بانو کی گڑیا

555

کاشف شمیم صدیقی
’’ ٹین ڈبے والا۔۔۔ بھُوسی ٹکڑے والا ۔۔ لے آئو ، جلدی، جلدی ۔۔ آگیا ٹین ڈبے والا ۔۔‘‘
برکت آفندی کی، گلی محلوں میں لگتی آوازیں ، کچھ سوتے ، کچھ جاگتے لوگوں میں نہ جانے کوئی سُن بھی رہا تھا یا نہیں، لیکن وہ اپنا کام پوری دیا نتداری ، ا یمانداری او ر لگن سے کر رہا تھا،، تپتی ، جلتی دوپہر میں اسکے جسم سے نکل کر زمین میں جذب ہونے والا پسینے کا ایک ، ایک قطرہ اسکی محنت او ر حصول ِ رزقِ حلال کی کوششوں کی گواہی دے رہا تھا، پہلے وہ اپنا یہ کام چھ، سات گھنٹے ہی کیا کر تا تھا لیکن اب اس میں تیزی آگئی تھی، چودہ، پندرہ گھنٹوں کی مسلسل مشقت اسے بری طرح تھکا دیتی تھی، لیکن اسکے جذبے او ر حوصلے اسے مسلسل جِلا بخش رہے تھے ، گھر بھی تو لینا تھا ۔۔ ’’اپنا گھر‘‘ ۔ ۔ کرائے کے مکان میں رہتے، رہتے آدھی زندگی تو بیت گئی تھی، باقی کی بھی جیسے ، تیسے گزر ہی جاتی ، لیکن بات تھی،، جان سے پیاری ، آنکھوں کی ٹھنڈک ، برکت اور بانو کی اکلوتی بیٹی ’’گڑیا ‘‘ کی۔۔۔ جسکی خواہش کو پورا کرنا ’مقصد‘ تھا !!
خواہش تھی،، اپنے آشیانے کی، جس میں کچی زمین کا چھوٹا سا کوئی ٹکڑا ہو ، جہاں وہ کچھ پودے، کچھ رنگ برنگے ، خوشبوئوں سے مہکتے ’’پھول‘‘ لگا سکے ،، انگنت رت جگوں میں مانگی دعائیں، کتنی ہی منتوں او ر مرادوں کے بعد رب تعالیٰ نے خالی جھولی بھری تھی، اور گڑیا رحمت بن کر اپنے ماں، باپ کی اندھیری زندگی میں جگمگا اٹھی تھی۔ گڑیا ہی تو تھی ، برکت او ر بانو کی جینے کی وجہ ، ورنہ انکی رُلتی ، سسکتی زندگی میں سانسیں لینے کا اب کوئی مقصد بچا ہی کہاں تھا، سو دونوں اپنی ننھی سی گڑیا کی آ رزو کو پورا کرنے کے لیے خود کو بھی بھُلا بیٹھے تھے!!
