عورت کا مثبت کردار اور گھر

1307

افروز عنایت
شوکت: (فون پر) سلام بھابھی کیسی ہیں آپ؟
بھابھی:وعلیکم السلام بھائی، آپ اور تہمینہ اور بیٹا کیسے ہیں؟
شوکت: تمہینہ… وہی پرانی ڈگر… شادی کو چھ سال سے زیادہ گزر چکے ہیں معلوم نہیں کیا چاہتی ہے جو ماں ا ور بہنیں پڑھاتی ہیں وہیں کررہی ہے اس کا اپنا دماغ تو کام کرتا نہیں… بھابھی میں تو اب تھک گیا ہوں جب دیکھو روٹھ کر ماں کے گھر بیٹھ جاتی ہے۔
بھابھی:تحمل سے بھائی افہام و تفہیم سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
شوکت: افہام و تفہیم سے… یہ معاملہ میری افہام و تفہیم سے ہی اس وقت تک چلا ہے ورنہ تو… کب کا ختم ہوچکا ہوتا کبھی کسی بات کو ’’اشو‘‘ بناکر اسے (تہمینہ کو) میرے سامنے لا کھڑا کردیا جاتا ہے کبھی کسی بات کو… کیا آپ ملازمت کرکے اپنے شوہر کی مدد نہیں کررہیں، آپ کے لیے تو معلوم ہوا ہے آپ اپنی پوری تنخواہ گھر کے اخراجات کے مصرف میں لاتی ہیں اگر تہمینہ نے کبھی گھر کے لیے کچھ خرچ کر ڈالا تو کیا برائی ہے، آفس سے گھر آتا ہوں کہ ٹھنڈی چھائوں میں بیوی کے ہاتھ کی جاکر چائے پیوں گا تو گھر جاکر معلوم ہوتا ہے بیگم صاحبہ بہن کی طرف گئی ہیں، کبھی کبھار کی بات تو برداشت ہوجاتی ہے روز روز کی نہیں، ذرا بیوی سے اس سلسلے میںبات کی تو سالی صاحبہ کی طرف سے جواب آگیا کہ تمہاری نوکرانی نہیں کہ ہر وقت تمہارے نخرےاٹھاتی پھرے، اب تو بھابھی میں بہت تھک گیا ہوں، ایک مہینہ ہونے کو آیا ہے ناراض ہوکر گئی ہے، فون کررہا ہوں تو بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں، بڑی مشکل سے رابطہ ہو ہے میں نے تو کہہ دیا ہے کہ بیٹھ کر بات کرتے ہیں ورنہ خدا حافظ اور اگر اکیلی بیٹھ کر بات کرنے پر راضی نہیں تو بھابھی پھر…
بھابھی: شوکت بھائی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیے گا جس پر آپ کو ساری زندگی پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے ، ایسی چھوٹی موٹی باتیں تو ہر دوسرے گھر میں ہوتی ہیں، لیکن اس کا انجام اس طرح نہیں ہوتا، آپ دونوں بیٹھ کر سنجیدگی سے بات کریں، ان شاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا، کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو ذہن میں ضرور رکھیے گا، میں بھی تہمینہ سے بات کروں گی۔
شوکت: بھابھی میرا فون کرنے کا مطلب بھی یہی تھا کہ آپ اپنی نند کو سمجھائیں، ماں، بہن کے چکر سے نکل کر اپنے گھر کا سوچے۔
بھابھی نے اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے بہت سوچ سمجھ کر تہمینہ سے بات کرنے کا سوچا۔
بھابھی: (فون پر) وعلیکم السلام، کیسی ہو تہمینہ… کافی دنوں سے چکر ہی نہیں لگایا تم نے… اور شوکت بھائی کیسے ہیں؟
تہمینہ: مجھے نہیں معلوم کیسے ہیں وہ تو اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ …
بھابھی: تہمینہ بیٹا… تم میرے لیے میری چھوٹی بہن کی طرح ہو… ایک بات پوچھوں… آخر تم نے کیا سوچا ہے، کیا ارادہ ہے تمہارا ؟…
تہمینہ: بھابھی آپ کو پتہ ہے میں بالکل سیدھی سی لڑکی ہوں، میں تو اس کے سامنے بول بھی نہیں سکتی اپنے دفاع میں، وہ مجھے بات کرنے کے لیے بلا رہا ہے۔ باجی نے کہا ہے کہ میں ساتھ چلوں گی… اور شوکت اس بات پر راضی نہیں…
بھابھی (ذرا رُک کر) بیٹا یہ تم دونوں میں بیوی کا ذاتی معاملہ ہے اور گھمبیر بھی نہیں، تم دونوں بیٹھ کر اچھے طریقے سے اپنی بات ایک دوسرے کو پہنچاسکتے ہو، اسی میں تم دونوں کی بہتری ہے۔
تہمینہ: اس نے مجھے دھمکی دی ہے کہ وہ مجھے… نہیں رکھنا چاہتا تو میری بلا سے میں خود کما رہی ہوں…
