دو صحیح راستوں میں سے ایک کا انتخاب

552

سید مہرالدین افضل
سورَۃ الاَنفَال کے مَضامین کا خلاصہ
تاریخی پس منظر/ بارہواں حصہ
( تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃ الاَنفَال حاشیہ نمبر 4 ، 5 ،6 ،7)
غزوہ بدر کے بعد سورۃ انفال کی صورت میں اس پر تبصرے کا قرآن مجید میں محفوظ ہو نا، صرف اہلِ ایمان کے لہو کو گرمانے کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے مجاہدین کے لیے ہدایت و رہنمائی ہے۔ غزوۂ بدر کا یہ مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ منزل کی جانب جانے والے دو صحیح راستوں میں سے کوئی ایک راستہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہو سکتا ہے اور ان میں سے کوئی ایک، منزل کی جانب پیش قدمی کے لیے زیادہ مفید ہو سکتا ہے… مثلاً قافلے یا لشکر میں سے ایک کا انتخاب، دونوں درست تھے ! لیکن اللہ چاہتا تھا کہ لشکر کا انتخاب کیا جائے۔ آیت نمبر 5 تا 8 میں ارشاد ہوا اِس مالِ غنیمت کے معاملے میں بھی ویسی ہی صورت پیش آرہی ہے جیسی اُس وقت پیش آئی تھی جب کہ تیرا رب تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکال لایا تھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ سخت ناگوار تھا۔ وہ اس حق کے معاملہ میں تجھ سے جھگڑ رہے تھے دراں حالے کہ وہ صاف صاف نمایاں ہو چکا تھا۔ ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جارہے ہیں… یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مل جائے گا۔ تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تاکہ حق‘ حق ہو کر رہے اور باطل‘ باطل ہو کر رہ جائے‘ خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ غزوۂ بدر کے موقع پر یہ سوال کھڑا ہو گیا تھا کہ اسلام اور جاہلیت میں سے کس کو زندہ رہنا ہے؟ اگر مسلمان اس وقت مردانہ وار مقابلہ کے لیے نہ نکلتے تو اسلام کے لیے زندگی کا کوئی موقع باقی نہ رہتا۔ جب کہ مسلمانوں کے نکلنے اور پہلے ہی بھر پور وار میں جاہلیت کی طاقت پر کاری وار کرنے سے وہ حالات پیدا ہوئے، جن کی بہ دولت اسلام کو قدم جمانے کا موقع مل گیا… اور پھر اس کے مقابلے میں نظامِ جا ہلیت ایک کے بعد ایک میدان میں مسلسل شکست کھاتا ہی چلا گیا۔
اُس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے تو اللہ کی مرضی معلوم ہو گئی… لیکن آج اور قیامت تک اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے والوں کے سامنے جب بھی دو راستے آئیں گے‘ اُنہیں ایک کا انتخاب کرنا ہوگا اور ہمیشہ دو سوال اہلِ مشورہ کے سامنے ہونے چاہییں ایک یہ کہ کون سا راستہ اللہ کو زیادہ محبوب ہو سکتا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ کون سا راستہ حصولِ مقصد کے لیے زیادہ مفید ہے؟ پھر جب فیصلہ ہو جائے تو پوری جماعت کو یک سوئی کے ساتھ پیش قدمی کرنی چاہیے۔ ہم جس طرز فکر و عمل کی بات کر رہے ہیں یہی اللہ تعالی ٰ نے سکھائی ہے۔ آپ آیات 5 تا 8 کو پڑھیں یہاں اس موقع کو یاد دلایا جا رہا ہے‘ جب فیصلہ ہو رہا تھا کہ قافلے یا لشکر میں سے کس کا سامنا کیا جائے… اب چوں کہ نتیجہ بھی آگیا ہے، جو کہ سب کے لیے پسندیدہ بھی ہے‘ تو اسی موقع کو یاد دلا کر یہ بات ذہن میں بٹھائی جا رہی ہے کہ ایک چیز‘ جو ظاہری طور پر آپ کو اچھی لگے‘ ضروری نہیں کہ نتیجے کے اعتبار سے بھی اچھی ہو۔ اسی طرح ایک چیز جو بہ ظاہر بری لگے لیکن نتیجے کے اعتبار سے ضروری نہیں کہ بری ہو۔ اب اسی مالِ غنیمت کی تقسیم کے مسئلے کو دیکھ لو… تمہیں یہ بات ناگوار ہو رہی ہے کہ مالِ غنیمت کی تقسیم زمانے میں جاری طریقے کے مطابق کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ لیکن اگر تم اِس وقت بھی اللہ اور رسولؐ کے فیصلے کو قبول کر لو تو یہ نتیجے کے اعتبار سے اسی طرح بہتر ہو گا جیسا کہ پہلے فیصلے کے بعد ہوا تھا اور واقعہ یہ ہے کہ اسلام نے جنگ اور مالِ غنیمت کے بارے میں انسانوں کا نقطۂ نظر اور طرز عمل بالکل ہی بدل دیا۔ اب جنگ صرف اللہ کے لیے ہو گی… اور یہ مال غنیمت کے حصول اور ہوس ملک گیری کی تسکین کے لیے نہیں ہو گی۔