بانو نے ’ مہینوں ‘ کپڑے سیتے اور برکت نے ’سالوں ـ‘ ٹھیلا چلاتے ، تھوڑی سی کمی کے ساتھ اتنے پیسے تو جمع کر ہی لیے تھے کہ وہ بہت چھوٹا سا سہی، لیکن اب اپنا گھر لے سکتے تھے،، پھر دونوں کی مزید محنتوں نے و ہ کمی بھی پوری کردی ۔ ۔ ۔ زندگی کے دروازے پر خوشیوں نے دستک دی اور انہیں ایک بہت چھوٹا سا لیکن اپنا گھر ’’شادمان ــ‘‘ میں مل گیا،، اُس گھر میں ایک آنگن بھی تھا۔۔ ’کچی زمین کا مختصر سا ٹکڑا ، ’’اب تو میں یہاں بہت سارے رنگ برنگے پھول لگائوں گی‘‘ گڑیا نے دل میں سوچا تھا اور مسکراہٹ چہرے پر آگئی تھی،،
٭٭٭
’’با با ۔۔۔ مجھے سائیکل چلانی ہے۔۔ لیکن یہاں کوئی دکان ہی نہیں۔۔۔ بابا مجھے سائیکل لے کر دیں ۔۔۔ بس مجھے سا ئیکل چلانی ہے۔۔‘‘ گڑیا کا موڈ اُس دن کچھ خراب تھا کیونکہ اُس نے چلانی سائیکل تھی او رعلاقے میں کو ئی دکان نہ تھی، ’’سائیکل کی دکان نہیں تو کیا ہوا۔۔۔ بھئی یہاں ۔۔ یہاں مٹھائی کی دکان ہے۔۔ پارک ہے ۔۔ ٹافی والے انکل کی دکان ہے ، ، اور۔۔ بانو تمہیں پتا ہے۔۔۔ یہاں ایک بہت ہی اچھا ، بچوں کا اسپتال بھی ہے۔۔ ‘‘
’’بچوں کا اسپتال ــ‘‘ بانو نے دستر خوان پر کھانا لگاتے ہوئے ’دوہرایا، ــ’’ہاں ۔۔ فضلو لے کر گیا تھا مجھے وہاں۔۔ بہت بڑا ہے ، خوب صاف ستھرا ، بڑی ، بڑی سیڑھیاں ہیں ، اجُلا چمکتا فرش، کرسیاں بھی رکھی ہیں ،، لوگ آرام سے بیٹھتے ہیں ، کو ئی تکلیف نہیں ہے ، ہر سہولت مفت ہے، آمنے سامنے دو عمارتیں ہیں ۔۔۔ نئی والی کا تو جواب نہیں ، وہ نہیں ہوتے ۔۔ وہ ۔۔جنکی شکلیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔۔ چین ی۔۔۔ چی۔۔ ،، کیا بتایا تھا فضلو نے بھول گیا۔۔‘ ارے ہاں ۔۔ یاد آگیا !!۔۔ ’جاپانی‘۔۔۔ جاپانیوں نے بنائی ہے وہ عمارت ـ!!ـ‘‘ برکت نہایت انہماک سے تفصیلات بتا رہا تھا اور بانو اور گڑیا مسکراتے ہوئے اس کی باتیں سُن رہے تھے۔
’’اچھا بانو۔۔ صبح مجھے جلدی اُٹھا د ینا ،، کل دوسرے علاقے میں جائوں گا ،، یہاں کے تو سارے راستے ہی بند کیے ہوئے ہیں ،، بہت بڑا جلسہ ہونے والا ہے یہاں ،، اُسی کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ‘‘
٭٭٭
ا عصاب ’شل‘ کردینے والی مصروف زندگی سے کچھ وقت ملا ، تو ایک شام وہ ساحلِ سمندر پر آگئے،ـ ’’اولاد کا ساتھ ماں ، باپ کے لیے کتنا اطمینان بخش ہوتا ہے نہ‘‘ گیلی ریت پر چلتے ، بانو نے بات کا آغاز کیا تھا، ’’ہاں۔۔‘‘ برکت نے اثبات میں سر ہلایا تھا ’’اور بچوں کے اچھے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی کی تکلیفوں کو جھیلنے کی ہمت آہی جاتی ہے۔‘‘
ــ ’’خدا سب کو اولاد کی نعمت سے نوازے ‘ اور انکی خوشیاں دکھائے ‘‘ بانو کے الفاظ دعا بن گئے تھے ، ’’ آمین !! ‘‘ برکت نے مسکراتے ہوئے اسکی طرف دیکھا تھا۔
٭٭٭
’’ برکت۔۔ برکت۔۔ سنو برکت ‘‘ اگلی صبح وہ ٹھیلا لے کر ایک ’گلی میں داخل ہی ہوا تھا کہ عقب سے آتی آوازیں اس کے کانوں سے ٹکرائی تھیں، ’’ برکت ۔۔۔ رُک جائو ۔۔‘‘ آوازیں دینے والا پڑوسی فضل دین تھا جو اب قریب پہنچ چکا تھا ، ــ’’ کیا ہوا فضلو ۔۔۔ خیریت تو ہے؟؟‘‘
’’برکت ۔۔ وہ۔۔۔ وہ گڑیا ۔۔۔‘‘
’’کیا۔۔۔ کیا ہوا گڑیا کو؟؟۔۔۔‘‘ اسکے چہرے کے تاثرات یکدم بدل گئے تھے!!
