تبدیلی تو آئی ہے!۔

328

زاہد عباس
’’اب تو مان لو کہ کراچی میں واقعی نوازشریف نے ہی امن قائم کروایا تھا۔ دیکھو، میں ایک عرصے سے کہتا چلا آرہا ہوں کہ یہ نوازشریف ہی ہے جس کی وجہ سے آج کراچی میں روشنیاں لوٹ رہی ہیں، مگر تم ماننے کو تیار نہیں۔ ہمیشہ اس کا کریڈٹ انتظامیہ کو دیتے ہو۔ دیکھو، میری بات سچ ثابت بات ہوئی۔‘‘
’’اس میں بات سچ ہونے کی کون سی دلیل ہے بھائی! امن و امان کے قیام کی ذمہ داری ہمیشہ سے ہی پولیس اور انتظامیہ کی ہوتی ہے، بلکہ ساری دنیا کے ممالک میں امن وامان بحال کرنا سیکورٹی اداروں کا ہی کام ہوتا ہے، اسی لیے میں کہتا رہا ہوں کہ آج بھی میرے نزدیک شہر کراچی کے حالات کی درستی انتظامیہ اور پولیس کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، یہ بات تم مانو یا نہ مانو۔ تمہارا کام تو بس اپنے لیڈر کی تعریف کرنا ہی رہ گیا ہے، تمہارے قائد نوازشریف میں اگر اتنی صلاحیت ہوتی تو یوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ ہوتا۔‘‘
’’زمانہ جانتا ہے کہ یہ سیاسی ڈراما ہے۔ جج خود مانتے ہیں کہ میرے قائد پر کسی قسم کی بھی کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ یہ تو سیاست سے کنارہ کروانے یعنی مائنس نوازشریف کے ایجنڈے پر کام کیا جارہا ہے، یا کچھ ایسے کام پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے جن کی راہ میں نوازشریف سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘
’’رہنے دے، رہنے دے میرے بھائی… یہ کرپشن کا معاملہ ہے، قومی خزانے سے اربوں روپے کی ڈکیتی کی گئی ہے، اس کا حساب دینا پڑے گا۔ اب کسی کو سیاسی شہید بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی، لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لی جائے گی۔ ماضی میں جب بھی احتساب کی بات کی گئی، جمہوریت خطرے میں پڑ گئی۔ اب اس بلیک میلنگ میں نہیں آیا جائے گا۔ زرداری اور نوازشریف کا سیاسی کیریئر ختم ہوچکا ہے۔ بہت ہوگیا، اب تو پیسے واپس کرنا ہی پڑیں گے۔‘‘
’’یہی تو ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہمارے عوام میں سیاسی شعور نہیں… جس دن بھی عوام میں سیاسی شعور آگیا، سمجھ لینا اُس دن سے ہی جمہوریت کی گاڑی منزل کی طرف گامزن ہوجائے گی۔ 70 برسوں سے یہی کچھ ہوتا چلا آرہا ہے۔ بھائی! جو دِکھتا ہے وہ ہوتا نہیں۔ تمہیں کیا لگتا ہے یہ جو کچھ ہورہا ہے وہ مالی بدعنوانیوں یا کرپشن کا نتیجہ ہے؟ بے شک ہمارے ملک میں کرپشن ہوئی، حکمرانوں نے قومی خزانے کو بڑی بے دردی سے لوٹا۔ رشوت عام ہوئی اور اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا۔ لوگوں پر ظلم کیا گیا، اور جمہوریت کے نام پر اقربا پروری کا نظام نافذ کیا گیا، جس کی وجہ سے غریب غریب تر اور امیر مزید امیر ہوتا چلا گیا۔ جاگیردارانہ نظام مضبوط ہوا۔ پیسے کے بل بوتے پر عوام کے ووٹ خریدے گئے۔ طبقاتی تفریق پیدا کی گئی… یہ سب کچھ اپنی جگہ، لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ موجودہ حکومت کسی ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے لائی گئی ہے۔ اس ساری صورت حال میں کہیں بھی کسی کا بھی لوٹی گئی دولت اورکرپشن سے بنائی جانے والی جائدادوں کو بازیاب کرانے سے تعلق نہیں۔‘‘
