جشن توقیر ڈاکٹر شاداب احسانی اور کل پاکستان مشاعرہ

417

مورخہ 4 اور 5 جنوری 2019 کو بمقام اسکاؤٹ آڈیٹوریم کراچی‘ تہذیب انٹرنیشنل کے زیر اہتمام جشن توقیر ڈاکٹر شاداب احسانی منعقد کیا گیا۔ اس دو روزہ پروگرام کے دو حصے تھے‘ 4 جنوری کو پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کی صدارت میں ڈاکٹر شاداب احسانی کے فن اور شخصیت پر گفتگو کی گئی اس کے بعد مشاعرہ ہوا۔ رات 8 بجے تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام مجید سے کیا گیا جس کی سعادت حافظ خرم وسیم نے حاصل کی جب کہ سعد الدین سعد نے نعت رسول مقبولؐ پیش کی۔ شہاب الدین شہاب اور عنبرین حسیب عنبر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ پروفیسر سحر انصاری اور حسن عباس رضا مہمان خصوصی تھے اور ڈاکٹر شاداب احسانی مہمان اعزازی تھے۔ مقررین میں حسین مجروح‘ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی‘ ڈاکٹر ذکیہ رانی اور غلام محی الدین شامل تھے جب کہ اختر سعیدی نے منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ پروگرام کے پہلے دن جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں صاحبِ صدر ‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظمین مشاعرہ کے علاوہ عقیل عباس جعفری‘ صفدر صدیق رضی‘ ڈاکٹر عتیق جیلانی‘ وضاحت نسیم‘ اختر سعیدی‘ شاعر حسین شاعر‘ محسن شکیل‘ عزمی جون‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ علی یاسر‘ حسن عباسی‘ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی‘ پرویز نقوی‘ کشور عدیل جعفری‘ صفدر علی انشاء‘ عمیر نجمی‘ احمد سعید خان‘ آئرن فرحت‘ رانا خالد محمود قیصر‘ کامران طالش اور محسن رضا دعا شامل تھے۔ تہذیب انٹرنیشنل کے صدر کشور عدیل جعفری نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ فی زمانہ انٹرنیٹ‘ کمپیوٹر اور اسمارٹ فوج جیسی ایجادات نے نوجوان کو نسل کو کتب بینی‘ ادبی اور ثقافتی روایات سے دور کر دیا ہے ان ہی وجوہات کی بنا پر تہذیب انٹرنیشنل نے نہ صرف معیاری کتابوں کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا ہے بلکہ ہم نے زبان و ادب کی ترقی کے لیے بھی پروگرام ترتیب دیے ہیں آج ہم جشن شادابِ احسانی منا رہے ہیں یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم ادب کے خدمت گزاروں میں شامل ہیں۔ ہم آئندہ بھی اسی طرح کے عظیم الشان پروگرام ترتیب دیتے رہیں گے۔ انہوں نے ڈاکٹر شاداب کے بارے میں کہا کہ پروفیسر داکٹر شاداب احسانی کا اصل نام ذوالقرنین احمد ہے انہوں نے شاعری کا آغاز نو‘ دس برس کی عمر سے کیا۔ جامعہ کراچی سے ایم اے اردو درجہ اوّل میں پاس کیا‘ 2004ء میں ’’کوئن فراسو: حیات و خدمات بحوالہ خصوصی قصۂ عشق افزا‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ بطور مدرس/استاد اور 1990 تا 1995 گورنمنٹ ڈگری کالج سے وابستہ ہوئے بعدازاں 1995 سے تاحال شعبۂ اردو جامعہ کراچی سے وابستہ ہیں۔ تین سال تک جامعہ کراچی شعبہ اردو کے صدر بھی رہے ہیں آج کل بطور صدر ادارہ یادگارِ غالب سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر شاداب احسانی کی تصانیف میں ان کا شعری مجموعہ ’’گرداب‘‘ 1987ء میں پہلی بار اور 2008ء میں دوسری بار طبع ہو چکا ہے۔ تحقیقی مقالہ ’‘کوئن فراسو: حیات و خدمات بحوالۂ خصوصی قصۂ عشق افزا‘‘ 2010 میں انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی سے شائع ہوا‘ 2015 میں ’’قصۂ عشق افزاء نسخۂ علی گڑھ کی تنقیدی و تدوین مع فرہنگ‘‘ کی اشاعت ادارۂ یادگارِ غالب کراچی سے ہوئی۔ زیر طبع تصانیف میں ’’اردو نعت کے تنقیدی اصول (موضوعی و فنی)‘‘، ’’اکیسویں صدیء میں علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت‘‘ سائنسی علوم طبعی و حیاتیاتی قیام پاکستان کے بعد تحقیقی و تنقیدی مقالہ ’’اردو عروض کا مستقبل‘‘، ’’نثری نظم اور اردو زبان کا مزاج‘‘ فرانسیسی مستشرق گارساں وتسای کی تاریخِ ادب ہندوستانی کے اردو یورپی شعرا کا تنقیدی مطالعہ (جلد اوّل دوم بحوالہ للبیان نازرو)‘‘ شعری مجموعہ ’’غبارِ گریہ‘‘ شامل ہیں۔ متعدد تحقیقی و علمی و ادبی مضامین رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں جن کی کتابی صورت جلد اشاعت پذیر ہونے کو ہے۔ ایک ڈراما ’’اردو کی بپتا‘‘ سہ ماہی اردو نامہ میں 2010ء میں شائع ہو کر مقبول ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی اردو ادب کی انجمن ماریشس سے ’’اعترافِ کمال‘‘ ایوارڈ ملا جہاں تیسری عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر شعبہ اردو جامعہ کراچی پاکستان کی نمائندگی کی ملکی سطح پر منعقد ہونے والی کانفرنسوں اور سیمینارز میں بھی اردو زبان و ادب کی نمائندگی کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ آپ کی نگرانی میں شعبہ اردو سے ایم اے کے 34 تحقیقی مقالات‘ ایم فل/پی ایچ ڈی کے 17 تحقیقی مقالات سند حاصل کرچکے ہیں جب کہ درجن بھر مقالات زیر تسوید و تحقیق ہیں۔ آج کل ’’مقامی بیانیہ‘‘ کے عنوان سے لیکچرز دے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس پروگرام میں جن لوگوں نے ہماری معاونت کی ہے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ محسن رضا دعا نے کلماتِ تشکر اد اکیے ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام شرکاء مشاعرہ کے ممنون و مشکور ہیں کہ جن کی آمد سے آج کا پروگرام کامیاب ہوا۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ آج پورا ہال سامعین سے بھرا ہوا ہے یہ سب لوگ شاداب احسانی کی محبت میں آئے ہیں جو کہ ہمہ جہت شخصیت ہیں ان کے لیے اس قسم کی تقریب کا انعقاد قابل ستائش اقدام ہے بلاشبہ زندہ قومیں اور زندہ معاشرہ اپنے ہیروز کو یاد کرتا ہے اچھے لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ بڑے لوگوں کی قدر کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ داکٹر شاداب احسانی شاعری کے منظر نامے میں اپنے ہم عصروں میں اس لیے نمایاں نظر آتے ہیں کہ ان کی سوچ و فکر سب سے الگ ہے۔ ان کے مخالفین بھی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے معترف ہیں ان کی تعلیمی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ انہوں نے جامعہ کراچی اور دیگر تعلیمی اداروں میں جہالت کے خلاف جہاد کیا ہے یہ ہمارا سرمایہ ہیں‘ ان سے اجالے پھیلے ہوئے ہیں‘ یہ ٹیچنگ پروفیشن میں بائی چانس نہیں آئے ہیں بلکہ یہ پیدائشی معلم ہیں ان میں بے شمار خداداد صلاحیتیں موجود ہیں۔ اس موقع پر صاحبِ صدر نے تمام لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وقت کی قدر کریں‘ آج کا پروگرام 6 بجے شروع ہونا تھا لیکن 8 بجے شروع ہوا۔ پابندئ وقت بہت ضروری ہے۔
