شریک مطالعہ

643

نعیم الرحمن
ریل کے سفر کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’جب سے ریل گاڑی چلی ہے، لوگ اپنی بیٹیوں کو دور دور بیاہنے لگے ہیں‘‘۔ اسی ریل کے سفر پر اردو میں تین بہت ہی خوب صورت کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں سے پہلی بی بی سی اردو کے لیے رضا علی عابدی نے ’’ریل کہانی ‘‘ کے نام سے لکھی۔ کیا خوب سفر ہے۔ جب بی بی سی کے پروگرام ’’سیربین‘‘ میں یہ قسط وار چلتا تھا تب بھی لوگ اس کا انتظار کرتے تھے، اور پھر کتابی شکل میں بھی اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ کچھ عرصہ قبل محمد حسن معراج نے ’’ریل کی سیٹی‘‘ میں پنڈی سے اچ شریف کے سفر کا احوال بیان کیا اور اپنی بے مثال نثر اور خوب صورت بیانیے سے قارئین کو سحر میں مبتلا کردیا۔ پھر حال ہی میں ایمل پبلی کیشنز نے فضل الرحمن قاضی کی کتاب ’’روداد ریل کی‘‘ پیش کی، جس میں مصنف نے ریلوے کی تاریخ اور اپنی وابستگی کو بھرپور انداز سے پیش کیا ہے۔ کتاب ایمل کے روایتی خوب صورت انداز میں شائع ہوئی ہے۔ تاریخی تصاویر نے اس کی دل چسپی میں اضافہ کیا ہے۔ آج انہی تینوں کتابوں کا مختصرجائزہ پیش خدمت ہے۔
رضا علی عابدی نے بی بی سی کے پروگرام سیربین کے لیے’’جرنیلی سڑک‘‘ اور پھر دریائے سندھ کے ساتھ سفر کا احوال ’’شیر دریا‘‘ کے نام سے لکھا۔ دونوں سلسلوں کی مقبولیت کے بعد عابدی صاحب نے ریل کے ذریعے کوئٹہ سے کولکتہ کا سفرنامہ تحریر کیا۔ ذکر ہو ریل کا اور پھر بیاں رضا علی عابدی کا، تو سونے پہ سہاگہ ہونا ہی تھا۔ لکھتے ہیں: ’’ریل گاڑی کی اپنی الگ دنیا ہے۔ شہر کی وہ سڑک جو ریلوے اسٹیشن کی طرف مڑتی ہے، اُس پر مڑتے ہی نہ صرف ماحول کی بلکہ مڑنے والے کے شعور کی کیفیت بھی بدلنے لگتی ہے۔ وہیں سے فضا کے رنگ اور ہوا کی بُو بدلنے لگتی ہے، اور پھر اسٹیشن کی عمارت میں قدم رکھتے ہی اور ریل کے ڈبے میں داخل ہوتے ہی نہ صرف احساس بدلتا ہے، بلکہ احساس کا مالک بھی بدل جاتا ہے۔ ریل کے ڈبے میں ہر شخص گھبرایا ہوا داخل ہوتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ خود اور اس کا مزاج سنبھلنا شروع ہوتا ہے۔ پھر برابر بیٹھے ہوئے مسافر سے علیک سلیک ہوتی ہے جو بعض اوقات زندگی بھر کے گہرے مراسم میں بدل جاتی ہے۔ عمر بھر کی دوستیاں ہوجاتی ہیں اور خدا جانے کتنی شادیاں اور کتنے رشتے ان ریل گاڑیوں میں طے ہوئے ہوں گے۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ انسان کو سمجھنا ہو تو اس کے ساتھ ریل گاڑی میں سفر کیجیے۔ انسانی رشتے اور محبتوںکے تعلق پروان چڑھانے ہوں تو یہ کام کسی ہوائی جہاز، بس، ٹیکسی یا رکشا میں نہیں ہوسکتا۔‘‘
