ہاتھ پھر بھی کچھ نہیں آیا

155

آسیہ عبدالحمید

مسافر تھک گیا!
کڑی اتنی ہے سزا
راہ سے میں مڑ گیا
دیکھا ہی نہیں کہ انجام ہے کیا بھلا
بس سر پر پاؤں رکھے بھاگ گیا
اسے پا کر بھی کیا کرتا
میں نے اسے پا کر بھی دیکھا
ہاتھ پھر بھی کچھ نہیں آیا
شمع کے گرد لپکتا ہوا پروانہ
بے پرواہے اب کل زمانہ
بس اتنی ہی تگ و دو
بس اتنا سا فسانہ
اب کچھ بھی نہیں پاس میرے
بے کار تمناؤں کا اجڑا ہوا گھر
فقیر کی نیم مردہ آواز میں بکھرا ہوا ڈر
پھیلے ہوئے آنگن میں پتے در بدر
چڑیوں کی چہچہاہٹ سے خالی شجر!
بس اندر باہر پھیلا ہوا کرب مسلسل
اک شوریدہ سر درد پاگل

حصہ