ـ ’’گڑیا کی سانسیں۔۔۔ سانس رُک رہی ہیں اسکی ۔۔۔ چلو ، جلدی چلو۔‘‘
خبر آسمانی بجلی بن کر گری تھی ۔۔۔ برکت دیوانہ وار گھر کی جانب بھاگا تھا۔۔
٭٭٭
جینا ہو گا ۔۔ مرنا ہو گا،
دھرنا ہوگا ۔۔ دھرنا ہو گا!!
ہماری تنخواہیں بحال کرو!!
ساڈا حق ، ایتھے رکھ !
جینا ہوگا ، مرنا ہوگا !!
شہر میں بچوں کے دوسرے بڑے ، مشہو ر اور معروف اسپتال سے بلند ہوتی یہ آوازیں ‘ دور دور تک سنائی دے رہی تھیں ۔۔ انہی آوازوں کے شور میں بانو ، برکت ، فضلو اور محلے کے کچھ اور لوگ ’گڑیا‘ کو لے کر اسپتال میں داخل ہو ہی رہے تھے کہ گیٹ پر کھڑے سکیورٹی گارڈ نے انہیں روک لیا!
’’ کیا بات ہے بھئی ۔۔۔ کہاں جارہے ہیں آپ لوگ ؟؟‘‘
’’بھائی ۔۔۔ میں۔۔مم۔۔میری گڑیا سانسیں نہیں لے رہی۔۔ ہم۔۔ ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا ہے ‘‘ بانو کی آنکھوں میں آنسو اور زبان لڑکھڑا رہی تھی، ــ’’لیکن اسپتال تو آج بند ہے۔۔۔ یہ ہجوم دیکھ رہے ہیں آپ لوگ ‘‘ گارڈ نے انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا تھا۔۔ ’’ احتجاج ہو رہا ہے یہاں ‘‘
’’ ہمیں ۔۔ ہمیں اندر جانے دیں ۔۔۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی‘‘ فضلو نے التجا کی ، ’’ جائو بھئی ۔۔۔ خود جا کر دیکھ لو ۔۔ میں کون ہوتا ہوں تمہیں روکنے والا ‘‘ سکیورٹی گارڈ نیراستہ دے دیا تھا، نعروں کی گونج میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ، اسپتال کے اندرنی دروازوں پر تالے لگے تھے ، لوگ باہر ہی جمع تھے،، کچھ بیٹھے ، کچھ کھڑے لوگوں میں نظر ایک ڈاکٹر پر رُکی تو وہ لوگ گڑیا کوگود میں اٹھائے پاس لے آئے ، ڈاکٹر صاحب ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب میری ۔۔۔ میری گڑیا کو دیکھیں کیا ہوا ہے۔۔ یہ سانس نہیں لے رہی ہے۔‘‘
’’ آں۔۔ I am sorry ۔۔۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔۔۔ مجبوری ہے۔۔ ابھی تو سب بند ہے ، آپ اسے دوسرے اسپتال لے جائیں۔‘‘
’’ ڈاکٹر صاحب ۔۔ خدا کے لیے ۔۔۔ خدا کے لیے میری بچی کو بچا لیں ۔۔ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔ پائوں پڑتی ہوں آپ کے ۔۔۔‘‘ بانو کی نظروں کے سامنے بیٹی کا چہرہ تھا!!