تہمینہ: کیسی بات کررہی ہو تہمینہ… کیا تم اس سے علیحدگی چاہتی ہو؟
دیکھو بیٹا ماں بہنیں، بیٹی کا برا نہیں چاہتی… لیکن جو بھی قدم اٹھائو سوچ سمجھ کر …
تہمینہ: خدا نہ کرے کہ میں چاہوں… لیکن وہ …
بھابھی: تہمینہ اتنی بڑی زندگی… اکیلے عورت کا رہنا نا ممکن ہے… آج جو سب تمہارے ساتھ کھڑے ہیں… آگے چل کر سب دور ہوجائیں گے، کون سہارا دےگا تمہیں، سب اپنی اپنی ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہیں… اور بچہ تمہارا ابھی چھوٹا ہے، وہ باپ سے بہت مانوس ہے۔ 50%چانس ہے کہ وہ تمہارے ساتھ رہے اور اگر وہ بھی باپ کے پاس چلا گیا تو تم خالی ہاتھ رہ جائوں گی… اور اگر دوسری شادی کا سوچو گی تو تمہیں ہمارے معاشرے کے حالات معلوم ہیں، کنواری ایک سے ایک خوبصورت لڑکیاں رشتوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں… اس لیے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سوچ لو، اپنے گھر اپنی چھت ہی عورت کے لیے تحفظ ہے۔ مطلقہ عورت کی ہمارے معاشرے میں کوئی عزت نہیں، میری رائے یہ ہے کہ تم اکیلی چلی جائو، خدا بہتر کرے گا، اگر رب العزت تمہارے رشتے کو قائم رکھنا چاہے گا تو کوئی طاقت اسے توڑ نہیں سکتی۔
تہمینہ: مطلوبہ ہوٹل میں پہنچی تو شوکت اس کے انتظار میں پہلے ہی سے موجود تھا۔
شوکت: آئو آئو… کیسی ہو؟
تہمینہ: صحیح… آپ کیسے ہیں؟
شوکت نے اسے بیٹھنے کے لیے کرسی پیش کی، آس پاس دیکھتے ہوئے تمہارے باڈی گارڈ؟
شوکت: آج میں فیصلہ کرکے آیا تھا کہ… اچھا ہوا تم اکیلی آئی ہو ورنہ… خیر جو ہوا سو ہوا تمہارا گھر، تمہارا منتظر ہے، میں اور گھر تم ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں، پھر کیا ارادہ ہے، یہیں سے گھر چلیں … ہاں، ارقم کو لیتے ہوئے چلیں گے۔
تہمینہ: (مسکراتے ہوئے) ہاں وہ بھی آپ کو یاد کررہا تھا۔
شوکت: اور تم؟… تہمینہ یہ ہماری تینوں کی زندگی ہے، ہم تینوں کو اسے سنوارنے کے لیے خود ہی منصوبہ بندی کرنی چاہیے، اگر میری کوئی بات ناگوار گزرے تو تم براہ راست مجھے شکات کرو، اگر مجھے کچھ نا پسند ہوگا تو میں تم سے ہی بات کروں گا، بھابھی صحیح کہتی ہیں یہ ہماری زندگی ہے، جو بھی بات ہو گھر کی بات گھر میں ہی ہو اور اس کا حل افہام و تفہیم سے سامنے آئے۔ چائے پی کر وہ ہوٹل سے باہر آئے، تہمینہ کو سب بہت اچھا لگ رہا تھا، اس نے دل میںاِرادہ کیا کہ وہ اپنے مسائل کو گھر میں حل کرے گی، اماں یا بہنیں جو کہیں گی، ایک کان سے سنوں گی دوسرے نکال دوں گی۔
تہمینہ: باجی کے گھر آپ نہیں چلیں گے۔
شوکت: پھر کبھی صحیح میں یہیں تمہارا انتظار کررہا ہوں، تم ارقم کو لے کر آجائو۔
تہمینہ نے اپنے فیصلہ اماں اور باجی کو سنایاتو دونوں بڑی ناراص ہوئیں کہ ہمیں یہی پتا تھا کہ تم بیوقوف اس کی باتوں میں آجائو گی۔
تہمینہ: اماں! مجھے دیر ہورہی ہے میں پھر آپ سے بات کروں گی۔
شوکت: سلام بھابھی کیسی ہیں؟ آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے فون کیا۔
بھابھی: وعلیکم السلام! کیسا شکریہ بھائی؟…
شوکت: بھابھی آپ کی وجہ سے میرا گھر ٹوٹنے سے بچ گیا ورنہ میں پورا سوچ کر گھر سے نکلا تھا کہ اگر آج تہمینہ اپنے ساتھ کسی بہن کو لائے گی تو میں وہیں سے پلٹ جائوں گا … تہمینہ نے بتایا کہ آپ نے اسے سمجھایا کہ…
بھابھی(بات کاٹتے ہوئے) یہ سب تو اللہ کی طرف سے ہوا ، مجھے خوشی ہوئی کہ تم دونوں نے مثبت قدم اٹھایا اور اللہ نے تمہارا گھر بچالیا، اب آئندہ کے لیے ان غلطیوں کو نہ دھرانا جس سے تمہارے آشیانے کو کوئی نقصان پہنچے۔
