام کرتے ہیں ،کیوں کہ لائف گارڈز کبھی ساحل پر نظرنہیں آتے ۔ اس حوالے سے جب ہم نے لائف گارڈ کی تلاش کی تو ہمیں اس میں شدید ناکامی کا سامنا کرناپڑا۔ تاہم ساحل پر موجود ایک ٹھیلے والے کے مطابق لائف گارڈ کبھی کبھار ہی ساحل پر نظرآتے ہیں یا پھر اس دن نظرآتے ہیں جب کوئی ایونٹ ہو۔ ویسے کبھی نہیں آتے ۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ یہ لوگ کہا بیٹھتے ہیں کوئی جگہ ہے ان کے بیٹھنے کی تو ٹھیلے والے نے بتایا کہ ان کی یہاں پر کوئی مخصوص جگہ کا تو مجھے بھی علم نہیں ،میرے خیال سے ایسی کوئی جگہ نہیں ہے کیوں کہ اگر ہوتی تو ہمیں ضرور معلوم ہوتی۔ جب اس سے یہ پوچھا کہ کوئی حادثہ ہوجائے تو پھر کیا کرتے ہیں ۔ اس پرٹھیلے والے نے بتایا کہ ایسی صورت حال کم ہی ہوتی ہے اور اگر کبھی ہوبھی جائے تو لوگ اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت اس کام کو سرانجام دیتے ہیں،کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس ساری صورت حال میں جہاں سے کنٹونمنٹ کروڑوں روپے سالانہ وصول کررہا ہے کو مسلسل نظرانداز کیے ہوئے ہے ۔یا پھر شاید کسی بڑے حادثے کے انتظار میں ہے۔ کیوں کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہی ہے کہ جب تک کوئی حادثہ پیش نہیں آتا اس وقت تک کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے جاتے یا موجودہ حفاظتی نظام کو فعال نہیں کیاجاتا ۔ اس کی تازہ مثال عسکری پارک میں پیش آیاحادثہ ہے جس کے بعد تمام مشینری حرکت میں آگئی تھی۔ لیکن اس کیس کا کیا ہوا اس کا کسی کو علم نہیں۔
بوٹ بیسن
بوٹ بیسن میں واقع ایک پارک کی صورت حال ان سب سے مختلف ہے، جہاں پارکنگ اور داخلہ فیس ختم کردی گئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ پارک کا آدھے سے زیادہ حصہ دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیاجاتاہے جہاں پر فیسٹیول کے نام پر شہریوں سے داخلہ فیس 300روپے وصول کی جاتی ہے جب کہ پارکنگ فیس اس کے علاوہ ہے۔ اس لیے پارک کا بچا کچا حصہ غریب شہریوں کو مفت تفریح کی غرض سے فراہم کیاگیا ہے تاہم وہاں پر کچھ لوگ شہریوں سے اس سہولت کوبھی چھین رہے ہیں اور داخلہ فیس بغیر پرچی کے 20سے 30روپے فی شخص وصول کیا جارہاہے ، جب کہ موٹرسائیکل پارکنگ کی مد میں 30روپے الگ سے ادا کرنے پڑتے ہیں ۔ ان بدمعاش لوگوں سے جب پرچی طلب کی جاتی ہے تو وہ پہلے مختلف بہانے تراشتے ہیں کہ بندہ پرچی لینے گیا ہوا ہے ۔ آپ اندر جائو ،ہم پرچی لے کرآتے ہیں۔ اس طرح کے بہانے کرکے پیسے وصول کرلیے جاتے ہیں اور جو شخص ان کی بدمعاشی اور بہکاوے میں نہ آئے تو وہ لوگوں پر تشدد کرتے ہیں اوروہ فیملیز کا بھی خیال نہیں کرتے۔ جب کہ خود کو سرکاری ملازم ظاہر کرکے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہاں کا ٹھیکہ ہم نے لیا ہے جائو جو کرنا ہے کرلو۔
پارک کے اندر غیرقانونی حرکتیں
پارک میں فیملیز بہت کم آتی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ وہاں کا بے ہودہ ماحول ہے ۔ یہ لوگ چند روپو ں کی خاطر (لورز) کو داخلہ دینے کے بعد ان کی بے ہودہ حرکات کی پہرہ داری بھی کرتے ہیں۔ جب کہ گروپ میں آئے اوباش قسم کے لڑکوں کے لیے منشیات کا اڈہ بنایا ہوا ہے جہاں پر منشیات فروخت اور استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم یہ سب پولیس کے علم میں ہے لیکن اس کے باوجود کوئی اس پر ایکشن لینے کو تیار نہیں ۔ وجہ صرف مافیا کا مضبوط ہونا بتایاجاتا ہے۔ اس ضمن میں پارک میں آئی چند فیملیز سے جب بات کی تو معلوم ہوا کہ وہ یہاں پہلی مرتبہ آئے ہیں لیکن یہاں کا ماحول دیکھ کر اب واپس جارہے ہیں کیوں کہ جگہ جگہ بے ہودگی پھیلی ہوئی ہے اور انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ شکایت بھی کریں تو کس سے کریں جب کہ تمام لوگ ہی اس میںملوث ہیں ۔

حصہ