پہلا قطرہ

322

انصر محمود بابر
اس کی چائے بہت اچھی تھی۔ عین میرے ذوق کے مطابق۔ چسکی لیتے ہی بے ساختہ اثبات میںسر ہل گیا۔ میری یہ خفیف حرکت بھی اس سے پوشیدہ نہ رہی اور ہلکی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ رینگ گئی۔ وہ چائے کے برتن لینے آیا تو میں نے پیسے نکال کر دیے اور چائے کی تعریف کی تو اس کی روشن آنکھیں مزید چمک اٹھیں۔ ایک غیر معروف جگہ کے ایک سادہ سے اسٹال پہ اتنی عمدہ چائے اور چائے والے کا انداز دیکھ کر میرا تجسس جاگا اور میں نے اس سے بات چیت شروع کردی۔
نام وغیرہ پوچھنے کے بعد خواہ مخواہ ہی اس کی تعلیم پوچھ لی جواس نے گریجویشن بتائی۔ ’’برخوردار تم نے کوئی جاب کیوں نہیں کرلی‘‘؟ میں نے پوچھا۔ ’’اس کا م میں کیا برائی ہے صاحب‘‘؟ الٹا اس نے مجھ سے سوال کر ڈالا۔ ’’میرا مطلب ہے کوئی با عزت روزگار کر لیا ہوتا۔‘‘ میں نے خفت مٹانے کی کوشش کی۔ کام تو سارے ہی عزت والے ہیں صاحب۔ بس اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔ آپ کیا کرتے ہیں صاحب؟ اس نے مجھ سے مزید پوچھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں لکھتا ہوں۔ تو وہ بولا ’’اچھا اچھا لکھا کریں صاحب آپ کی تحریریں پڑھ کر لوگ اثر لیتے ہوںگے‘‘۔ اس کا ہر ہر انداز میری صحافیانہ حس کو مزید ہوا دے رہا تھا۔
اگر چائے کا اسٹال ہی لگانا تھا تو گریجویشن کرنے کی کیاضرورت تھی؟ میں نے اس کومزید بات کرنے پراکسایا۔ کوئی ٹائی کوٹ والی جاب کرتے یاکسی دفتر میں بابولگ جاتے تومحلے میںعزت ہوتی۔ وہ مسکرایااورکہنے لگا، ’’سرکسی کے مرہون ِ منت ہونے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنا چائے کا اسٹال کھول لے۔ یہاں سے میراپیٹ بھی پل رہا ہے اورایساکرنے سے ملک سے ایک بے روزگارکی کمی بھی ہوئی ہے اورجہاں تک بات ہے گریجویشن کی تویقیناآپ کوایک گریجویٹ کے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے کالطف بھی آیاہوگااورچائے پیش کرنے کاطریقہ کار اور اسٹال اور برتنوں کی صفائی اورترتیب نے بھی آپ کو متاثرکیاہوگا‘‘؟ ’’بہت خوب‘‘، میں نے اسے داددی۔ ساتھ ہی مزیدسوال بھی داغ دیا۔ ’’تمہارے کلاس فیلوز بھی آتے ہیں ادھر‘‘؟۔ ’’کیوں نہیں صاحب۔بالکل آتے ہیں میرے ہاتھ کی بنی چائے پیتے ہیں، محظوظ ہوتے ہیں۔ان میں سے کچھ توآپ کے بقول بڑی عزت والی جاب کرتے ہیں جبکہ کچھ کا اپناکاروبار ہے اوریقین کریں صاحب! ہم مل کر انجوائے کرتے ہیں۔ ہنستے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ مارکر بڑی دیر تک ایک دوسرے کے ہونے کے احساس سے سرشار رہتے ہیں‘‘۔
