بسم اللہ کی برکت

863

ثنا نوشین
مدیحہ کلاس پنجم میں پڑھتی تھی،رادھا اس کی ہم جماعت تھی۔ رادھا ایک ہندو بچی تھی اس کی ماں کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ اس کے والد کی کپڑے کی دوکان تھی۔ رادھا تمام دن گھر میں اکیلی رہتی تھی مگر جب سے مدیحہ سے دوستی ہوئی تھی وہ اپنے ابو جی کے جانے کے بعد مدیحہ کے گھر آ جاتی تھی۔ اپنے والد سے چھپ کے کیونکہ اس کے والدکو رادھا کا مسلمانوں کے گھر آنا جانا زیادہ پسند نہ تھا۔ رادھا بہت ذہین بچی تھی آج بھی رادھا مدیحہ کے ساتھ بیٹھی تھی ،مدیحہ جیسے ہی گوندھنے کے لیے آٹا نکالنے لگی، رادھا ہنس کر بولی مدیحہ بسم اللہ پڑھ کر آٹا نکالو۔ تب ہی مدیحہ کی والدہ کی بھی آواز آئی۔ مدیحہ بسم اللہ پڑھ کر آٹا نکالواور دونوں زور زور سے ہنسنے لگیں۔اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مدیحہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتی اور رادھا اسے یاد دلاتی۔
ایک روز رادھا نے مدیحہ کی امی سے پوچھا ،’’آنٹی آپ مسلمان لوگ بار بار ہر کام سے پہلے بسم اللہ کیوں پڑھتے ہیں‘‘؟ مدیحہ کی والدہ نے رادھا اور مدیحہ کو بتایا، ’’بیٹا بسم اللہ کا مطلب ہے ،شروع اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا ہے۔ ہم ہر کام سے پہلے جب بسم اللہ پڑھتے ہیں۔ تو اس کام میں رب کے نام کا واسطہ ہوتا ہے رب یعنی دو جہان کا مالک خوش ہوتا ہے بسم اللہ پڑھنے سے اور ہر کام میں برکت داخل ہوجاتی ہے اور اس طرح ہمارے بگڑے کام بھی سدھر جاتے ہیں۔
یہ بات رادھا کے دل کو لگی اور اس نے ہندو ہونے کے باوجود بسم اللہ کا ورد شروع کر دیا اب وہ ہر کام سے پہلے بسم اللہ پڑھتی۔ اب آہستہ آہستہ رادھا کی یہ عادت بن گئی۔ وہ کھانا کھانے سے پہلے، کوئی بھی کام کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتی اور اللہ کا کرم کہ اس کے تمام کام اچھے ہونے لگے۔ اب تو وہ اسکول میں بھی اول آنے لگی۔ بسم اللہ پڑھ کر جب وہ ہوم ورک کرنے لگتی اس کو تھکاوٹ کا احساس تک نہ ہوتا۔ اب رادھا نے محسوس کیا بسم اللہ کے ورد سے اس کی زندگی سنور گئی ہے۔ ایک روز رادھا کا باپ کرم چند راشن لایا تو رادھا نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سامان لیا۔ کرم چند کو تو کرنٹ سالگ گیا، کرم چند نے پوچھا، ’’رادھا!یہ تم کیا کہہ رہی تھیں ابھی‘‘۔ رادھا بولی، ’’ابو جی یہ بسم اللہ ہے مجھے مدیحہ نے سکھائی ہے اور جب میں بسم اللہ پڑھتی ہوں تو مجھے اچھا لگتا ہے اور میرے ہر کام میں برکت بھی ہوتی ہے‘‘۔
کرم چند نے اس وقت رادھا کو تو کچھ نہ بولا مگر وہ پریشانی کے عالم میں اپنے ہندو پنڈت کے پاس گیا اور جا کر اسے بتایا کہ، ’’میری بیٹی مسلمانوں کے گھر جاتی ہے اور اب انھوں نے پتا نہیں کیا جادو کیا میری بچی ان کی بسم اللہ پڑھتی ہے‘‘۔پنڈت بولا، ’’آپ کی بچی پر سخت کالا جادو ہے۔ اب آپ کی بچی اپنے دھرم سے دور ہو گئی ہے، اسے مرنا ہو گا۔ اسے مرنا ہی ہو گا ورنہ سب تباہ ہو جائے گا‘‘۔یہ سن کر کرم چند جو پکا ہندو تھا اس نے اپنی بیٹی کو جان سے مار ڈالنے کا سوچا اور ہندو سنیاسی سے بہت زہریلا سانپ لیکر ایک مٹکی میں بند کروایا کے سر پر کپڑا باندھ کر گھر لے آیا اور آواز دی، رادھا!۔ کرم چند نے خود پر قابو پا کر کہا ،’’پتر تیرے لیے بہت اچھا تحفہ لایا ہوں۔ جو ساتھ والے کمرے میں مٹکی میں پڑا ہے۔ بس پتر جا کپڑا تھوڑا سا کھول کر ہاتھ مٹکی میں ڈالنا، تجھے بہت پسند آئے گا‘‘۔
رادھا ابو جی کی بات پر اعتبار کر کے ساتھ کمرے میں گئی، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر مٹکی میں ہاتھ ڈالا اور چیخ ماری، چیخ سن کر کرم چند کی آنکھ سے ایک آنسو گرا مگر پھر ہندو پنڈت کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ آپ کی بچی پر کالا جادو ہے۔ اسے مرنا ہو گا۔کرم چند کو لگا جیسے سب ختم ہو گیا۔مگر یکدم تیزی سے کوئی آکر کرم چند کے سینے سے لپٹ گیا، کرم چند نے گھبرا کر دیکھا تو رادھا خوشی سے کرم چند کو چوم رہی تھی اور اس کے ہاتھ میں ایک بیش قیمت ہار تھا۔
کرم چند نے یکدم رادھا کو پیچھے دھکیلا اور اس کے ہاتھ سے ہار لے کر پوچھا، ’’یہ یہ، کہاں سے لیا‘‘۔ رادھا بولی، ابو جی ابھی تو آپ لائے تھے گھڑے سے نکالا ہے‘‘۔
یہ سن کر کرم چند چیخا مگر اس گھڑے میں میں نے خود سانپ ڈالا تھا،ہار نہیں‘‘۔ رادھا بولی، ’’مگر میں نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر ہاتھ ڈالا تھا اور میرے ہاتھ میں یہ قیمتی ہار آیا اور میرے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔جب اللہ پاک کا نام آ جائے واقعی انگارے بھی پھول بن جاتے ہیں۔ یہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی برکت ہی تو تھی کہ سانپ ہار بن گیا‘‘۔کرم چند بھی بسم اللہ کی برکت کا معترف ہوگیا۔ اس نے فوراً سجدے میں سر رکھا اور مدیحہ کے والد کے ساتھ جا کر اسلام قبول کیا۔
پیارے بچو! آپ بھی ہر کام سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر اس کی برکت دیکھیے۔

حصہ