ترقی

269

مریم شہزاد
”اے ہائے، کیا ہوگیا ہے آج کل کے نوجوانوں کو، نہ بڑوں کا ادب نہ کسی کا لحاظ ”دادی نے پان کی گلوری منہ میں دبائی اور کہا۔
”ارے میں کہتی ہوں وحید، یہ بال تو ماتھے سے ہٹاؤ”
”دادی” وحید بہت ہی ڈرامائی انداز سے بولااور بالوں کو جھٹکے سے پیچھے کر کے کہا۔
”دادی، میں صرف نام کا ہی وحید نہیں، بلکہ وحید مراد بن کر دکھاؤں گا۔”
”سیدھا ہوتا ہے، یا اٹھاؤ جوتی” دادی نے جوتی کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا تو وحید نے باہر دور لگادی۔۔۔
زمانہ آگے بڑھتا ہے۔
”کیا ہوگیا ہے، جس کو دیکھو ٹی وی کے آگے بیٹھا ہے سب چپ ہیں بس یہ ٹی وی ہی بولتا رہتا ہے”۔
اور آگے بڑھتے ہیں جہاں چینلز کی بھرمار ہے ایک ریموٹ پر سب جھگڑ رہے ہیں ۔
اور اب ”ارے میں پوچھتی ہوں کہ جب موبائل نہیں تھا تو تب کیا کرتے تھے ،آج کل توجس کے ہاتھ میں دیکھو موبائل، بچے بچے کے پاس موبائل”۔۔۔
آج کل کا زمانہ بُرا ہو جاتا ہے ترقی اور مزید ترقی، آگے بڑھنے کی لگن، جستجو، نے بہت کچھ پیچھے چھوڑ دیا ہے مگر ترقی تعمیری ہو تو بہت اچھی ہے لیکن اگر یہ ترقی، تنزلی کی طرف لے جائے تو پھر تباہی ہے۔
جیسے آج کل ہمارے چاروں طرف بے بنیاد مسائل، بلا جھجھک تبصرے، اپنی مرضی کی حدیثیں، اپنی مرضی کے قرآنی حل، یہ ٹھیک، وہ غلط، یہ درست، وہ غلط، کیا غلط کیا صحیح ان میں سب کو پھنسا دیا گیا ہے۔ ہر کسی کے ہاتھ میں ایک دنیا ہے جس سے سیکنڈوں میں اپنے مسائل کا حل نکال لیا جاتا ہے، کسی کو کسی رہبر کی ضرورت نہیں ہے۔ سب اپنے آپ میں مگن ہیں، ضرورت کی چیز کو ضرورت کے وقت استعمال کرنے کے بجائے اس کو ضرورت بنالیا گیا ہے بچے تو اس کے دیوانے ہیں ہی، ماں باپ بھی اس میں گم ہیں پھر کہا جاتا ہے کہ بچے بگڑ گئے ہیں ۔
کیا واقعی بچے بگڑ گئے ہیں؟
لیکن پہلے بھی ہر زمانے میں بچے بگڑ جاتے تھے لیکن اس وقت ان کو راہ راست پر لانے کے لیے بزرگوں کا سہارا لیا جاتا تھا دادا، دادی، نانا نانی، ورنہ چاچا ماموں کوئی نہ کوئی بچے کو سنبھال لیا کرتا تھا مگر آج کل تو کوئی کسی کے معاملے میں نہ بول سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو بھی بچے کو کچھ کہنے کی اجازت دی جاتی ہے اپنی ذمہ داری کو نہ خود سمجھنے کے لیے ٹائم ہے۔
بچے ہمارے پاس امانت ہوتے ہیں اور ہم کو ان کی بہترین تربیت کا ٹاسک قدرت کی طرف سے دیا جاتا ہے مگر افسوس کہ ہم اب اس قابل نہیں رہے لیکن اس بات کو قبول بھی نہیں کر رہے اور صرف یہ ہی رونا رو رہے ہیں کہ کیا کریں بچے مانتے ہی نہیں زمانہ ہی اتنا تیز چل رہا ہے، اب بچے ہم سے زیادہ جانتے ہیں، اور یہ ہی ہماری بھول ہے۔
بچے بے شک ہم سے زیادہ جان رہے ہیں مگر صحیح اور غلط کی پہچان ابھی بھی ہم کو ہی دینی ہے ورنہ ایسی ترقی پوری قوم کو لے ڈوبے گی۔

حصہ