اچھایہ بتائو کہ چائے کے اسٹال میں اپنامستقبل کیسادیکھتے ہو؟۔ وہ سانس لینے کورکا تو میں نے پوچھا، ’’صاحب پہلی بات تو یہ ہے کہ فی الحال تومیں پیٹ بھر کے کھانا کھاتا ہوں اور رات کوجی بھرکے سوتاہوں اور شاید یہ نعمتیں تمام ملازمت کرنے والوں کو میسر نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ملکی معیشت میںپہلا قطرہ بن کرمیںٹپک تو پڑا ہوں نا؟۔ آہستہ آہستہ ہی سہی میں لگاہواہوں اور میرا ماننا ہے صاحب کہ خوشحالی صرف اپنے کاروبار میں ہے۔ ان شاء اللہ بہت جلدمیں چائے کے اسٹال کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا ریسٹورینٹ کھولنے والاہوں۔ میںاپنے ملک اور مستقبل سے مایوس اور خوف زدہ نہیں ہوں صاحب‘‘۔ توکیاتم ہرآنے والے کو اسی طرح اپنی ڈگری بتابتاکر رعب ڈالتے ہو؟۔ نہیںسروہ تو آپ نے پوچھا اور میں نے بتادیا ورنہ علم تو وہ ہے جو آپ کے رویے اور کردار سے جھلکتا ہے ورنہ ڈگری تومحض آپ کے تعلیمی اخراجات کی ایک رسید ہے۔
حیرت کے سمندر میںغوطہ زن بے ساختہ ہی میںاٹھ کھڑا ہوا اس کاکاندھا تھپتھپایا، اس کی حوصلہ افزائی کی اورگاڑی میں بیٹھ کر نکل پڑا۔ آج بھی وہ اسمارٹ سانوجوان اور اس کافلسفہ زندگی میری سوچ پہ چھایا ہوا ہے اورمیں مسلسل یہ سوچ رہاہوں کہ اگر میرے ملک کا سارا نوجوان طبقہ اس سوچ کو اپنالے اور ڈگریوںکے ساتھ ساتھ بوڑھے والدین اورجوان بہن بھائیوں کی خواہشات اور ارمانوں کا بوجھ اپنے ناتواں اور ناتجربہ کار کندھوں پہ اٹھائے نوکری کی تلاش میں دفتروں کے جنگل میں دربدربھٹکنے کی بجائے اگرچھوٹا موٹا ہی سہی اپناکام کرنے کو ترجیح دینے لگیں تو وہ وقت دور نہیںجب میرے ملک ِ پاکستان سے بیروزگاری کی شرح بڑی حد تک کم ہوجائے گی اور ملکی معیشت کو بھی سہارا مل جائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ ارباب ِ ذی شعور و ذی اختیار بھی اگر نوجوان نسل کے لیے کوئی ایسا منصوبہ ،کوئی ایسی پالیسی اورکوئی ایسی رہنما ترکیب اختیار کریںکہ جس سے انفرادی سطح پر چھوٹے کاروبار کرنے کی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ انھیں آسان شرائط اور بغیر سود کے قرضے دیے جائیں۔کوئی ایسی وزارت ہو جو نوجوان نسل کے ٹیلنٹ کو استعمال میں لائے اور قوم کے ان معماروںکو مستقبل کے خوف اور مایوسی سے نجات دلائے۔ اس کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر میں بڑے بڑے کاروباری حضرات ذاتی طور پر بھی یہ طریقہ کار اختیارکرسکتے ہیںکہ چھوٹے چھوٹے کاروبارمثلاً بیکری، فروٹ شاپ، چکن شاپ، ریسٹورینٹ، لکڑی کے اسٹال، گارمنٹس کاکام، ریڈ ی میڈ کپڑے کاکام، ہینڈی کرافٹ، چھوٹے گھریلو جوتے بنانے کے صنعتی یونٹ وغیرہ میں نوجوان نسل کی رہنمائی اور مدد کریں۔ یقین مانیں معاشی ترقی ہم سے زیادہ دورنہیںبس آپ کی تھوڑی سی دلچسپی اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

حصہ