مینڈک کا دکھ

272

مدیحہ صدیقی

پُھدک رہا تھا کوئی مینڈک اداس، پانی میں
نہ تھا کوئی غمخوار پاس پانی میں
وہ کہتا تھا کہ صورت مجھے نہ خوب ملی
ہے گفتگو کا سلیقہ نہ ہے آواز بھلی
ہیں لمبی لمبی سی ٹانگیں اور چھوٹے چھوٹے ہاتھ
نہ چل سکوں یوں متانت سے میں کسی کے ساتھ
یہ انگلیاں ہیں عجب اور ایک زبان دراز
اگرچہ سینے میں دل ہے مرا بڑا ہی گداز
یہ کہ رہا تھا وہ مینڈک اداس بیٹھا ہوا
قریب ہی سے گذر ایک کچھوے کا ہوا
سْنی جو مینڈک کی باتیں تو افسردہ ہوا
کہا زبان کا حق ہے کہ کر شْکر تو ادا
خْدا نے تجھ کو بنایا ہے کس قدر اچھا
پھر اس پر شکوہ شکایت نہیں یہ کچھ اچھا
ذرا سی دیر میں جاتے ہو تم جہاں چاہو
کبھی زمیں کبھی پانی میں جب بھی تم چاہو
بڑی بڑی سی یہ آنکھیں ہری ہری رنگت
گزاریں وقت اے کاش کچھ تری سنگت
بڑے مزے سے بیٹھے شکار کرتے ہو
زباں نہیں منہ میں تم جال رکھتے ہو
نعمتوں کا شکر کاش ہم کریں مل کر
جو مل گیا اُسے جانیں نہ ہم کبھی کمتر

حصہ