رضا علی عابدی نے مارچ 1996ء میں کوئٹہ سے سفرکا آغاز کیا، انہیں کولکتہ پہنچنے میں پورا ایک مہینہ لگا۔ عابدی صاحب جس روز کوئٹہ پہنچے، رات کو بارش اور سامنے پہاڑوں پر برف پڑ چکی تھی۔ رات کی جھڑی نے سب کچھ دھو دھلا کر صاف ستھرا کردیا تھا۔ اسٹیشن کی وہی دیکھی بھالی سی، جانی پہچانی سی عمارت، سامنے بڑے بڑے در، لمبا چوڑا برآمدہ، اس کے اندر ٹکٹ گھر، انتظار گاہیں، دفتر اور اپنے بکسوں اور سوٹ کیسوں پر بیٹھے مسافر۔ لیکن ان سب میں نمایاں پتھر کی بڑی سی تختی تھی جس پر اُن 154 ریلوے ملازمین کے نام کھدے ہوئے تھے جو مئی 1935ء کے زلزلے میں مرگئے تھے۔
عابدی صاحب کو اُس وقت مرزا محمد ہادی رسواؔ یاد آئے جن کے بارے میں ہم یہ تو جانتے ہیں کہ انہوں نے اردو کا پہلا اور یادگار ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ لکھا تھا، مگر اب کسے یاد ہوگا کہ جب یہ ریلوے لائن بچھائی جارہی تھی، مرزا صاحب کی ملازمت کوئٹہ میں تھی۔ وہ رڑکی انجینئرنگ کالج کے سند یافتہ اور اس ریلوے لائن کے سروے میں شریک تھے۔ رضا علی عابدی کے بقول ’’ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ ہادی رسوا نہ ہوتے تو ایک شریف گھرانے کی لڑکی کوٹھے تک اور ہندوستان کے میدانوں سے ریل گاڑی کوئٹے تک نہ جاتی۔‘‘
رضا علی عابدی شگفتہ اور رواں دواں نثر میں ریل کہانی میں ہمیں مختلف اسٹیشنوں، قلیوں اور مسافروں کے احوال اور بدحواسیاں اس طرح سناتے ہیں کہ قاری خود کو ان کا شریکِ سفر محسوس کرتا ہے۔ پہاڑ سے اترتے راستے کے ذکر میں بتاتے ہیں کہ ’’پہاڑ سے اترتے ہوئے ٹرین کی رفتار دھیمی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں اس میں خاص طرح کے بریک لگائے جاتے ہیں تاکہ ڈھلان پرگاڑی بے قابو نہ ہوجائے۔ ریلوے ملازمین نے اس لائن کو ’’جہنم لائن‘‘ کا دل چسپ نام دے رکھا ہے۔ ایک اور دل چسپ بات یہ ہے کہ تاریخ میں صرف ایک بار یہ جہنم لائن آزمائی گئی۔ ایک مرتبہ گاڑی کی بریک فیل ہونے پرکانٹے والے نے گاڑی کو جہنم لائن پر ڈال دیا۔ اس نے پٹری بدلی۔ اونچائی پر چڑھی… چڑھتی چلی گئی۔ جہاں اسے ریت میں دھنسنا تھا وہاں اس نے دھنسنے سے انکار کردیا اور آخری سرے سے بھی آگے نکل کر جہنم میں ہی چلی گئی۔ خوش قسمتی سے اس میں صرف پھل لدے ہوئے تھے۔ سارے کے سارے وہی پھل جو جنت میں ملیں گے۔‘‘