بھابھی: (شوہر سے) اللہ کا شکر کہ دونوں میاں بیوی کو عقل آگئی ورنہ تو گھر ٹوٹنے میں کوئی کسر نہ رہی تھی، اللہ ان کو سدا خوش رکھے اور ہنسی خوشی آپس میں مل کر رہنا نصیب ہو (آمین)
شوہر صاحب بڑی حیرانی سے بیوی کو دیکھ رہے تھے کہ اس عورت نے بڑی بہنوں کی طرح اس نازک وقت میں میری بہن کو مثبت رائے سے نوازا کہ وہ آج اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے۔ دوسری طرف تہمینہ کو بھی ہوش آگیا کہ بڑی بہنیں دشمن نہیں ہوتیں لیکن انجانے میں ان کی کچھ نصیحتیں نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں، اس لیے شاید کہا گیا ہے کہ… “نادان کی دوستی سے دانا کی دشمنی بھلی ”
مذکورہ بالا حقیقی واقعہ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر جگہ سسرالی رشتے بگاڑ و فساد کا باعث نہیں بنتے بلکہ صلح و صفائی کا باعث بھی بن سکتے ہیں، ہر رشتہ اپنی تعلیم و تربیت و ماحول کی عکاسی کا موجب بنتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں ان اہم رشتوں کو منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے بیشک منفی صورتحال کا سامنا اکثر جگہ نظر آتا ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مثبت سوچ و عمل کے مالک افہام و تفہیم سے ان رشتوں کو بھی خوبصورتی و حسنِ سلوک سے نبھا سکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ جہاں ایسی صورتحال نظر آئے حوصلہ افزائی کی جائے۔ مجھے ایک واقف خاتون نے بتایا کہ میری بہو بہت خدمت گزار لڑکی ہے حالانکہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے لیکن میری بیٹی سے زیادہ میرا خیال رکھتی ہے اور عزت دیتی ہے، میں نے اس خاتون کو کہا کہ اپنی بہو کے لیے آپ کے خیالات کی قدر کرتی ہوں، آپ بھی ہمیشہ اس کی قدر کیا کریں تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اور اسے تسکین حاصل ہو۔ جبکہ اس کے برعکس منفی سوچ کے حامل چاہے ساس ہو یا نند یا بہو ہو یا دیورانی، جیٹھانی، کہیں نہ کہیں اپنے رنگ و بو کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں۔ میں نے ایسے بہت سے گھرانوں میں ایسے کردار و عمل کی خواتین کو نوٹ کیا ہے جن کی وجہ سے ان کے گھرانوں میں دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں۔
ایک صاحبہ جو اپنی بڑی بیٹی (جو ماں باپ کی بہت زیادہ لاڈلی تھی) کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر رہ گئی تھیں ، بیٹی کی منفی سوچ، حسد، تلخ زبانی کی وجہ سے وہ گھر ویران ہوگیا، گھر میں برکتوں کا نزول رُک گیا، خوشحالی و آسودگی کے راستے تنگ ہوتے گئے، بھابھیوں کو اس قدر مجبور کردیا کہ بے سر و سامانی کے باوجود انہیں بے گھر کردیا گیا، اس قسم کی خواتین آنے والے وقت میں خود بھی بے سکونی کی زندگی گزارتی ہیں۔ مثل مشہور ہے جو بوگے وہی کاٹو گے اس لیے رشتوں سے نبھا کرتے وقت اللہ اور اس کے رسول کے احکامات و تعلیمات کو فراموش نہ کریں۔ وہی گھرانے امن و سکون کے گہوارے بنتے ہیں اور دوسروں کے لیے اچھی مثال قائم کرتے ہیں جہاں گھر کے تمام باسیوں کو اُن کے حقوق سے نوازا جاتا ہے، کسی کے حقوق کی تلفی کرنا اس دنیا کے لیے بھی اور آنے والی زندگی کے لیے صرف خسارے کی صورت میں سامنے آتی ہے خصوصاً خواتین کا کردار عمل مثبت سوچ گھر کی در و دیواروں کو بھی رونق بخشتے ہیں اسی لیے میں بار بار کہتی ہوں کہ بیٹیوں کی تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ نہ صرف اچھی بیٹی و بہن ثابت ہو بلکہ اچھی نند، اچھی بہو، اچھی بھابھی، اچھی ساس کا کردار بحسن خوبی اَدا کرکے اس معاشرے میں اپنا مقام اور عزت قائم کرسکے۔

حصہ