رزاق

276

حمیرا بنت ِ فرید
اس رات اظہر کے چہرے پر غیر معمولی سکون تھا۔ اِس طمانیت کو اُس کی بیوی زہرہ نے بھی محسوس کیا تو رات سوتے وقت وہ بھی پوچھے بغیر نہ رہ سکی ’’اظہر! اللہ کے کرم سے سب خیریت ہے ناں؟‘‘
’’ہاں زہرہ! الحمدللہ، سب انتظام مکمل ہوگئے ہیں۔ جو تھوڑی بہت تیاری رہ گئی ہے بس مَیں وہ اطمینان سے پوری کرلوں۔ بارات کے کھانے کی رقم کے لیے سلیم سے میری بات ہوگئی ہے، وہ ادھار دینے پر تیار ہے۔ ایک دو، دن میں دے دے گا اور اس نے کہا ہے کہ واپسی کی جلدی نہیں، میں ذرا شکرانے کے نفل پڑھ لوں۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
اظہر کا شمار سفید پوش لوگوں میں ہوتا تھا۔ اس نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں بچے بچپن کو بہت جلد پار کرکے ذمے داریوں کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں۔ واجبی سی تعلیم حاصل کرکے وہ بھی چھوٹے موٹے کام کرکے باپ کا ہاتھ بٹانے لگا۔ اس کا باپ افضل ایک دکان پر معمولی سیلزمین تھا، جس کی قلیل تنخواہ سے بمشکل گزارا ہوتا، اس کے باوجود اپنی محدود تنخواہ میں سے کچھ مقدار کٹواکر وہ اپنے سیٹھ کے پاس اس آس پر جمع کرواتا رہا کہ شاید وہ بھی ایک دن چھوٹی سی دکان کا مالک بن جائے۔ اس کی یہ خواہش، بس خواہش ہی رہی۔ دکان کے مالک نے اپنی بڑی سی دکان کو جب اپنے دونوں بیٹوں میں تقسیم کیا تو افضل کی ایمان داری اور اتنے سال کی محنت کو مدنظر رکھتے ہوئے انعام کے طور پر ایک کھوکھا نما حصہ نکال کر اس کے حوالے کردیا۔ افضل بغیر پس و پیش کے اظہر کو اس دکان کا مالک بناکر خود ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے لگا۔ اس کو اطمینان تھا کہ معمولی ہی سہی پَر بیٹے کی ’’اپنی‘‘ دکان ہے۔ اظہر نے بھی خوب محنت کی اور اپنی جوانی کے کئی سال اس دکان کی نذر کردیے۔
…٭…
شادی کے بعد اللہ نے نرینہ اولاد سے محروم رکھا۔ تین بیٹیوں کے باپ کے کاندھے تو ویسے بھی وقت سے پہلے جھک جاتے ہیں، تیس سال کی عمر میں ہی اظہر کے بالوں میں چاندی چمکنے لگی تھی۔
’’اللہ ایک بیٹا بھی دے دیتا تو شاید ہمارے بھی کچھ سُکھ کے دن آجاتے۔‘‘ زہرہ یہ کہتی تو اظہر اسے فوراً ٹوک دیتا:
’’ناشکری نہ کیا کرو۔ عزت کی دو وقت کی روٹی ملتی ہے، کبھی بھوکے نہیں سوئے۔ تن ڈھانپنے کو کپڑے بھی ہیں اور سر پر چھت بھی۔ پھر کس بات کے شکوے کرتی ہو! اولاد کی نعمت بھی ہے۔ اللہ نے ہمیں کسی بات کے لیے نہیں ترسایا۔‘‘ زہرہ شرمندہ ہوجاتی۔
…٭…
وقت پَر لگا کر اُڑتا رہا۔ بڑی بیٹی کا رشتہ جب اس کی پھوپھی نے مانگا تو اظہر حیران رہ گیا۔
’’بچیوں کو بڑا ہونے میں کیا دیر لگتی ہے؟‘‘ اس نے سوچا۔ وہ خوش تھا پَر دل ڈوبا ہوا بھی تھا۔ اپنے جگر کے ٹکڑے کو اپنے سے دور کرکے کسی اورکے حوالے کرنا کوئی آسان کام تو نہ تھا۔ جہاں دل اداس تھا وہاں اللہ کا شکر بھی کہ اس نے عزت کے ساتھ ایک ذمے داری پوری کرنے کی توفیق دی تھی۔ تینوں بیٹیوں کی عمروں میں فرق تھا، لہٰذا اظہر کو اطمینان تھا کہ دوسری کی شادی تک وہ اس کو عزت سے بیاہنے کے لیے کچھ نہ کچھ بچت کر ہی لے گا۔
