بناتِ اسلام کی شجاعت

1913

بینا حسین خالدی
مشہور صحابی سیدنا ابوازور ضرار بن مالک ازور کا تعلق عرب کے مشہور قبیلے بنو اسید بن خزیمہ سے تھا، جو نواحِ خیبر میں آباد تھے۔ حضرت ضرارؓ اپنے قبیلے کے متمول لوگوں میں سے تھے۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو اپنا سب مال و دولت راہِ خدا میں دے دیا۔ چنانچہ 9 ہجری کے اوائل میں جب وہ بنو اسید کے وفد میں شامل ہوکر رحمتِ عالمؐ کی خدمت میں پہنچے تو دولتِ ایمان کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے انفاق فی سبیل اللہ کا حال سنا تو اس کی تحسین فرمائی۔ آپؓ کو کچھ مدت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہ کر احکامِ دین سیکھنے اور تبلیغ کی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام سعادت میں جب طلیحہ بن خویلد اسدی نے شیطان کے بہکاوے میں آکر نبوت کا دعویٰ کیا اور لوگوں کو مرتد کرنے کے لیے بہکانا شروع کیا تو اس فتنے کی سرکوبی کے لیے آپؐ نے حضرت ضرارؓ کی قیادت میں ایک لشکر روانہ کیا، جس نے طلیحہ اور اس کے حواریوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ دشمن بدحواسی کے عالم میں میداِِ جنگ چھوڑ کر بھاگے۔ حضرت ضرارؓ مظفر و منصور واپس مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، لیکن ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔ حضرت ضرارؓ حضرت خالد بن ولیدؓ کی ماتحتی میں جنگِ یمامہ میں بھی شریک ہوئے اور ایسی بے جگری سے لڑے کہ سارا جسم زخموں سے چھلنی ہوگیا۔ جانبری کی کوئی امید نہ تھی لیکن اللہ کو ان سے ابھی اور بڑے بڑے کام لینے منظور تھے۔ کچھ مدت کے بعد زخم مندمل ہوگئے اور پھر دشمنانِ خدا کو تہ تیغ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب مسلمانوں نے شام پر لشکرکشی کی تو حضرت ضرارؓ اور ان کی بہادر بہن خولہؓ بنتِ ازور بھی مجاہدین میں شامل ہو گئے۔ شام کے معرکوں میں ان دونوں سرفروشوں نے ایسے محیرالعقول کارنامے سرانجام دیے کہ اپنی جاں بازی اور سخت کوشی کی دھاک بٹھا دی۔ اپنی ہیئت کذائی کی وجہ سے وہ رومیوں میں ’’جن‘‘ مشہور ہوگئے تھے۔ جدھر رُخ کرتے رومی ’’جن آیا جن آیا‘‘ کہہ کر بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ اکثر اصحابِ مغازی نے لکھا ہے کہ وہ اپنی بے مثال شجاعت کی بدولت ایک ہزار شجاعانِ عرب کے برابر تسلیم کیے جاتے تھے۔
13 ہجری میں سپہ سالارِ اسلام حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں مسلمانوں نے دمشق کا محاصرہ کیا تو انہوں نے حضرت ضرارؓ کو دو ہزار سوار دے کر طلایہ کا افسر مقرر کیا۔ محاصرے کو توڑنے کے لیے رومیوں کا ایک لشکر دمشق کی طرف بڑھ رہا تھا جس کو روکنے کے لیے حضرت ضرارؓ کو بھیجا گیا۔ حضرت ضرارؓ اپنے رفیقوں کے ہمراہ اس مہم پر روانہ ہوئے۔ دونوں گروہوں کا راستے میں ٹکرائو ہوا۔ دس، بارہ ہزار رومیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ مسلمانوں کے لشکر نے آخر دم تک ان کا مقابلہ کیا لیکن رومی لشکر کو پسپا نہ کرسکے۔ رومیوں نے حضرت ضرارؓ اور کچھ دوسرے مسلمانوں کو گرفتار کرکے قید کرلیا۔ اسیروں میں حضرت سالمؓ بھی تھے، وہ راستے میں کسی طرح اپنی بندش توڑ کر رومیوں کی قید سے نکل بھاگے اور سیدھے حضرت خالد بن ولیدؓ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو سالمؓ کی زبانی جب حضرت ضرارؓ کی گرفتاری کا علم ہوا تو بے حد ملول ہوئے۔ اسی وقت میسرہ بن مسروقؓ کو ایک ہزار جوان دے کر دمشق کے محاصرے کے لیے مقرر کیا اور خود باقی فوج کو ساتھ لے کر رومی لشکر کے تعاقب میں روانہ ہوئے۔ راستے میں انہوں نے دیکھا کہ لشکرِ اسلام کے آگے آگے ایک نقاب پوش سرخ رنگ کے گھوڑے پر سوار بڑی تیزی سے میدانِ جنگ کی طرف لپک رہا ہے۔ وہ حیران ہوئے کہ یہ کون شخص ہے! لیکن تحقیق کا موقع نہ تھا، خاموش ہورہے۔ جب رومی لشکر سے مسلمانوں کی مڈبھیڑ ہوئی تو حضرت خالدؓ نے دیکھا کہ وہ نقاب پوش اس بے جگری سے لڑ رہا ہے کہ جدھر جھک پڑتا کشتوں کے پشتے لگا دیتا۔ زخم پر زخم کھاتا ہے لیکن پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لیتا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے اس نقاب پوش کے بارے میں دریافت کیا، لیکن سب نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اتنے میں وہ نقاب پوش مارتا کاٹتا رومی فوج کے قلب سے، خون میں نہایا ہوا نکلا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ اپنا گھوڑا دوڑا کر اس کے قریب پہنچے اور پکارا ’’اے مردِ مجاہد! تُو نے جاں بازی کا حق ادا کردیا، تُو اللہ اور اس کے رسولؐ کے سامنے سرخ رو جائے گا، تیرے جیسے سرفروشوں کو نقاب پوشی زیب نہیں دیتی، اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دے تاکہ میں دیکھ سکوں کہ تُو کون شیرِ شجاعت ہے؟‘‘
نقاب پوش پہلے تو خاموش رہا، لیکن جب حضرت خالدؓ نے بے حد اصرار کیا تو وہ یوں گویا ہوا:’’اے امیر! میں ضرار بن ازورؓ کی بہن خولہ بنتِ ازور ہوں، میں اپنے پیارے بھائی کی گرفتاری سے سخت بے چین ہوں، خدا کی قسم میں اپنے بھائی کو دشمن کے پنجہ سے رہائی دِلا کر رہوں گی یا اس کوشش میں اپنی جان دے دوں گی۔‘‘
حضرت خالد بن ولیدؓ خولہؓ کی دلیری دیکھ کر حیران رہ گئے، فرمایا ’’ خولہ آفرین ہے تم پر، جس قوم میں تم جیسی بیٹیاں ہوں اسے دشمن کبھی مغلوب نہیں کرسکتا۔ بیٹی تم مطمئن رہو، اگر ضرارؓ زندہ ہے تو ان شاء اللہ اسے چھڑا کر رہوں گا، اور اگر وہ شہید ہوکر زندہ جاوید ہوگیا ہے تو میں نے بھی اسی کے نقش قدم پر کمر باندھ رکھی ہے۔‘‘یہ کہہ کر انہوں نے فوج کے چیدہ چیدہ دستے ساتھ لیے اور رومیوں پر حملہ کیا۔ خولہؓ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ (جاری ہے)

حصہ