جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں

3046

پروفیسر عبدالحمید ڈار
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے: ’’جو شخص عصبیت کی وجہ سے ناراض ہوتا ہے، یا عصبیت کی طرف بلاتا ہے، یا عصبیت کی وجہ سے کسی کی مدد کرتا ہے، پس مارا گیا تو اس کا قتل جاہلیت کا ہوگا… وہ مجھ سے نہیں ہے اور میں اس سے نہیں ہوں۔‘‘ (مشکوٰۃ، باب حکومت کا بیان بحوالہ مسلم)
عصبیت کا مفہوم:
حضرت واثلہؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ عصبیت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: (عصبیت یہ ہے کہ) تم اپنی قوم کی ظلم پر مدد کرو۔ (ابودائود۔ جلد سوم، حدیث نمبر 1681)
عصبیت کی سنگینی اور گندگی و غلاظت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
’’لوگ اپنی قوموں پر فخر کرنا چھوڑ دیں، کیوں کہ وہ جہنم کے کوئلوں میں سے ایک کوئلہ ہی ہے، ورنہ وہ اللہ کے نزدیک گوبر کے اس کیڑے سے زیادہ ذلیل ہوجائیں گے جو اپنی ناک سے بدبو اور گندگی کو دھکیلتا ہے۔‘‘ (ابودائود، جلد سوم، حدیث نمبر 1678، راوی ابوہریرہؓ)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو حضرت آدمؑ اور حضرت حوّا کے جوڑے سے پیدا کیا۔ اس اعتبار سے وہ سب برابر اور یکساں ہیں۔ ان کے درمیان رنگ، نسل اور علاقے کا فرق ایک قدرتی امر ہے جس کا ان کے درمیان فرق و امتیاز اور پست و بالا کا سبب بن جانا بالکل غیر فطری اور نامعقول تصور ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب معاشرہ ان گنت قبائل میں بٹا ہوا تھا اور ہر قبیلہ حسب و نسب کے تفاخر کا پرچم بلند کیے ہوئے تھا۔ فخر و غرور کی اس ہوا نے ان کے درمیان دائمی نفرت کی دیواریں کھڑی کر رکھی تھیں۔ ذرا ذرا سی بات پر ان کی تلواریں نیاموں سے نکل آتیں اور کشت و خون کی ندیاں بہہ جاتیں۔ بعض اوقات تو جنگ و جدل کا یہ بازار برسوں تک گرم رہتا اور سینکڑوں ہزاروں انسان اس کی بھینٹ چڑھ جاتے۔
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ عرب کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا اور انہیں قوم اور قبیلے کی عصبیتی زنجیروں سے نکال کر ایمانی اخوت کی وحدت میں پرو دیا۔
اسلام جس نظامِ حیات کے قیام کا داعی بن کر آیا تھا یہ قبائلی اور قومی عصبیتیں اس کی کامیابی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تھیں۔ اسلام کی قوت کا سرچشمہ اہلِ ایمان کی وحدت اور اخوت تھی جس نے انہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا تھا اور وہ قلتِ تعداد اور قلتِ وسائل کے باوجود عرب و عجم کے ایک وسیع علاقے کو اسلامی نظامِ حیات اور اسلامی تہذیب و تمدن کے فیوض و برکات سے بہرہ ور کرنے کے قابل ہوگئے تھے۔ جب مفاد پرست افراد کی حرص و آز نے امتِ مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا تو ذلت و زوال ان کا مقدر بن گیا۔ عنانِِ حکومت ان سے چھن گئی اور وہ ہر اعتبار سے زبوں حالی اور ادبار کے گرداب میں پھنس گئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصبیتوں کے اس زہر ہلاہل سے بہ خوبی آگاہ تھے، اس لیے آپؐ اپنے خطبات میں مختلف طریقوں سے اس سے بچنے کی طرف اہلِ ایمان کو متوجہ کرتے رہتے۔ بالخصوص حجۃ الوداع کے موقع پر فرمائے گئے آپؐ کے یہ الفاظ انسانی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے:
’’لوگو! خبردار رہو، تم سب کا خدا ایک ہے۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر، اور کسی عجمی کو کسی عرب پر، اور کسی گورے کو کسی کالے پر، اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں مگر تقویٰ کے اعتبار سے۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن۔ سورۃ الحجرات۔ 13، بحوالہ بیہقی)

حصہ