۔2018ءمسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے بدقسمت سال!

378

محمد انور
۔2018ء کے آخری سات دن ملک کے نامور سیاست دانوں میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے لیے خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔ 24 دسمبر کو نوازشریف عدالت کے حکم پر گرفتار ہوکر جیل جاچکے ہیں، جبکہ 31 دسمبر کو آصف علی زرداری اور ان کے ساتھی کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو 2018ء پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے لیے منحوس قرار پا جائے گا۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ سال مجموعی طور پر تحریک انصاف کے سوا تمام ہی جماعتوں کے لیے ناخوشگوار رہا۔ کیونکہ بیشتر جماعتوں کے مرکزی رہنما اس سال 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں ناکام ہوکر منتخب ایوانوں سے باہر ہوگئے۔
تحریک انصاف کی خوش قسمتی اور دیگر جماعتوں کی بدقسمتی کے ذکر سے قبل کراچی میں امن و امان کی اچانک بگڑتی ہوئی صورت حال کا ذکر ناگزیر ہے۔
رینجرز اور سیکورٹی کے اہم اداروں کی جدوجہد سے کراچی بلاشبہ پُرامن ہوچکا تھا۔ گزشتہ تین سال میں اس کے گزرے ہوئے 30 سالہ شورش زدہ حالات یکسر بدل چکے تھے۔ مگر اچانک ایسا کیا ہوا کہ پہلے 23 دسمبر کو رضویہ تھانے کی حدود عثمانیہ سوسائٹی میں پاک سرزمین پارٹی کے دفتر پر حملہ کیا گیا، جہاں نامعلوم دہشت گردوں کی فائرنگ سے دو کارکن اظہر عرف سیاں، اور محمد نعیم جاں بحق اور دو زخمی ہوگئے۔ بعدازاں 26 دسمبر کو ڈیفنس سوسائٹی خیابانِ غازی میں ایم کیو ایم کے سابق رہنما و سابق ایم این اے علی رضا عابدی کو اُن کے بنگلے کے گیٹ پر ایک موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد نے گولیاں مارکر قتل کردیا۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ کراچی میں پھر گولیاں چلنے لگیں؟ 23 دسمبر کو ہی ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے لندن میں ایک خطاب کیا اور کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ’’جن جن لوگوں نے میرے کارکنوں پر ظلم کیا اُن کو اسی طرح انتقام کا نشانہ بنایا جائے، ان کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر درختوں پر لٹکایا جائے، یہ میری نصیحت ہے‘‘۔ اس تقریر کے چند گھنٹے بعد ہی عثمانیہ سوسائٹی کا واقعہ رونما ہوا۔
الطاف حسین کے اس انتقامی اور اپنے پرانے ساتھیوں فاروق ستار، خواجہ اظہارالحسن، فیصل سبزواری، مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے خلاف اس زہریلے خطاب کو سن کر یقینا متعدد افراد کی زبان سے یہ محاورہ نکلا ہوگا’’ رسّی جل گئی، بل نہیں گیا‘‘۔
بہرحال ان دونوں واقعات کے بعد شہر کی فضا میں دوبارہ خوف چھا گیا۔
الطاف کے اس خطاب سے قبل کیا ہوا تھا اور کیا ہونے جارہا تھا، اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ 22 دسمبر کو سوشل میڈیا پر کراچی کی ایک ویڈیو وائرل ہوتی ہے، اس ویڈیو میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور کو کراچی کی ایک سڑک پر عام لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ رات میں بنائی گئی یہ ویڈیو اس بات کا اظہار کررہی تھی کہ کراچی میں اب دن ہی کیا، رات میں بھی رونقیں ہیں۔ لوگ بلا خوف و خطر اب نائٹ کرکٹ بھی کھیلنے لگے ہیں۔
جس شہر میں خوف و ہراس عام تھا اور لوگوں کے چہروں پر ہمیشہ ہی خوف رہتا تھا، وہاں اس قدر خوشگوار ماحول دیکھ کر یقینا دشمن قوتوں کو برداشت نہیں ہوسکا ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دشمن ملک نے اپنے لے پالک کی… ایک ایسے وقت میں جب وہ پائی پائی کا محتاج ہوکر بھیک مانگنے پر مجبور ہوگیا تھا… معاوضے پر کراچی کے ماحول کو خراب کرنے کے لیے خدمات حاصل کی ہوں گی۔ یہ بات تو اب سبھی جان چکے ہیں کہ کون لندن میں بیٹھ کر کراچی میں قتل و غارت کراتا رہا۔ جو کہا کرتا تھا کہ ’’میں جھکنے والا نہیں ، میں ڈرنے والا نہیں‘‘، مگر سبھی نے سنا کہ وہ اپنی سیکورٹی کے لیے پیسے نہ ہونے پر چیخ چیخ کر چندہ مانگ رہا تھا۔
کراچی میں حالات کی اچانک خرابی کے پیچھے اگرچہ صرف بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کا چہرہ واضح ہورہا ہے… کیونکہ پی ایس پی کے رہنما نے اپنے کارکنوں کو قتل و زخمی کرنے کا مقدمہ الطاف حسین کے خلاف درج کرایا ہے۔ لیکن کراچی کے امن کو خراب کرنے میں اُن سیاسی جماعتوں کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا جنہیں سپریم کورٹ امن خراب کرنے کا ذمے دار قرار دے چکی ہے۔
ملک کی سیاسی صورتِ حال بھی اس شبہ کا اظہار کررہی ہے کہ ماضیِ قریب میں طویل عرصے تک بڑی سیاسی جماعت کا اعزاز رکھنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز چونکہ کرپشن اور جعلی بینک اکائونٹس کے الزامات کی لپیٹ میں آکر تاریخی گرفت میں آرہی ہیں، اس لیے ان جماعتوں کو چاہنے والے بھی ملک میں افراتفری پھیلانے کی نیت سے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ پورے پاکستان کو بے چین کرنے کے لیے صرف کراچی میں گڑبڑ پیدا کردی جائے تو مقصد پورا ہوسکتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں آصف زرداری، اُن کی بہن فریال تالپور اور اُن کے غیر سیاسی دوست و ٹائیکون ریاض ملک کی۔ اطلاعات ہیں کہ سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اُس سے مختلف نوعیت کی بدعنوانی، جعل سازی اور منی لانڈرنگ کے الزامات واضح ہوچکے ہیں۔
آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی لیک ہونے والی آڈیو ریکارڈنگ کے مطابق آصف زرداری اور ریاض ملک کو ان رپورٹس کی روشنی میں 31 دسمبر کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
اگر ایسا ہوگیا تو یہ پہلا جمہوری دور ہوگا جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما جیل میں ہوں گے۔ ان کے جیل جانے سے عام لوگوں کو اطمینان ہوگا کہ ملک میں پہلی بار بااثر سیاست دانوں کا احتساب شروع ہوچکا ہے۔

