کہا: تخلیق فن؟ بولے: بہت دشوار تو ہوگی

563

قدسیہ ملک
سائنس دان اور امریکن میزائل منصوبے پر کام کرنے والے آئزک ایسموف کہتے ہیں کہ تخلیقی عمل الجھا دینے والا عمل ہے، اس دوران دوسروں کی اردگرد موجودگی اس عمل میں رکاوٹ بنتی ہے۔ کسی نئے اور اچھے تصور کے لیے آپ ہزاروں کی تعداد میں بے وقوفی کی باتیں بھی سوچتے ہیں جنھیں آپ ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ صلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن ان صلاحیتوں کا استعمال نہیں کرتے تو آپ کو ان عوامل کے ذریعے بآسانی تخلیقیت پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ آسانی، سہولت، اعصابی سکون اور خیالات کو آزادانہ استعمال کرنے والا ماحول۔
عمومی رجحان یہ ہے کہ معاشرہ تخلیقی کام کو مسترد کرتا ہے، بلکہ لوگوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا حامل ہونا برا سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہم میں سے کوئی بے وقوفی کی باتیں سوچتا ہے تو لوگ اس پر طنز کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں جس سے اس کے تخلیقی ذہن کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بچہ خود ہی فضول چیزوں میں سے اپنے لیے کارآمد سامان نکال کر کوئی نئی چیز تخلیق کرے تو بہت کم والدین اس عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ زیادہ تر کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ اسے اپنے اسکول کی پڑھائی سے زیادہ ان فضول کاموں سے رغبت ہے۔ اسکول کی پڑھائی یاد کرنا اورعرفِ عام میں رٹا لگانا ہے۔ میں آپ کو یہ بات بتانا چاہتی ہوں کہ رٹا لگانے سے تخلیقی ذہن کو جس قدر نقصان پہنچتا ہے شاید ہی اور کسی عمل سے پہنچتا ہو۔ ایک ماہر نفسیات کے الفاظ میں: ’’ہمارے ہاں اُس بچے یا فرد کو پسند کیا جاتا ہے جو فرماں بردار ہے، دوسروں کا ادب کرتا ہے، اپنا کام وقت پر مکمل کرتا ہے۔ اس کے ہم عصر اسے پسند کرتے ہیں، اور جو دوسروں میں مقبول ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم ایسے بچوں کو پسند نہیں کرتے جو بہت زیادہ سوال پوچھتے ہیں، سوچنے اور فیصلہ کرنے میں خود مختار ہوتے ہیں، اپنے عقائد پر ڈٹے رہتے ہیں، کسی کام میں مگن رہتے ہیں اور کسی بااختیار شخص کی بات کو من و عن قبول نہیں کرتے۔
ماہرِ تعلیم کے مطابق بچوں کو بوریت کا شکار ہونے دینا چاہیے تاکہ ان میں پیدائشی تخلیقی صلاحیت کی نشوونما ہوسکے۔
ڈاکٹر ٹریسا بیلٹن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عام رواج یہ ہے کہ بچوں کو مسلسل متحرک رہنا چاہیے، لیکن یہ بچوں میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہونے کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ انہوں نے مصنفہ میرا سیال اور فن کار گرسن پیری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کس طرح سے بوریت نے بچپن میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کیا۔ سیال کا کہنا ہے کہ بوریت نے ان کو مصنفہ بنادیا، جبکہ پیری کے مطابق وہ ایک ’تخلیقی کیفیت‘ تھی۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں رٹا سسٹم ہی آج کل کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، حتیٰ کہ تحقیق کے کام میں بھی وہی ماہر سمجھے جاتے ہیں جن کو کتاب ازبر ہو۔ یہ ہمارا المیہ ہے۔ میں اگر آپ سے پوچھوں ’’اے فار‘‘؟ تو ہم میں سے بیشتر کا یہی جواب ہوگا’’ایپل‘‘، کیونکہ ذہن میں یہی ہے۔ بیشتر اسکول بچوں کو رٹا سسٹم کا عادی بنا رہے ہیں جس کے باعث ان کا تخلیقی عمل متاثر ہوتا ہے۔ معاشرے میں اُسی بچے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جو امتحانوں میں بہت زیادہ نمبر لے کر پاس ہوا ہو۔ یہ بات یاد رکھیے کہ تخلیقی افراد کبھی بھی رٹا نہیں لگا سکتے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سوسن گرین فیلڈ، جنہوں نے “The Human Brain” لکھی ہے، کا کہنا ہے کہ انسان کا دماغ ایک خاص کیفیت اور انداز میں کام کرتا ہے اور کسی وقت بھی اہم نوعیت کے مسائل کا حل پیش کردیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق کسی پریشانی کا حل یا تخلیقی خیالات عموماً کسی کام کے دوران یا رات بستر میں نیم غنودگی کی حالت میں آتے ہیں۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ مسئلے کے حل یا تخلیقی خیالات پر نیند کو اہمیت دیتے ہیں، اور اس طرح صبح کی آمد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، اور ایک خواب کی طرح خیال بھی اپنی ایک مدھم سی تصویر چھوڑ جاتا ہے۔ بیک اسٹریچر ایجاد کرکے عالمی شہرت حاصل کرنے والے موجد نیل سمر اپنے کامیاب تجربے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک رات میں اپنے بستر پر نیم غنودگی کی حالت میں تھا کہ اچانک میرے دماغ میں بیک اسڑیچر ایجاد کرنے کے خیال نے جنم لیا اور میں نے بستر چھوڑ کر قلم اور کاپی پر اپنے خیالات کو تفصیل سے لکھ لیا، اور یہی میری کامیابی کی پہلی سیڑھی تھی۔ نیل سمر کا طریقہ کار ہمارے معاشرے میں عیب کا باعث سمجھا جاسکتا ہے، کیونکہ آج کل کے زمانے میں کاغذ اور قلم کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے، اور اگر کوئی شخص اپنے پاس کاغذ اور قلم رکھتا ہے تو اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مگر ہمیں نیل سمر کے جذبے کو اپنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ اپنے پاس موجود کاغذ اور قلم کی ہی بدولت وہ اپنے خیال کو تحریری شکل میں لکھنے میں کامیاب ہوگیا، اور اسی کی بدولت اس نے بیک اسٹریچر جیسی بہترین ایجاد دنیا میں پیش کی۔
کالم نگار مبشر نذیر اپنے بلاگ میں عام افراد اور تخلیقی افراد کی کچھ نشانیاں بتاتے ہیں جو یہ ہیں:
1۔ عام لوگ سادگی، تسلسل اور ترتیب کو پسند کرتے ہیں، ابہام اور تضاد سے دور بھاگتے ہیں۔ خیالات کی توڑ پھوڑ سے گھبراتے ہیں۔ اس کے برعکس تخلیقی افراد کی شخصیت میں بہت لچک ہوتی ہے۔ وہ پیچیدہ اور الجھی ہوئی، نامکمل اور غیر متوازن چیزوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ اپنے خیالات میں پائی جانے والی شورش، عدم استحکام، پیچیدگی اور افراتفری سے نہیں گھبراتے۔
تخلیقی صلاحیتوں کے حامل شخص کا ذہن مسلسل سوچنے میں مصروف رہتا ہے۔ اس کے پاس جو معلومات ہوتی ہیں وہ انہیں سوتے میں بھی کھنگالتا رہتا ہے۔ مثلاً کیکولے(Kekule) نے بنزین کا ڈھانچہ سوتے میں دریافت کیا تھا۔
2۔ تخلیقی افراد اپنی خوبیوں اور خامیوں سے عام آدمی کی نسبت زیادہ آگاہ ہوتے ہیں۔
3۔ تخلیقی افراد دوسروں کے علاوہ خود کو بھی طنزومزاح کا نشانہ بنانے سے نہیں گھبراتے۔
4۔ جن اداروں میں تخلیقی افراد پیدا ہوتے ہیں وہاں کا ماحول آمرانہ نہیں ہوتا بلکہ تخلیقی افراد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
5۔ تخلیقی افراد زیادہ سوچنے اور کم بولنے کو اہمیت دیتے ہیں۔
تخلیقی عمل کی حوصلہ افزائی سے تخلیقی عمل، تخلیقی کام اور تخلیقیت میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے۔ مائیں بچوں میں، نوجوان اپنے ساتھی نوجوان دوستوں میں، خواتین آپس کی سہیلیوں میں، نگرانِ مجلس اپنی مجلس کے دوران، ناظم اپنے ساتھ کام کرنے والے کارکنان سے، باس اپنے ماتحت افراد سے اپنے دائرۂ عمل میں مشورہ اور مشاورت کرکے تخلیقی کام اور تخلیقیت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف معاشرہ مثبت کام کی طرف راغب ہوگا بلکہ معاشرے سے منفی سوچ، منفی تاثرات، منفی احساسات، منفی افعال کی بیخ کنی بھی متوقع ہے۔ اگر آپ اپنے ماتحت افراد سے کوئی تخلیقی کام کروانا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ ان افراد سے گھر پر جاکر خوشگوار ماحول میں چائے پیتے ہوئے بات کیجیے۔ اس طرح اچھے ماحول میں بات کرکے تخلیقیت کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔ تخلیقی سوچ کو فروغ دینے کے لیے برین اسٹورمنگ ہوتی ہے۔ اس میں گروپ ڈسکشن کے ذریعے کسی خاص مسئلے کے زیادہ سے زیادہ حل تلاش کیے جاتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں تجاویز کے منفی و مثبت پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس سے اگلے مرحلے میں متبادل راستے تلاش کیے جاتے ہیں۔ اس طرح تخلیقی کام فروغ پاتے ہیں۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں، عظیم سے عظیم تر تخلیق کے خیالات ان لوگوں نے پیش کیے ہیں جن کی خدمات کو ان کی حیثیت کے مطابق معاشرے میں سراہا نہیں گیا۔ مشہور سائنس دان ایڈیسن کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ تخلیقی عمل کا کوئی طریقہ واضح نہیں ہوتا، خود تخلیق کار بھی نہیں جانتا کہ تخلیقی خیالات کیسے وجود میں آجاتے ہیں۔ فیصلہ کرنے اور دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے سے تخلیقی سوچ نمو پاتی ہے۔ اپنے معاملات صاف رکھنا، سوالات کرنا، قوتِ فیصلہ کو بڑھانا، مشاورت کرنا، دوسروں کی رائے کو اہمیت دینا، دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنا، ایک ہی مسئلے کے کئی حل تلاش کرنا، ایک چیز کو کئی پہلوؤں سے سوچنا تخلیقیت کو پروان چڑھاتا ہے۔ سائنسی آلات کی تخلیق کے پیچھے جن افراد کا ہاتھ ہے ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کے موجدین نے اپنی لگن اور جستجو کے باعث اپنی موجودگی اور اہمیت کو اجاگر کیا، اور ان کی ایجاد کردہ تخلیقات کی بدولت انسانی تہذیب کی ترقی کے نئے دروازے کھلے۔ معاشرے کے ایک عام فرد کے لیے یقیناً یہ موجد باعثِ حیرت ہوں گے اور معاشرے میں بسنے والا ہر عام فرد ضرور یہ سوچتا ہوگا کہ ایسی کون سی صلاحیت ہے جس کی بنا پر معاشرے میں بسنے والے یہ لوگ عظیم تخلیقات کے موجد بن جاتے ہیں۔کائنات میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ حیرت کا سبب ہے تو وہ ’’دماغ‘‘ ہے۔ حالیہ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ دماغ ایک سیکنڈ میں 400کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 10 لاکھ نیورونز الیکٹروکیمیکل سگنلز کے ذریعے دماغ اور جسم کے دیگر حصوں سے رابطے کا کام کرتا ہے۔ ہر انسان تخلیقی ہوسکتا ہے۔
تخلیقیت کے ضمن میں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ بعض لوگ دین کے معاملے میں فکر و عمل کی تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں، جن کا ہم آئے روز تذکرہ سنتے رہتے ہیں، جو کہ ناقابلِ قبول ہے۔ اپنی حدود کا خیال رکھیے۔ سچے مسلمان رہیے۔ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس طرح دینِ اسلام ملا ہے اسے قبول کرنا ہی مسلمان کی پہلی نشانی ہے۔ دین کے معاملے میں تخلیقی صلاحیتوں کا اصل میدان احکامات کو سمجھنا، دین پر عمل کرنے اور اس کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں سے نبردآزما ہونے کے طریقے دریافت کرنا ہے۔ دین میں تخلیقی سوچ کی روح ہے۔ دین ہم تک کس طرح پہنچا، نئے اسلوب دریافت کرنا، تبلیغ کے نئے طریقے سیکھنا، لوگوں سے مشورہ کرنا، دین کے کاموں میں لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا، دینِ اسلام میں لوگوں کو ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا، لوگوں کو اصل دین سے روشناس کرانا، بدعات سے دور رکھنا، شرکِ خفی، شرکِ جلی اور کبائر گناہ سے دور رہنا، دینِ اسلام میں دورِ حاضر کی نت نئی ایجادات میں اپنے لیے تخلیقیت کو پروان چڑھانا ہی دین میں تخلیقیت ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سے دینِ اسلام کی بہترین خدمت لے لے۔ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی جنت میں لے جانے کا ذریعہ بنا دے، کیونکہ بقول شاعر

حق نے کی ہے دہری خدمتیں تیرے سپرد
خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے

حصہ