موت سے کچھ دن پہلے (احسن سلیم صاحب کی یاد میں)۔

502

فیض عالم بابر
اُردو بازار کی ایک تنگ گلی میں لکڑی کی7 بوسیدہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا تو پان کے کیبن نما ایک کمرے میں احسن سلیم کو موجود پایا۔ دیکھ کر خوش ہوگئے مگر میں نا خوش کہ یہ قدیم دور کی عکاس، گرد میں اٹی کیسی جگہ ہے، جہاں دن میں بھی رات جیسا سماں ہے۔ کمرے میں صرف تین افراد کے برا جمان ہونے کی گنجائش تھی۔میرا خیال تھا کہ احسن سلیم صاحب کے سر میںــ’’ اجر ا ‘‘کے اجرا کا سودا غلط سما گیا ہے،میری طرح صاحبِ قلاش ہیں ،ایک آدھ شمارہ نکالنے کے بعد ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔ خیال آیا کہ اس جگہ کون آئے گا یہاں تو تین افراد سے زیادہ کی گنجائش ہی نہیں ۔ احسن سلیم صاحب سے کہا کہ مجھے تو جگہ ٹھیک نہیں لگ رہی، کوئی اور دیکھیں۔’’پیارے صاحب آغاز تو کرلیں پھر جگہ بھی بدل لیں گے‘‘۔ احسن صاحب اپنے مخصوص لہجے میں بولے۔کچھ دن بعد پھر وہاں گیا تو سحر انصاری صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔کچھ دیر بیٹھا،گفتگو ہوئی اور احسن صاحب نے کہا بابر! سحر بھائی کو چائے پلادو۔مجھے معلوم تھا سحر انصاری صاحب پوری شوق سے کھاتے ہیں، سو گرما گرم پوریاں، گلاب جامن، پیپسی کے کین اور چائے لیکر سحر انصاری صاحب کے سامنے مختصر سے دسترخوان پر سجا دیے۔ سحر صاحب خوش ہوگئے اور پوری کھاتے ہوئے مسکرا کربولے ’’ میاں بہت سگھڑ ہو بیوی بہت خوش رہے گی تم سے‘‘ ۔میں اور احسن صاحب بھی مسکرانے لگے۔احسن صاحب بولے بابر! سحر بھائی کی بات گرہ سے باندھ لو۔۔۔۔
جگہ کے حوالے سے میرا گمان غلط نکلا جب وہاں صابر ظفر صاحب سمیت شہر کے نامورسینیئر اور نوجوان شعر،ا ادباء کو آئے دن آتے دیکھا۔’’اجرا ‘‘کے اجرا کا کام شروع ہوگیا۔ احسن صاحب بہت سینئر اور علمی سطح پر بہت بلند ہوتے ہوئے بھی ہر معاملے میں مجھ سمیت ہر ایک سے مشاورت کرتے تھے ۔اجرا کی ادارت اور مجلس مشاورت کے حوالے سے مختلف نام فائنل کیے ۔میں نے اپنا نام نکلوا دیا ،احسن صاحب بضد تھے مگر میری خود ساختہ دلیلوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے ،البتہ میرے کہے پر کچھ دوستوں کے نام ضرور شامل کرلیے۔ احسن سلیم نہ صرف سینئر بلکہ اپنے جونیئر کابھی مان رکھتے تھے اور انھیں ساتھ بھی لیکر چلتے تھے۔ اجرا کا اولین شمارہ میری توقع سے زیادہ معیاری نکلا۔ جگہ بھی کچھ ہفتوں بعد تبدیل کردی گئی۔ احسن سلیم صاحب مجھے بابر صاحب، فیضِ عالم، پیارے صاحب تو کبھی درویش کے نام سے اور مجھ سمیت رمزی آثم انھیں احسن صاحب ،احسن بھائی اور زیادہ تر ’’بابا جی ‘‘ کے القاب سے پکارتے ۔تقریباً روز مجھ سے ملنے آتے۔سہ پہر ہوتے ہی فون کی گھنٹی بجتی اور احسن صاحب کی آواز سماعت سے ٹکراتی کہ ’’ کہاں ہو پیارے صاحب! میں بیگم گلی میں ہوں،’’ اچھا آیا ‘‘کہہ کر میں دفتر سے نکل کر بیگم گلی پہنچ جاتا۔ بیگم گلی میں کبھی دبئی ریسٹورنٹ کبھی حاجی گھیسٹا ریسٹورنٹ کبھی کوئٹہ وال ہوٹل کبھی آلو سموسے والی شاپ پر گھنٹوں بیٹھ کر ادب پر گفتگو کرتے۔ بابا جی خوش خوراک نہیں تھے، میرے اصرار کے باوجود دو سموسے ،کبھی آلو بھرا ایک پراٹھا کھالیتے اور ایک کپ چائے کا نوش فرماتے، کبھی ضد کرتا تو حیدر آبادی دال،حلیم یا پھر دال چاول کھالیتے ،گوشت کم کھاتے تھے۔کھانے کے دوران بھی میرا مشاہدہ رہتا کہ یہ خود کم کھاتے ہیں اور میں زیادہ کھا جاتا ہوں، جب کئی بار یہ بات مشاہدے میں آئی تو میں نے کہہ دیا ’’بابا جی خود تو اتنا کم کھاتے ہو اور مجھے اتنا زیادہ کھانا پڑجاتا ہے‘‘۔ مسکرا کر بولے ’’جوان آدمی کھانے کو اور کھانا بوڑھے آدمی کو کھاتا ہے تمھارے ابھی کھانے پینے کے دن ہیں خوب کھائو‘‘۔گفتگو کے دوران اچانک پوچھتے رمزی کہاں ہے؟میں سمجھ جاتا کہ ملنا چاہ رہے ہیں ،فون کرتا ’’ہیلو رمزی ،میں اور بابا جی بیگم گلی میں ہیں‘‘ رمزی دس منٹ میں فراٹے بھرتا پہنچ جاتا۔رمزی کے آتے ہی میری بھی حسِ ظرافت پھڑک اٹھتی اور ہم دونوں بابا جی سے دوستوں کی طرح باتیں شروع کردیتے۔ رمزی اکثر چھیڑتا’’ باباجی سانوں وی دسو کننے عشق لڑائے نیں‘‘ اور میں بھی رمزی کو لقمہ دیتا رہتا۔باباجی ہلکی آواز میں قہقہہ لگاتے اور گفتگو کا رخ دوبارہ سے شاعری،افسانے، کتاب کی طرف موڑ دیتے۔رمزی سے کلام سنتے اور اکثر کہتے لائو اجرا کے لیے مجھے دو۔رمزی کے پاس لکھا ہوا نہیں ہوتا تو ٹال دیتا اور بابا جی میری ذمہ داری لگادیتے کہ اس سے کلام لے لینا۔میرے مزاج سے واقف تھے ،سو مجھ سے کلام سننے کی فرمائش کم کرتے تھے،مگر عجیب دانا شخص تھے کہ میں جب غزل کہتا انھیں جیسے الہام ہوجاتا،میرے چہرے کو تھوڑا غور سے دیکھتے اور مسکرا کر کہتے سنائو کیا تازہ کہا ہے۔ ’’آپ کو کیسے پتا چل جاتا ہے کہ میں نے کچھ کہا ہے‘‘۔ میرے اس سوال پر مسکراتے اور گویا ہوتے’’ پیارے صاحب میں بھی بابا فرید اور لال شہباز قلندر کا عقیدت مند ہوں مجھے بھی ان بزرگوں سے تھوڑا بہت فیض ملا ہے‘‘۔ میں غزل سناتا اور وہ آنکھیں بند کرکے سنتے کسی کسی شعر پر واہ کرتے مگر آنکھیں بند ہی رہتیں۔غزل پوری ہونے پر آنکھیں کھول لیتے اور تعریف کے ساتھ جو مناسب سمجھتے مشورہ بھی دیتے۔اپنا کلام سناتے تو پوچھتے کوئی خامی تو نہیں، کوئی مصرع وزن سے تو نہیں گر رہا، میں کہتا بابا جی کیوں شرمندہ کرتے ہیں،یہ بات انھیں اچھی نہیں لگتی اور میں پھر اول فول بکنا شروع کردیتا اور وہ خاموشی سے سنتے چلے جاتے۔مجھے حیرت ہوتی کہ یہ ہر ادیب ،شاعر کے کلام پر مجھ سے کیوں رائے لیتے ہیں۔کسی پر کچھ لکھنا ہو تو مجھے کہتے تم لکھ دو یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری ان کے لکھے کے آگے کوئی حیثیت ہی نہیں۔ایک دن میں نے کہہ دیا’’ بابا جی یہ ہر شاعر کے بارے میں آپ مجھ سے کیوں رائے لیتے ہو؟ آپ خود سب جانتے ہو، مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہو،کہیں ایسا تو نہیںآپ مجھ سے رائے لیکر اُس شاعر کو بتادیتے ہو اور میرا اُس سے تعلق ختم کروادیتے ہو ‘‘ ۔میری بات سن کر زور دار قہقہہ لگایا اور بولے’’ پیارے صاحب تم سے رائے اس لیے لیتا ہوں کہ درویش کبھی جھوٹی رائے نہیں دیتے‘‘۔بابا جی کی بات سن کر مجھے شرمندگی سی ہوتی اور میں دل ہی دل میں سوچتا یہ عجیب خوش گمان آدمی ہیں ،میں ہوں کیا اور مجھے سمجھتے کیا ہیں۔
میں ان کے بارے میں جب بھی سوچتا تو مجھ ان پر رشک آتا کہ اکیلے آدمی ہیں ،عمر رسیدہ ہیں مگر ادب کے ایسے سچے عاشق کہ ادب کے فروغ کے لیے دن کو گھر سے نکلتے ہیں اور رات گئے داخل ہوتے ہیں۔دن بھر پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھاتے ہیں۔اجرا کے اشتہارات کے لیے کبھی کراچی کے ایک تو کبھی دوسرے کونے میں جاتے ہیں۔کچھ صاحبِ حیثیت سرکاری اور ادب نواز لوگوں کے پاس جاکر بیٹھتے ہیں کہ شاید کوئی بات بن جائے۔اجرا کے لیے مواد جمع کرتے ہیں،ای میل اور خطوط کے ذریعے موصول شاعری ،افسانے، مضامین پڑھتے ہیں ان میں موجود اغلاط دور کرتے ہیں۔کوئی بھی نوجوان ملے اسے ادب کی جانب راغب کرتے ہیں۔نوجوانوں کے ساتھ نوجوان بن جاتے ہیں۔جدید غزل سمیت ادب کے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں تو سننے والے کا دل ہی نہیں بھرتا۔ میں جب بھی خود سے یہ سوال کرتا کہ اتنے بہت سے کام تنہا آدمی کیسے کرلیتا ہے؟تو ایک ہی جواب مجھے ملتا کہ احسن بابا ادب کے سچے عاشق ہیں۔ان کا بس ایک ہی خواب ہے کہ ادب کو فروغ دے کرفرسودہ معاشرے کو بدل دیا جائے۔
جب بہت زیادہ کام ہوتا تو مجھ سے کہتے یار اس بار اجرا کی پروف ریڈنگ تم کرلو،اور کبھی شاعری کا حصہ دے دیتے کہ صابر ظفر کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اک نظر دیکھ لو۔بابا جی میں ایک عجیب مقناطیسی کشش تھی کہ جو نوجوان ان سے ایک بار ملتا وہ ان کا ہوجاتا،رفتہ رفتہ اجرا کے قافلے میں انور جمال، اقبال خورشید ،رمزی آثم،شبیر نازش سمیت متعد د شعرا ،ادیب اور ادب پرور شخصیات شامل ہوگئیں۔اجراکا قافلہ چل پڑا تو اب بابا جی نے اگلے مرحلے میں اجرا کے پلیٹ فارم سے ادبی نشست کا آغاز کردیا۔ دوسری نشست کیفے حسن ناظم آباد میں منعقد کی ،نشست کے آغاز سے قبل مجھے کہا کہ تم نے اور کاشف حسین غائر نے ایک ایک غزل پیش کرنی ہے۔کاشف حسین غائر اور میرے تعلقات کچھ دوستوں کی مہربانیوں سے کچھ برس سے سرد مہری کا شکار تھے۔مجھے حیرت ہوئی کہ بابا جی کو سب معلوم ہے پھر بھی انھوں نے مجھے غائر کیساتھ کیوں رکھا؟۔غائر کے ساتھ کسی اور شاعر کا نام دے دیتے مجھے تو ویسے بھی کہیں آنے جانے اور اپنا کلام سنانے کا کوئی خاص شوق نہیں۔خیر میں نے خود کو یوں تسلی دی کہ جائوں گا ہوسکتا ہے ،غائر میرا نام دیکھ کر خود ہی نہ آئے۔