احتسابی کارروائیوں پر سراج الحق کا مؤقف

جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ جب تک حزبِ اقتدار کے کرپٹ لوگوں کا احتساب نہیں ہوتا، فائدہ نہیں ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کرپٹ عناصر کی گرفتاریوں کے ساتھ بیرونِ ملک سے لوٹی ہوئی رقوم کو بھی واپس لایا جائے۔

کراچی کے امن اور ملک کی سیاسی صورتِ حال پر فواد چودھری کا مؤقف

وفاقی کابینہ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں شامل آصف علی زرداری سمیت 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کی منظوری دے دی۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے اختتام پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ قومی خزانے کے ایک ایک روپے کا حساب ہوگا، امید ہے آصف علی زرداری جے آئی ٹی کو سنجیدہ لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی کا بے نظیر بھٹو یا ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو نے غریب عوام کے لیے سیاست کی تھی۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چودھری نے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں سیاست دان علی رضا عابدی کے بہیمانہ قتل پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قتل سے ظاہر ہورہا ہے کہ کراچی میں ایک مرتبہ پھر کچھ گروہ دوبارہ سرگرم ہوئے ہیں۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ بانی ایم کیو ایم نے اشتعال انگیز تقریر کی اور اپنے لوگوں کو قتل کرنے کے احکامات دیے، لیکن یہاں افسوس اس بات کا ہے کہ حکومتِ برطانیہ نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔

حصہ