شہاب الدین نے کہا کہ ڈاکٹر شاداب احسانی سیلف میڈ آدمی ہیں۔ انہوں نے بہ محنت و جدوجہد کے بعد یہ مقام بنایا ہے کہ آج ہر شخص ان کی صلاحیتوں کا معترف ہے‘ یہ شطرنج کے بہت اچھے کھلاڑی ہیں اور سندھ لیول پر جانے پہچانے جاتے ہیں انہوں نے پاکستانی بیانیہ پر تحقیقی اور مطالعاتی کام کو آگے بڑھایا ہے اور اس حوالے سے کئی عظیم الشان پروگرام کرنے کے ساتھ ساتھ پریس کانفرنس بھی کی ہے۔ غلام محی الدین نے کہا کہ ڈاکٹر شاداب احسانی علم عروض‘ علم منطق اور علم نجوم پر دسترس رکھتے ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ وہ طب یونانی میں بھی ماہر ہیں کہ ان کے والد حاذق حکیم تھے اور لانڈھی میں مطب کیا کرتے تھے انہوں نے زندگی کے تمام موضوعات پر سیر حاصل اشعار کہے ہیں ان کا حلقہ احباب بہت وسیع ہے۔ ڈاکٹر ذکیہ رانی نے کہا کہ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کینسر جیسے موذی مرض سے ہار نہیں مانی اور آج وہ بہترین صحت کے ساتھ اسٹیج پر جلوہ گر ہیں انہوں نے پاکستانی بیانیہ کو آکسیجن فراہم کی ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم نے غیر ملکی بیانیے سے جان چھڑائی تو ہم ترقی یافتہ اقوام میں شامل نہیں ہو پائیں گے۔ اختر سعیدی نے ڈاکٹر شاداب احسانی کو منظوم خراج تحسین پیش کیا انہوں نے اپنے اشعار میں ڈاکٹر شاداب کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا اس نظم میں الفاظ کی نشست و برخاست بہت عمدہ تھی۔ گہرائی اور گیرائی کے علاوہ روانی اور غنائیت بھی تھی۔ حسین مجروح نے کہا کہ وہ ڈاکٹر شاداب احسانی سے بہت متاثر ہیں کہ انہوں نے اردو شعر و ادب کی ترویج و ترقی میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں یہ جامع الصفات شخصیت ہیں۔ حسن عباس رضا نے کہا کہ ڈاکٹر شاداب احسانی ایک قادرالکلام شاعر ہونے کے علاوہ محقق و نقاد بھی ہیں ان کی شاعرانہ صلاحیتں ہم سب پر روشن ہیں بحیثیت ماہر تعلیم بھی انہوں نے علم و آگہی کے ایسے دیے روشن کیے ہیں جو آندھیوں سے نبرد آزما ہیں اور روشنی پھیلا رہے ہیں۔
پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ آج کی تقریب قابل سائش ہے کہ یہ ڈاکٹر شاداب احسانی کا حق ہے کہ ہم ان کی خدمات کو سراہیں‘ انہیں خراج تحسین پیش کریں یہ نفیس انسان ہیں ان کی اعلیٰ صفات اب ان کے شاگردوں میں بھی منتقل ہو گئی ہیں گویا چراغ سے چراغ جل رہا ہے۔ انہوں نؤ جو کام کیے ہیں وہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی نے کہا کہ ڈاکٹر شاداب جدید شاعری کے علم بردار ہیں‘ ہئیت و موضوع کے ارتباط کا خیال رکھتے ہیں ان کے اشعار عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں لیکن یہ قدیم روایات شاعری سے بھی منہ نہیں موڑتے ان کے یہاں جدید استعارے اور زندہ کردار نظر آتے ہیں۔ عنبرین حسیب عنبر نے کہا کہ وہ ڈاکٹر شاداب کی احسان مند ہیں کہ انہوں نے دوران پی ایچ ڈی ان کی بڑی مدد کی۔ یہ ایک عظیم انسان ہیں انہوں نے تعلیمی میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے جب کہ شاعری میں ان کا شمار اساتذہ فن میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ وہ تہذیب انٹرنیشنل کے شکر گزار ہیں کہ اس ادارے نے میرے اعزاز میں اتنا شان دار پروگرام ترتیب دیا انہوں نے مزید کہا کہ وہ اردو ادب کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں‘ اردو ہماری پہچان ہے‘ ہماری قومی زبان ہے۔ ابھی اس زبان کو وہ مقام و مرتبہ نہیں ملا کہ جس کی وہ حق دار ہے ہمیں چاہیے کہ ہم پاکستانی بیانیے سے جڑ جائیں تاکہ احساسِ محرومی ختم ہو سکے۔ تہذیب انٹرنیشنل کے زیر اہتمام منعقدہ پروگرام کے دوسرے دن بھی مشاعرہ ہوا جس کی صدارت پروفیسر منظر ایوبی نے کی۔ مہمانان خصوصی میں انور شعور‘ رونق حیات‘ امجد اسلام امجد اور عباس تابش شامل تھے۔ شاداب احسانی مہمان اعزازی تھے۔ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ اور ڈاکٹر رخسانہ صبا نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
5 جنوری کو جن شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا ان میں منظر ایوبی‘ انور شعور‘ امجد اسلام امجد‘ عباس تابش‘ رونق حیات‘ ڈاکٹر شاداب احسانی‘ اقبال پیرزادہ‘ رخسانہ صبا‘ باقی احمد پوری‘ شاہد زمان‘ ناصر رضوی‘ فراست رضوی‘ لیاقت علی عاصم‘ عارف شفیق‘ فاطمہ حسن‘ جاوید صبا‘ میر احمد نوید‘ راشد نور‘ نسیم نازش‘ خالد معین‘ اجمل سراج‘ سعید آغا‘ آصف رضا رضوی‘ سلمان صدیقی‘ ریحانہ روحی‘ حجاب عباسی‘ شکیل جاذب‘ رانا سعید دوشی‘ نوید سروش‘ شہباز نیر‘ مہدی حسن‘ حامد علی سید‘ کشور عدیل جعفری‘ محسن رضا دعا‘ فیاض علی فیاض‘ مقبول زیدی‘ سحر تاب رومانی‘ کاشف حسین غائر اور اسد قریشی شامل تھے۔ تقریب میں شریک ہونے والے تمام شعرا کو تہذیب انٹرنیشنل کی جانب سے ایوارڈ پیش کیے گئے جب کہ مہمانوں کی خدمت میں گلدستے بھی پیش کیے گئے۔ اختتام مشاعرہ کے بعد عشائیہ کا اہتمام تھا۔ پروگرام میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی جو کہ ہر اچھے شاعر کو داد دے رہے تھے تمام سماعتیں جاگ رہی تھیں یہ ایک یادگار پروگرام تھا جس کا تمام کریڈٹ تہذیب انٹرنیشنل کے عہدیداران و اراکین کو جاتا ہے اس ادارے نے بہت جلد کراچی کے منظر نامے میں اپنی جگہ بنائی ہے۔

غزل سدا بھار صنف سخن ہے، باقی احمد پوری

باقی احمد پوری ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ یہ شاعر‘ ادیب اور تنقید نگار ہیں۔ ان کے گیارہ شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں اس کے علاوہ انہوں نے متعدد شعرا کے انتخاب شائع کیے ہیں۔ نوجوان شعرا کی حوصلہ افزائی میں بھی باقی احمد پوری بڑی اہمیت کے حامل ہیں مستقل رہائش لاہور میں ہے لیکن پاکستان اور بیرون پاکستان مطالعاتی دوروں پر جاتے رہتے ہیں‘ جہاں جہاں اردو زبان موجود ہیں وہاں وہاں باقی احمد پوری جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ہر صنفِ سخن پر دسترس حاصل ہے لیکن غزلِ ان کی شناخت ہے۔ ان کے اشعار میں زند گی رواں دواں ہے‘ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ساتھ غنائیت سے بھرپور شاعری کرتے ہیں جدید لب و لہجے کے شاعر ہیں‘ نئے نئے استعارے وضع کرتے ہیں۔ اس تمہید کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ گزشتہ پیر 7 جنوری 2019 کو ممتاز شاعر یامین اختر کی رہائش گاہ پر باقی احمد پوری کی صدارت میں ایک شعری نشست ہوئی جس میں یامین اختر‘ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ‘ سلمان صدیقی راقم الحروف نثار احمد‘ عظیم احمد سید‘ صفدر علی انشاء‘ عارف شیخ‘ نور علی مہر‘ جمال الدین جمال اور جاوید علی نے اپنا کلام پیش کیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یامین اختر ایک سینئر شاعر ہیں‘ فیڈرل بی ایریا کراچی کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں‘ بیرون کراچی سے آنے والے اکثر شعرا ان کے یہاں قیام کرتے ہیں یامین بھائی بڑے وضع دار آدمی ہیں اور اردو ادب کے خدمت گزار بھی۔ یہ چھوٹی سی نشست بہت اچھی رہی کہ ہر شاعر نے اپنا تازہ کلام سنایا کیوں کہ اس قسم کی نشستوں میں یہ گنجائش ہوتی ہے کہ آپ کوئی نیا کلام آزمائیں مشاعرے میں ہر شاعر اپنا منتخب کلام سنتا ہے۔ اس موقع پر باقی احمد پوری نے کہا کہ کراچی محبتوں کا شہر ہے وہ جب بھی یہاں آتے ہیں ان کے اعزاز میں نشستیں سجائی جاتی ہیں۔ کراچی میں ادبی سرگرمیاں بحال ہیں یہاں کئی اہم ادبی تنظیمیں ہیں جو تواتر کے ساتھ مشاعرے منعقد کراتی ہیں۔ 5 جنوری 2019ء کو تہذیب انٹرنیشنل کے تحت بہت اچھا پروگرام ہوا ہے اس قسم کی تقریبات اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں معاون ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فی زمانہ شاعری میں نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں شاعری آگے بڑھ رہی ہے ویسے بھی کامیاب شاعر وہ ہوتا ہے جو کہ زندگی نظم کرتا ہے کیوں کہ ادب برائے زندگی ہے۔ شاعر بہت حساس ہوتا ہے وہ معاشرتی مسائل پر گہری نظر رکھتا ہے وہ کسی بھی معاشرتی پہلو سے صرفِ نظر نہیں کرتا۔ اپنے افکار و خیالات کو شاعری بنانے کے لیے کئی اصنافِ سخن موجود ہیں لیکن غزل کا میدان اس کام کے لیے نہایت موزوں ہے کہ اس کے دو مصرعوں میں بڑے سے بڑا مضمون باندھا جاسکتا ہے۔ غزل ایک سدا بہار صنفِ سخن ہے اس کی مخالفت کی گئی لیکن یہ آج بھی زندہ و سلامت ہے اور بہت تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے یہ ایک مقبول عام صنف سخن ہے۔ مشاعرے کے اختتام پر یامین اختر کی جانب سے ظہرانہ پیش کیا گیا اس موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ بہت کم مشاعروں میں جاتے ہیں انہیں بہت خوشی ہوتی ہے کہ کوئی انہیں خدمت کا موقع دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب سے کراچی کے حالات بہتر ہوئے ہیں ادبی پروگرام بڑھ رہے ہیں اب صورت حال یہ ہے کہ روزانہ کئی ادبی تقریبات چل رہی ہوتی ہیں۔

حصہ