’’تم بھی نئے نئے فلسفے پیش کرتے ہو یار۔ بات سیدھی سی ہے، قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کرپشن ہوئی، بدعنوانی کی گئی۔ تم نئی منطق پیش کررہے ہو۔ چھوڑو، اس بحث میں پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تم یہ بتاؤ کہ کراچی میں کس طرح نوازشریف نے امن کروایا؟‘‘
’’چلو پہلے کراچی کے امن سے متعلق بات کرلیتے ہیں، پھر ملکی سیاست پر بات کرلیں گے۔ تمہارا کہنا ہے کہ یہ امن و امان پولیس اور انتظامیہ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس سے میرے قائد کا کوئی تعلق نہیں… جب کہ شہر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کراچی میں امن و امان نوازشریف کی وجہ سے بحال ہوا۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے میرے پاس کئی شواہد موجود ہیں، مثلاً نوازشریف نے 1990ء کی دہائی میں بھی کراچی آپریشن کروایا، اسی طرح 2013ء میں اقتدار ملتے ہی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نہ صرف اختیارات دیے بلکہ اس اہم مسئلے پر ذاتی طور پر توجہ دی، جس کی وجہ سے یہاں امن قائم ہوا۔ اگر تمہاری یہ بات مان بھی لی جائے کہ امن وامان بحال کرنا انتظامیہ کا کام ہے تو گزشتہ ماہ سے کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں بتارہی ہیں کہ میرا مؤقف حقیقت پر مبنی ہے… کراچی میں بڑھتی دہشت گردی میری جانب سے کی جانے والی باتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میرا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ کام نہ تو حکومت کا، نہ ہی انتظامیہ کا ہوتا ہے… بلکہ ہمت کا ہوتا ہے، مضبوط اعصاب کا ہوتا ہے اور نیت کا ہوتا ہے۔ دیکھو ماضی میں بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی ہی حکومت تھی، اور اب بھی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ہی ہیں، جبکہ کراچی پولیس بھی وہی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی وہی… اگر کہیں تبدیلی آئی ہے تو وہ وفاق ہے جہاں وزیراعظم نوازشریف کی جگہ عمران خان موجود ہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں جب تمام محکمے اپنی جگہ موجود ہیں اور وزیراعلیٰ سندھ بھی وہی ہے، کراچی انتظامیہ بھی ویسے ہی متحرک ہے، صرف ایک آدمی کے جانے سے یہاں کے حالات پر پڑنے والا اثر صاف بتا رہا ہے کہ یہاں دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان کا بحال ہونا میرے قائد کی جانب سے کی جانے کوششوں کی بدولت ہی تھا۔ یہی وہ سچ ہے جس کو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اگر تم نہ مانو تو تمہاری عقل پر ماتم کرنے کے سوا اور کیا کیا جائے!‘‘
’’تمہاری باتیں سن کر میرا یقین اس حقیقت پر مزید پختہ ہوگیا کہ ہر شخص ہمیشہ اپنے لیڈر اور اپنی ہی جماعت کی ہی تعریف کرتا ہے سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد کا یہی مسئلہ ہے کہ انہیں کسی دوسرے کی جانب سے کی جانے والی کاوشیں نظر نہیں آتی روایتی سیاسی جماعتوں سے منسلک لوگ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں تمہاری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے اپنے قائد کی محبت میں تم اس قدراندھے ہوچکے ہو کہ تمہیں کسی دوسرے کی جانب سے کیے جانے والے تعمیری کام تک دکھائی نہیں دیتے تمہاری کیفیت ذہنی مریض کی سی ہو چکی ہے تبھی تو تم ایسی باتیں کررہے ہو۔‘‘