سکھر سے کوئی چوبیس کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا گمنام اسٹیشن ہے ’’رُک‘‘۔ اگر انگریزوں کا خواب پورا ہوجاتا اور قدرت کو منظور ہوتا تو اس جگہ ایشیا کا ایک عظیم الشان اسٹیشن ہوتا: رُک جنکشن، پورے برصغیر سے مسافر یہاں آیا کرتے اور ریل گاڑیوں میں بیٹھ کر اندرونِ سندھ کے اس اسٹیشن سے قندھار، کابل، وسطی ایشیا اور یورپ جایا کرتے۔ مگر یہ خواب ادھورا ہی رہا۔ رک جنکشن چھوٹا سا بھولابسرا اسٹیشن ہی رہ گیا۔ مقامی باشندے اس کی بھی ایک کہانی سناتے ہیں: ’’رُک میں ایک جوگی رہتا تھا جس کے گلے میں سُروں کا رَس بھرا تھا، وہ رات دو بجے گانا شروع کرتا تھا تو اس کی آواز سن کر دور دور سے لوگ کھنچے چلے آتے اور اس کی پھیلی ہوئی چادر میں پیسے ڈالتے جاتے تھے۔ صبح روشنی ہوتے ہی جوگی وہ ساری رقم غریبوں میں تقسیم کرکے چلا جاتا۔ جوگی کے مخالفوں نے ایک روز رُک اسٹیشن پر اسے گولی مار دی۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد رُک کا اسٹیشن اپنی رونق سے محروم ہوگیا۔ اب اکثر گاڑیاں یہاں سے رکے بغیرگزر جاتی ہیں حالانکہ دیوار پر بڑا بڑا لکھا ہے’’رُک‘‘۔
ایسی بے شمار دل چسپ اور رنگا رنگ کہانیاں ریل کہانی میں بھری ہوئی ہیں۔ کہیں کسی مست فقیر کا ذکر ہے، کہیں سبی کی گرمی کا احوال، آبِ گم، آباد اور ہمایوں جیسے اسٹیشنوں کے نام ہیں جن سے کوئی آشنا نہیں۔ ذرا اندازِِ بیاں دیکھیں: ’’رحیم یارخان کی خوبی یہ تھی کہ ان پر نہ کسی حکیم کے اشتہار تھے، نہ کسی ڈاکٹر کے۔ نہ نجومی، نہ کالے جادو والے پروفیسر عامل کا ذکر۔ ان پر صرف اسکولوں کے اشتہار لکھے تھے اور اسکول بھی انگلش میڈیم۔ سوچتا ہوں کہ اگر دو چار نسلیں ان میں پڑھ گئیں تو کچھ عرصے بعد وہاں جو واٹر نہیں مانگے گا اُسے پانی نہیں ملے گا۔‘‘
لاہور سے آگے رضا علی عابدی امرتسر پہنچے تو خود کو بالکل اجنبی دیس میں پایا۔ نہ کوئی صورت آشنا، نہ نام آشنا، نہ کوئی آوازآشنا۔ اب ہاوڑا میل کا انتظار تھا۔ گاڑی کلکتہ سے آتی ہے اور پھر تین گھنٹے صفائی کے بعد روانگی کے لیے تیار ہوکر پلیٹ فارم پر آتی ہے۔ صفائی کے لیے یارڈ میں جانے سے پہلے سینکڑوں مسافر ’’یاہو‘‘ کا نعرہ لگا کر مستانہ وار دو جنرل ڈبوں میں کھچا کھچ بھر جاتے ہیں۔ ہر گاڑی کے یہ دو ڈبے ایسے ہوتے ہیں جن کی نشستیں پہلے سے محفوظ کرانا ضروری نہیں۔ بس ایک آپ کی ہتھیلی ہو اوراُس پر جان رکھنے کی آپ کی استطاعت ہو۔ آخر میں رضا علی عابدی کہتے ہیں کہ یہ کتاب خراج عقیدت ہے اُن لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو، جنہوں نے برصغیرکے طول و عرض پر ریلوے لائنیں بچھائیں۔ جنہوں نے تپتی دھوپ میں،کڑاکے کی سردی، برستی بارشوں میں، ناقص خوراک پر گزارا کرکے، ہولناک بیماریوں کی تباہ کاریاں جھیلتے ہوئے رات دن اپنے سروں پر مٹی کی ٹوکریاں ڈھو کر اپنی زمین کو بلند اور اپنی سرزمین کو سربلند کیا۔ ریلوے کے بڑے بڑے حکام، منصوبہ سازوں، ماہروں، انجینئروں اور ٹھیکے داروں کے نام تو کہیں کسی بورڈ پر،کسی تختی پر، کسی کتاب اور دستاویز میں محفوظ ہیں، مگر وہ جو مٹی ڈھوتے ڈھوتے خود بھی ڈھے گئے اُن کے نام، اُن کی تصویریں اب کہیں موجود نہیں۔ کون تھے،کہاں سے آئے ،کہاں گئے، اب کسی کو نہ یاد ہے نہ معلوم۔