جب وہاں گیا اور نشست کے آغاز سے قبل دوستوں کے ساتھ کھڑے ہوکر گفتگو کررہا تھا تو غائر اندر داخل ہوا ۔میری اس پر اور اس کی مجھ پر نظر پڑی اور دونوں کے قدم بے ساختہ ایک دوسرے کی جانب بڑھے اورہم گلے لگ گئے ۔گلے لگے رہنے کا یہ عمل معمول سے کچھ طویل رہا اور یوں برسوں کی سرد مہری دوبارہ خوشگوار تعلقات میں تبدیل ہوگئی۔تب میری سمجھ میں آیا کہ بابا جی نے میرا نام غائر کے نام کے ساتھ کیوں شامل کیا تھا۔دوستوں کے درمیان رنجشیں ختم کروانے کا کیا احسن انداز تھا احسن سلیم صاحب کا۔
ریڈیو پاکستان کے آڈیٹوریم میں شو بز سے وابستہ ایک شاعرہ کے شعری مجموعے کی رونمائی تھی جس کی صدارت احسن سلیم کی تھی اور مہمان خصوصی پیرزادہ قاسم رضا صدیقی تھے۔تقریب کے آغاز میں صدارت کے لیے ا حسن سلیم کو بلایا گیا تو ڈائس پر آتے ہی مائیک سنبھال لیا اور گویا ہوئے ’’ ہمارے درمیاں پیرزادہ قاسم بھی موجود ہیں، پیرزادہ صاحب مجھ سے سینئر اور علم و دانش کے رتبے میں بھی مجھ سے بہت بلند ہیں، انکی موجودگی میں یہ گستاخی نہیں کرسکتا کہ مسند ِ صدارت سنبھالوں اور ایسا کرنا ہماری تہذیب کے بھی خلاف ہے سو ڈاکٹر صاحب سے ملتمس ہوںکہ وہ آئیں اور مسند صدارت سنبھالیں‘‘۔پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔اپنے سینئر کی عزت و تکریم کا ایسا مظاہرہ میں نے پہلی بار دیکھا ۔تقریب میں شوبز سے وابستہ ٹی وی ،ریڈیو کے اداکار، گلوکار، صدا کاراور ادبی شخصیات کی بڑی تعداد موجود تھی۔ایک موقع پر ایف ایم ریڈیو سے وابستہ ایک دوشیزہ نے نظامت کے فرائض سنبھالے تو اس کی ’’گلابی اردو‘‘ سُن کر ادبی شخصیات خوب محظوظ ہوئیں اور شوبز شخصیات تالیاں بجانے لگیں۔ ایک موقع پر فرمانے لگیں ’’ اب میں شاعرہ کو دعوت دوں گی کہ وہ آئے اور صدر کوپھولوں کا گلدستہ گوش گزارکریں‘‘۔یہ جملہ سن کر پیرزادہ صاحب اور احسن بابا ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔میں سوچ رہا تھا بابا جی اس تقریب میں آ کیسے گئے کیونکہ تقریب ادب سے زیادہ شوبز کا رنگ لیے ہوئے تھی۔مگر جب تقریب کے اختتام پر بابا جی نے اجرا تقسیم کرنا شروع کیا تو سمجھ میں آگیا وہ یہاں کیوں آئے ہیں۔بابا جی ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو ادب سے جوڑنا چاہتے تھے اور اس کے لیے عملی جدو جہد بھی کرتے تھے۔احسن سلیم جدید نظم و غزل کے علم بردار شاعر تھے۔
تصوف،وجود،معاشرتی مسائل ان کی شاعری کے بنیادی موضوع تھے۔جب قمر جمیل کی نگرانی میں نثری نظم کی حمایت میں تحریک چلی تو احسن سلیم اس میں پیش پیش تھے اور اُس دور میں کئی شاہکار نثری نظمیں کہی تھیں۔احسن سلیم کی حال ہی میں ’’تصویرِ سخن‘‘ کے نام سے کلیات شائع ہوئی ہے جس میں ان کے چار مجموعے ،جوئے میں جیتی ہوئی آنکھیں،منجمد پیاس،ست رنگی آنکھیں،پتوں میں پوشیدہ آنکھ شامل ہیں۔
(جاری ہے)

حصہ