’’اندھی تقلید کرنا،شخصت پرستی میں مبتلا ہوجانا یا روایتی سیاست دانوں کے حصار میں پھنس کر حقیقت سے نظریں چرانا جیسے القابات میرے لیے نئے نہیں بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے سے کبوتر بلی کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا مجھ پر تمہاری جانب سے لگائے جانے والے الزامات کوئی حیثیت نہیں، ارے ہمیں کبھی ملک دشمن بتایا گیا تو کبھی گستاخ رسول کہاگیا اپنے سیاسی اور ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہمیشہ ہی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اس لیے تمہاری جانب سے دیے جانے والے القابات کی میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی ان سے میری صحت پر کوئی اثر پڑے گا،میں یہ جانتا ہوں کہ جو کچھ بھی میں کہہ رہا ہوں وہی حقیقت ہے اوروہی سچ ہے آج نہیں تو کل تم بھی میری باتوں کی تائید کروگے خدا ہمارے شہر کے حالات درست رکھے لیکن دہشت گردی کی حالیہ لہر بتا رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں ضرور کوئی نہ کوئی ایسی کمزوری یا سستی کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے شہر ایک مرتبہ پھر ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں جاتا دکھائی دے رہا ہے،کھیل جیتنے اور ٹیم کی بہترین کارکردگی میں ٹیم کی لیڈد شپ کا بڑا اہم کردار ہوا کرتا ہے اگر کپتان میں صلاحیت موجود ہوں تو ہی کامیابی ملا کرتی ہے بصورت دیگر ہار مقدر ہو تی ہے کسی بھی میدان میں لڑنے کے لیے ٹیم کے کپتان کا اعصابی طور پر مضبوط ہونا ہی کامیابی کی دلیل ہے کراچی شہر میں بڑھتی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ میرے قائد کی دی ہوئی پالیسی کے مطابق ہی آپریشن جاری رکھا جائے تاکہ کراچی کو ایک مرتبہ پھر پر امن اور روشنیوں کا شہر بنایا جاسکے‘‘۔
’’تمہاری منطق بھی خوب ہے نیا فلسفہ بیان کر رہے ہو کسی بھی ذی شعور انسان سے پوچھو وہ جانتا ہوگا کہ پالیسی بنانا فرد واحد کا کام نہیں ہوتا، اس میں کئی ادارے شامل ہوا کرتے ہیں ایسا نہیں کہ کسی بھی ایک شخص کے کہنے پر یا اس کی ذاتی رائے کی بنیاد پر قوانین بنا کر انہیں ملک میں نافذ کردیا جائے اس مسئلے پر باقاعدہ طور پر تھنک ٹینک ہوتے ہیں ذہین لوگوں کا بورڈ تشکیل دیا جاتا ہے، سیاسی مکالمہ ہوتا ہے پارلیمنٹ سے لے کر متعلقہ اداروں کے سربراہان سمیت ہر شخص اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے اورمختلف تجاویز دیتا ہے تب جاکر ہی کوئی بھی پالیسی مرتب کی جاتی ہے اور اس کے بعد اسے ملک میں نافذ کیا جاتا ہے یہ بچوں کے کھیل نہیں کہ تمہارے کہنے سے مان لیا جائے۔‘‘
’’تم مانو یا نا مانو مجھے اس سے کیا! مگر اتنا ضرور بتا دو کہ 2014ء سے لے کر 2018ء تک شہر میں کتنے قتل ہوئے؟ کتنی گاڑیاں چھینی گئیں؟ کتنے اسٹریٹ کرائم ہوئے اور کتنے لوگوں کو بوری بند لاشوں کے تحفے بھجوائے گئے یا کتنے کاروباری لوگوں کو بھتوں کی پرچیاں موصول ہوئیں؟اس کا جواب تمہارا دل بھی نفی میں ہی دے گا یعنی اس دوران جرائم کی شرح انتہائی نچلی سطح تک آپہنچی تھی جو اس بات کی دلیل ہے کہ فرد واحد ہی بہترین ایڈمنسٹریٹر ہوا کرتا ہے۔‘‘
’’اچھا خدا حافظ میں چلتا ہوں تمہارے پاس بے کار اور فضول گفتگو کرنے کے سوا کچھ نہیں تیرے پاس تو بیٹھنا بے کار ہے تجھے اپنے قائد کے علاوہ کوئی دکھائی نہیں دیتا میں تو تیری طبیعت معلوم کرنے آیا تھا یہاں آکر اندازہ ہو کہ تیرے اندر تو زہر بھرا ہوا ہے اور تو اسے نکالنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے تو یہاں بیٹھ کر اپنا جھوٹا فلسفہ بھگارتا رہ میں تو چلا۔‘‘

حصہ