دوسری بیٹی کا رشتہ ایک اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے آیا تھا۔ لڑکا بھی اچھا، نیک، پڑھا لکھا تھا۔ رخشندہ تو اپنوں میں گئی تھی۔ ایک دوسرے کے گھرانوں کے حال سے واقف۔ اس نے اپنی سہولت سے جتنا انتظام کرسکتا تھا کیا، لیکن یہاں کھاتے پیتے گھرانے کے پرائے لوگ تھے۔ اگر باپ کا سایہ سر پر نہ ہوتا تو شاید اظہر کب کا ہمت ہار بیٹھتا۔ افضل کی دعائیں اور حوصلہ افزائی اظہر کے لیے تسکین کا باعث تھی۔ باپ کا وجود اس کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔
بیٹی کی بات پکی ہونے کے بعد اظہر دکان کو اور بھی زیادہ وقت دینے لگا تھا۔ وہ تھک کے چُور ہوجاتا مگر بیٹی کی شادی کرنے کی دُھن میں جی جان سے لگا رہتا۔ دونوں میاں بیوی نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ویسے تو بہت پہلے ہی سے بچت کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی، مگر مہنگائی نے اس کا ہدف کبھی پورا نہ ہونے دیا۔ زہرہ بھی رات رات بھر جاگ کر سلائیاں کر کرکے پیسے بچانے کی کوشش میں لگی رہتی۔ شادی کی تاریخ سال بھر بعد کی ٹھیری تھی، اس عرصے میں دونوں بہت حد تک تیاری مکمل کر چکے تھے۔
’’شکر ہے ابھی تیسری میں ٹائم ہے۔‘‘ زہرہ نے اپنی تختہ ہوتی ہوئی کمر کو آرام دینے کی غرض سے لیٹتے ہوئے کہا۔
’’دونوں بچیوں کا اللہ ہی نے کرایا ہے۔ چھوٹی کا بھی وہی کروا دے گا۔ تم اتنا پریشان نہ ہوا کرو۔‘‘ اظہر ڈھارس بندھاتا۔
سب تیاری مکمل تھی۔ بس باراتیوں کے کھانے کے لیے پیسوں کا انتظام نہیں ہو پارہا تھا۔ اظہر زہرہ کی تو ہمت بندھاتا پَر خود اندر ہی اندر اس بات سے پریشان تھا۔ اب ادھار کا انتطام ہوجانے پر وہ مطمئن تھا اور پُرامید بھی کہ اسی طرح محنت کرکے جلد ہی رقم لوٹا دے گا۔ افضل کی دعائیں اور حوصلہ افزائی اظہر کے لیے باعثِ طمانیت تھی۔ باپ کا وجود اس کے لیے واقعی بہت بڑی نعمت تھا۔ اس نے اپنے باپ کو جو اب بہت کمزور ہوگیا تھا اور زیادہ تر بستر میں ہوتا، یہ بات بتائی تو وہ بھی بہت خوش ہوا اور دعائیں دینے لگا۔ اظہر باپ کی دعائیں سمیٹے کمرے میں آیا تو زہرہ سوچکی تھی۔
’’اس بھلی مانس کو کیا پتا کہ قرض اتارنے کے لیے ابھی کتنی تگ و دو کرنی پڑے گی۔‘‘ اس نے سوتی ہوئی زہرہ کے مطمئن چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے سوچا اور ایک گہری سانس لے کر خوابوں کی دنیا میں کھو گیا۔ غریب تو انہی خوابوں کے سہارے اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔
…٭…
صبح وہ بیدار ہوا تو کافی ہشاش بشاش تھا۔ ابھی ناشتا کرہی رہا تھا کہ باہر اس کے دوست نے آواز دی۔ وہ ہاتھ پونچھتا ہوا باہر گیا، اس کے دوست کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔
’’کیا ہوا، خیر تو ہے؟‘‘ اظہر نے پوچھا۔
’’خیر ہی تو نہیں… حکومت غیر قانونی تعمیرات، عمارات، دکانوں، سب کو مسمار کررہی ہے۔ کارروائی شروع ہوچکی ہے، ہماری مارکیٹ والوں کو بھی نوٹس مل گیا ہے۔ دو چار دن میں آکر اپنا کام شروع کردیں گے۔‘‘ اس کا دوست ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گیا۔ اظہر کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔
’’دکان مسمار…‘‘ اس کو چکر آنے لگے۔ وہ سر پکڑے ہاتھ میں نوٹس لیے اندر آگیا۔