سعادت کی زندگی شہادت کی موت :

علامہ اقبال مرحوم کے الفاط میں (شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن‘ نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی)یہاں ’’شہادت‘‘ کا لفظ شہادت کی موت کے لیے استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ یہ اس مشن کی نشاندہی کر رہا ہے جس کے لیے تمام انبیاؑ آئے اور آخر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم آئے اور اب اُمتِ مسلمہ اس مشن کی ذمے دار ہے اور وہ یہ ہے کہ جس طر ح اللہ تعالیٰ کی تما م مخلوقات اپنے طرز عمل سے یہ شہادت دے رہی ہیں کہ اُن کا خالق زبردست قوت، طاقت اور قدرت والا ہے اور وہ سب اس کی فرماں بردار ہیں… اسی طرح زمین پر بسنے والے انسان بھی اپنی مرضی سے ایسا طرز عمل اختیار کریں جو اس بات کی شہادت دے کہ انسان اپنے خالق، مالک اور آقا کے فرماں بردار ہیں۔ انسان اپنی غفلت کی وجہ سے، اپنے رب کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا مالک بنا بیٹھا ہے اور غیر کے آگے جھک گیا ہے۔ اب زمین پر ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش کرنا مطلوب ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنے خالق کی غلامی میں واپس آجائیں۔ اس کے لیے اُمت کے ہر فرد کو اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ صرف اپنے رب کے فرماں بردار ہے ہیں… اور تمام انسانوں کو رب کی فرماں برداری کی طرف بلا رہے ہیں۔ اس جد وجہد میں زندگی گزر جائے تو وہ سعادت کی زندگی ہو گی اور اس راہ میں موت آئے تو وہ شہادت کی موت ہوگی۔

حُسنِ نیت اور حُسنِ عمل :

زمین پر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے حسنِ نیت اور حسنِ عمل دونوں ضروری ہیں۔ حسن ِ نیت یہ ہے کہ آدمی کا ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے ہو، اس کے علاوہ کسی سے امید نہ ہو ، کسی پر بھروسہ نہ ہو اور اس کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہو۔ اور حسنِ عمل یہ ہے کہ حالات و واقعات کا درست اندازہ، اسباب و وسائل کی ممکنہ حد تک فراہمی اور مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے منزل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ آپ اُس دُعا کو دیکھیں‘ جو بدر کی رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور جس کی طرف آیت نمبر 9 اور 10 میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوا ’’اور وہ موقع جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ جواب میں اُس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوش خبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقینا اللہ زبر دست اور دانا ہے۔‘‘ شہادت کی موت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو کتنی محبوب تھی۔ بدر کا موقع اس کے لیے بہترین تھا کہ آپؐ اپنے لیے اور اپنے تمام ساتھیوں کے لیے شہادت کی موت طلب کرتے… لیکن آپؐ نے زندگی اور فتح طلب کی… کیوں؟ اس لیے کہ اصل مقصد اس مشن کی تکمیل ہے جس کے لیے آپؐ بھیجے گئے… اور وہ منزل ہے جس کی طرف پیش قدمی مطلوب تھی۔ رہی موت تو وہ تو یقینی ہے، اپنے وقت پر آئے گی، بندۂ مومن کی دُعا یہی ہو گی کہ وہ شہادت کی موت ہو، لیکن اس کے شوق میں صفوں کو نہیں توڑا جائے گا… ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘آمین ۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

حصہ