’’ارے یہ ۔۔۔ یہ آپ کیا کر رہی ہیں ۔۔۔ پلیز ۔۔ پلیز ایسا نہ کریں ‘‘ ڈاکٹر کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ
اب ان لوگوں کو کیا کہے،
ــ ’’ کیا بچے صرف تم ہی لوگوں کے ہیں ۔۔۔ ہمارے بچوں کا کیا؟؟ جو گھروں پر بھوکے مر رہے ہیں ،،
انہیں کون دیکھے گا ۔۔ ‘ چار مہینے سے تنخواہیں نہیں ملی ۔۔ کیسے کریں پورا؟ کیسے چلائیں ہم اپنے گھر؟؟ ‘‘
یہ ایک ’احتجاجی‘ تھا جو نعرے لگاتا ہوا انکے پاس آگیا تھا ،’’ دیکھیے پلیز دیر نہ کریں ۔۔ آپ اپنی بچی کو فوری طور پر دوسرے ا سپتال لے جائیں ۔۔ اللہ نے چاہا تو ۔۔
تو یہ ٹھیک ہو جائے گی ‘‘ یہ ایک خاتون ڈاکٹر یا پھر شاید ایک ’ماں‘ کی آواز تھی جس نے دو سر ی ماں کا در د محسوس کر لیا تھا !!
’’چلو برکت ۔۔ جلدی چلو ۔۔۔ ہم دوسرے اسپتال چلتے ہیں‘‘ فضل دین سمیت وہ سب لوگ اسپتال سے باہر آگئے تھے،
پھر کٹھن راستوں پر ،،
ڈوبتے سورج کی مدھم شعائوں میں ،،
آزمائشوں کے سفر پر نکلی زندگی نے۔۔ ساتھ چھوڑ دیا تھا!! بانو کی گود میں لیٹی،، ہاں اُسی گود میں ،، ’جس میں جُھولا ، جھولا تھا‘ ’جہاں لوری سُنی تھی‘‘ ۔۔۔ گڑیا نے راستے میں ہی دم تو ڑ دیا !!
٭٭٭
گھر میں صفِ ماتم بچھا تھا ،
آہ و بکا کا شور مچا تھا،،
آنے ، جانے والوں کا تانتا سا بندھا تھا ، ،
ہر دل غمزدہ ، بانو سکتے کی سی کیفیت میں نیم بے ہوش تھی تو برکت گھر کے ایک کونے میں گم سم بیٹھا ، خالی نظروں سے آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا،
ایسے میں فضلو اسکے پاس آیا تھا۔۔۔ ’’ برکت۔۔ برکت میرے بھائی ‘‘ اس نے برکت کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
ــ ’’ یہاں کہیں جگہ نہیں مل رہی۔۔۔ ایک دور کے قبرستان میں بات تو ہوئی ہے لیکن وہ ۔۔ وہ بہت زیادہ پیسے مانگ رہے ہیں ‘‘
’’ برکت ہمیں ۔۔۔ ہمیں گڑیا کو۔۔۔ گڑیا کو گھر کے آنگن میں ہی دفنانا ہوگا‘‘
دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر ز ور سے بھینچ لیا ہو ،زخم جسم نہیں ، روح پر لگا تھا!!
برکت دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رورہا تھا، پھر آنگن کی اُسی کچی زمین پر ،، جہاں رنگ برنگے پھو لوں نے کھِلنا تھا ،، جہاں خوشبوئو ں نے فضائوں میں بکھرنا تھا ، ننھی گڑیا کے معصوم وجود کو آہوں اور سسکیوں میں دفنا دیا گیا، ہاں، کچھ پھول قبر پر ڈالے تو گئے، لیکن اُن انجان پھولوں کی خوشبو،، کسی نے محسوس نہیں کی !!
٭٭٭
’’ ہم آپ کی تقدیر بدلنے نکلے ہیں ، ہم ا سکول اور یونیورسٹیاں بنا رہے ہیں ، قرضے دے رہے ہیں ، اسپتال بنا رہے ہیں ‘‘اب بچے صحت مند زندگی گزاریں گے ، علاج معالجے کی سہولتیں اب آپ کو گھر بیٹھے دستیاب ہوں گی ، آپکا ووٹ ،، بدل دے گا ۔ ۔ آپکی قسمت !! ‘‘
’’جلسے ‘‘ کی آوازیں گڑیا کی قبر پر فاتحہ پڑھتے لوگوں کی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھیں !!

حصہ