…٭…
محمد حسن معراج کا نام دنیائے ادب میں کچھ آشنا نہیں ہے، لیکن انہوں نے اپنی پہلی کتاب ’’ریل کی سیٹی‘‘ سے تحریر، زبان و بیان اور اسلوب سے متاثرکیا ہے۔کیا خوب لکھا ہے کہ قاری کتاب شروع کرکے ختم کیے بنا نہ چھوڑ سکے، اور ختم ہونے پر جلد تمام ہونے کا دکھ ہو۔ مشہور نقاد، شاعر، افسانہ نگار اور دانش ور ناصر عباس نیر کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’برصغیر میں ریل کا آغاز مواصلات کے جدید اور بڑی حد تک انقلابی ذریعے کے طور پر ہوا، مگرجلد ہی ریل ایک اہم علامت بھی بن گئی۔ ایک طرف وہ نوآبادیات کی ٹیکنالوجی اور طاقت کی علامت تھی اور دوسری طرف یورپی جدیدیت کی۔ برصغیرکے جن علاقوں میں ریل کی پٹریاں بچھائی گئیں، وہاں ایک نئی ثقافت کا آغاز ہوا۔ ان علاقوں کی زبانوں کے لوک ادب میں ریل اور ریل کی سیٹی باقاعدہ استعارہ ہیں… ملنے، بچھڑنے، سفر و دوری، خوشی و رنج کا۔ اردو شاعری اور فکشن میں بھی ریل کا کافی ذکر ہوا ہے اور مختلف تناظرات میں ہوا ہے، لیکن محمد حسن معراج نے ’’ریل کی سیٹی‘‘ کے نام سے جوکتاب لکھی ہے، وہ چیزِ دیگر ہے۔ مصنف نے پنڈی سے اچ شریف تک ریل کی پٹری کے ساتھ سفرکیا ہے۔ یہ سفر جس قدر غیر روایتی ہے، اسی قدر غیر معمولی بھی ہے۔ ریل کے ساتھ ساتھ جو دریا بہتے ہیں اور جو گاؤں، قصبے، شہرآباد ہیں مصنف نے ان سب کی صدیوں پر پھیلی تاریخ و تہذیب کے اندر سفرکیا ہے۔ اس تاریخ میں جتنے اہم کردار اور واقعات تھے اور جو ان علاقوں کی تقدیر پر اثرانداز ہوئے، ان سب کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے محض ان کے بیان پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ان تاریخی واقعات اورکرداروں نے یہاں کے باسیوں کی سیاسی، معاشی، ثقافتی اور نفسی وتخلیقی زندگی پر جو اثرات مرتب کیے، ان کی طرف بھی معنی خیز اشارے کیے ہیں۔ یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ مصنف نے پاکستانی پنجاب کے ثقافتی لاشعورکی بازیافت کی ہے۔ مصنف کے مطالعے کی وسعت حیران کن، اور اسے اختصار سے پیش کرنے کا سلیقہ متاثرکن ہے۔‘‘