’’کیا ہوا؟ کچھ بتائیں تو سہی۔‘‘ زہرہ نے بے چینی سے پوچھا۔
’’ہماری دکان کو مسمار کرنے کا نوٹس آگیا ہے۔‘‘ اظہر نے مری مری آواز میں کہا۔
’’کیوں؟ ہم نے کیا کیا ہے؟‘‘ زہرہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولی۔
’’یہاں سزا کے لیے مجرم ہونا ضروری نہیں۔‘‘ غم اور غصے سے اظہر کی حالت خراب ہورہی تھی۔
’’اچھا آپ پریشان نہ ہوں… پانی پئیں۔‘‘ زہرہ نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
اظہر یونہی کتنی دیر تک گم سم بیٹھا رہا۔ یہاں غریب ہی ہر دم پستا ہے، کیا ہوگا؟ وہ کیا کرے گا؟ بیٹی کی شادی سر پر ہے، کمائے گا نہیں تو کہاں سے کھائے گا؟ کہاں سے کھلائے گا؟ اس کے پاس تو کسی دوسری جگہ دکان کے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ اس کی زندگی میں بس اتنی مختصر بہار تھی! بس سسک سسک کر مرنا ہی اس کی قسمت میں لکھا ہے! منفی سوچیں ایک کے بعد ایک اس کے ذہن کو پراگندہ کررہی تھیں۔
’’آپ باہر جائیں، اپنے ساتھیوں سے بات چیت کریں، کوئی نہ کوئی تو حل ہوگا اس مسئلے کا۔‘‘ زہرہ نے اظہر کی حالت دیکھتے ہوئے مشورہ دیا۔
’’ہوں، ہاں… ہاں میں جاتا ہوں‘‘۔ اظہر کہتا ہوا باہر نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی زہرہ کے بھی ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ افضل سے بھی خبر چھپ نہ سکی لیکن سوائے صبر کے وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ اس کو بھی چپ لگ گئی تھی۔
رات جب اظہر واپس آیا تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ زہرہ کو کھانے کا منع کرکے وہ کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ زہرہ کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے شوہر کی ڈھارس بندھائے۔ مستقبل کے خوف سے وہ خود بھی اندر سے ٹوٹ پھوٹ رہی تھی۔ کچھ دیر کروٹیں لینے کے بعد وہ سو گئی لیکن اظہر بے چین ہوکر ٹہلنے لگا۔ صرف دکان کی بات ہوتی تو وہ برداشت کرلیتا، مگر باہر جاکر بات چیت پر معلوم ہوا کہ دو کمروں کے چھوٹے چھوٹے مکان جہاں اس نے اپنی پوری زندگی گزاری تھی، وہ بھی غیر قانونی ہیں اور جلد ہی ان کو مکان خالی کرکے کوئی اور ٹھکانہ ڈھونڈنا پڑے گا۔ اظہر کی ہمت ہی نہ ہوئی کہ وہ یہ بات گھر والوں کو بتاتا۔ اس کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ اچانک برابر والے کمرے سے افضل کے کراہنے کی آواز ائی، وہ دوڑتا وہاں پہنچا تو بابا دل پکڑے بیٹھا تھا۔ شاید اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔
سائرن بجاتی ایمبولینس جلد ہی گلی میں داخل ہوچکی تھی، مگر جب تک بابا کی روح پرواز کرچکی تھی۔
اظہر کی دنیا تو بالکل لٹ چکی تھی۔ قریب تھا کہ وہ بھی ہاتھ پیر چھوڑ دیتا، پَر اس نے جب اپنی بیوی کی بے بسی اور بچیوں کے اترے ہوئے چہرے دیکھے تو سوچا کہ اگر اس نے بھی ہمت ہار دی تو اس کے خاندان کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سمجھایا اور بڑی تگ و دو کے بعد اپنے آپ کو سنبھالا۔ ’’بے شک رازق تو اللہ ہے۔‘‘ یہ سوچ کروہ ایک نئے عزم کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوا۔

حصہ