محمد حسن معراج نے اس سفرکا ذکرکہیں کہانی کی صورت کیا ہے، کہیں انشائیے کا انداز اختیارکیا، کہیں آپ بیتی کا اسلوبِ بیان اپنایا، اور کہیں رپورتاژ کا رنگ نمایاں ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو اصنافِ ادب کی روایتی حدبندیوں کو پاش پاش کرتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں کی تاریخ سے متعلق ہر نوع کی معلومات حیرت انگیز تو ہیں ہی، لیکن اتنی ہی اہم کتاب کی نثر ہے۔ ایسی زندہ، رواں، ولولہ خیز، اختصار پسند، طنز و چٹکی بھرنے کے اندازکے ساتھ ہر جگہ معنی و بصیرت سے مالامال ایسی عمدہ نثر بہت کم پڑھنے کو ملتی ہے، جس کے لیے مصنف بھرپور دادکے مستحق ہیں۔
کتاب کے چھوٹے چھوٹے جملوں اور پیروں میں مصنف بڑی بڑی باتیں سادہ انداز میں کہہ کر آگے بڑھ جاتاہے۔ بیرونِ ملک بچوں کے تنہا والدین کے ذکر میں کیا لاجواب جملہ ہے: ’’جنوب مشرقی ایشیا میں لکیرکے دونوں طرف ماں باپ کا المیہ یہ ہے کہ یا تو وہ بچوں کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں یا ان کو ترقی کرتا دیکھ سکتے ہیں‘‘۔ مانکیالہ میں برسوں پہلے انگلینڈ سے ایک ڈاکٹر صاحب آئے، پوچھتے پاچھتے پرانے محلے گئے، موہڑہ بھٹاں کے تالاب دیکھے، اسکول میں آنسو بہائے، مندر میں ماتھا ٹیکا اور چلے گئے۔ بعد میں پتا چلا ان کے دادا بالک سنگھ، اسکول کے ہیڈماسٹر تھے۔ بالک سنگھ، گیان بانٹتے بانٹتے یہاں سے چلے گئے اور ڈاکٹر صاحب اپنا بچپن ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں آئے تھے۔
دلچسپ اورذو معنی جملے اورپیرے قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالیتے ہیں۔
پوٹھوہار کے جری جوان اپنی تاریخ نبھا رہے ہیں۔ حفاظت کرنا شاید اس مٹی کی تاثیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریل کی پٹری کے ساتھ ساتھ، شہیدوں کی قبریں اور بیرون ملک کے سرمائے سے بنی رنگین کوٹھیاں کثرت سے نظرآتی ہیں۔
مہا بھارت میں لکھا ہے کہ گوجر پہلے لڑے اور بعد میں اپنے دیوتا کشن کے ساتھ ہجرت کر گئے، بالکل ایسے ہی جیسے پوٹھوہار کے لوگ پہلے جوق درجوق فوج میں بھرتی ہوئے اور اب گروہ درگروہ ملک سے باہر جا رہے ہیں۔
فرید خان نے قلعہ روہتاس کی تعمیرکے لیے ترپ کا پتّا پھینکا اور تاریخ کو ٹوڈرمَل مِل گیا۔ اس کایستھ کھتری نے اعلان کیا کہ ہر پتھر لانے والا مزدور، سونے کا ایک سکہ انعام پائے گا۔ چند دنوں میں لوگ تانبے کے سکوں کے عوض پتھرڈھونے لگے۔ شیر شاہ کی تلوار تو جنجوعہ قوم کی اطاعت حاصل نہ کرسکی، مگر ٹوڈرمل کی اشرفیوں نے ان کا ایمان ضرور حاصل کرلیا۔ ادھر قلعہ مکمل ہوا، اُدھر ہندوستان میں سوریوں کی حکومت اپنے انجام کوپہنچی۔ رہ گیا ٹوڈرمل، تو وہ اچھے ٹینکوکریٹ کی طرح نئی حکومت کا بھی منظورِ نظر بن گیا۔ شیرشاہ کا میر تعمیر، جلد ہی مہابلی کا لگان منتری بن گیا۔
(جاری ہے)

حصہ