ابلیس کا دُکھ

741

سیدہ عنبرین عالم
زوہیب کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ اپنے بچے کو اسپتال لے کر جائے یا کاروباری میٹنگ میں شرکت کرے۔ وہ ہمیشہ اپنے بیوی بچوں کی طرف سے لاپروائی برتتا آیا تھا۔ زیادہ تر وہ دوستوں، رشتے داروں سے تعلقات نبھانے میں مصروف رہتا تھا، گھر کی تمام ذمے داریاں بیوی کے سپرد کر چھوڑی تھیں۔ وہ بے چاری بھاگم بھاگ بچوں کو تیار کرتی، ناشتا تیار کرتی، پھر بچوں کو اسکول چھوڑ کر آتی۔ پھر گھر کے کام کاج، بل جمع کرانا، سودا سلف لانا۔ پھر آئے دن زوہیب دعوتیں رکھ لیتا، اور وہ بے چاری درجنوں لوگوں کا کھانا پکا پکا کر ہلکان۔ آج پہلی بار اس نے زوہیب سے کہا تھا کہ چھوٹے بچے کے کان سے مسلسل پیپ بہہ رہی ہے، زوہیب اس کے ساتھ بچے کو دکھانے اسپتال چلے۔ آخر زوہیب نے بچے کے ساتھ اسپتال جانے کا فیصلہ کرلیا اور میٹنگ دوسرے دن تک ملتوی کردی۔
ابلیس غصے سے ٹہل رہا تھا، ابلیس کا نائب زنگلی باادب کھڑا تھا۔ ’’آخر تم لوگ ڈھنگ سے کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟ یہ زوہیب تو اپنے بچوں پر توجہ دینے لگا ہے۔‘‘ ابلیس نے کہا۔
’’سر پتا نہیں اسے کیا ہوگیا! اسے تو کبھی یہ بھی نہیں پتا ہوتا تھا کہ اس کے بچے کون سی کلاس میں ہیں، کس بچے کو کیا پسند ہے، کس کی کیا عادت ہے۔‘‘ زنگلی نے پریشان ہوکر جواب دیا۔
’’اب کہیں یہ بچوں کی تربیت پر توجہ دینا نہ شروع کردے، ایک تو اس کی بیوی بھی غلام بنی ہوئی ہے، کسی بات پر لڑتی نہیں، ساری ذمے داریاں خود اٹھا لیں‘‘۔ ابلیس نے غصے سے کہا۔
’’سر! اچھا ہے ناں، اگر اس کی بیوی لڑ جھگڑ کر اسے ذمے داریوں کا احساس دلائے گی تو یہ تو گھر والوں کا خیال رکھنا شروع کردے گا، پھر ہم اسے جہنم کیسے بھیجیں گے!‘‘ زنگلی نے مسکرا کر کہا۔
’’ہاں! یہ تو تم نے ٹھیک کہا۔ وہ وقاص کا کیا ہوا؟ طلاق ہوئی اس کی؟‘‘ ابلیس نے پوچھا۔
’’کیسے نہ ہوتی سر! اب کے تو اُس نے مار مار کر اپنی بیوی کی تین ہڈیاں توڑ دیں۔ اب تو اس ڈھیٹ بیوی کو جانا ہی پڑا، ورنہ روز پٹ کر بھی طلاق نہیں مانگتی تھی۔‘‘ زنگلی نے بتایا۔
’’ویسے نہ جاتی تو اچھا تھا، اگلی دفعہ ہم وقاص کے دل میں ڈالتے کہ بیوی پر بدچلنی کا الزام لگا کر اسے مار ڈالے۔ کم بخت یہ ڈھیٹ بیوی ہر وقت لاحول پڑھتی رہتی ہے، میرا تو جینا حرام کررکھا ہے، زہر لگتے ہیں مجھے ہر وقت اللہ کو یاد کرنے والے لوگ۔‘‘ ابلیس بولا۔
’’جی سر!!!‘‘ زنگلی نے سر جھکا کر کہا۔ ’’ویسے اب بھی وہ نہ زندوں میں ہے نہ مُردوں میں۔ وقاص نے اسے مہر تک نہیں دیا، کیس کرنے کے لیے اس کے پاس ٹکہ نہیں ہے، اس کی بھابھیوں کا یہ حال ہے کہ دن رات اس کے بچوں کو مارتی پیٹتی ہیں اور خود وقاص کی بیوی چھ مہینے کے بچے کو چھوڑ کر نوکری بھی نہیں کرسکتی، ایک ایک پائی کو ترس رہی ہے۔‘‘
’’مگر اب بھی اس کی ایک نماز قضا نہیں ہوتی، بڑی ڈھیٹ ہے۔‘‘ ابلیس نے غصے سے کہا۔
’’سر! ایک بات تو آپ کو ماننی پڑے گی کہ مسلمان مرد ہمارا بڑا ساتھ دیتے ہیں، ایک بار بیوی کو طلاق دے دیں پھر ایک روپیہ بیوی اور اس کے بچوں پر خرچ نہیں کرتے، حالانکہ اسلام میں بالغ ہونے تک بچوں کا نان نفقہ اور تمام اخراجات باپ کے ذمے ہیں، اسی رقم میں بے چاری طلاق یافتہ بیوی کا بھی گزارا ہوجاتا تھا، ورنہ وہ بچوں کو آوارہ چھوڑ کر اپنے لیے پیسہ کمانے تو نہیں جاسکتی، جب کہ بچوں کا باپ دوسری شادی کرکے رنگ رلیاں مناتا رہے۔ شکر ہے یہ لوگ چار شادی کے سوا اسلام کا کوئی حکم نہیں مانتے۔‘‘ زنگلی بولا۔
’’ہاں! سب سے اہم کام یہ ہے کہ ماں باپ، بچوں کے علاوہ دوسری مصروفیات پر توجہ دیں، تاکہ ہم اچھی طرح بچوں کو بگاڑ سکیں۔ اگر ہر ماں باپ ایسا ہی کریں تو ہم تمام نسلِ انسانی کو برباد کردیں، پھر دیکھتا ہوں کہ اللہ کیسے انہیں نائب بناتا ہے۔‘‘ ابلیس نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا۔ وہ ہمیشہ غصے میں ہی رہتا ہے، اسی لیے جو لوگ شیطان کے بہت زیادہ زیراثر ہوتے ہیں وہ ہمیشہ غصے میں رہتے ہیں۔ اور جو بندے الرحمن کے زیراثر ہوتے ہیں وہ سرتاپا محبت ہوتے ہیں، ایثار و درگزر ان کی سرشت میں ہوتا ہے۔
…٭…
شام ہونے والی تھی، فوزیہ بس اسٹاپ پر پریشان کھڑی تھی، اچانک گیس مہنگی ہوجانے کی وجہ سے بسیں بند ہوگئی تھیں اور رکشے والے من مانے کرائے وصول کررہے تھے۔ وہ یونیورسٹی سے اسی وقت فارغ ہوئی تھی، مغرب کی اذان ہوگئی تھی۔ اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا، ابا جس ورکشاپ پر کام کرتے تھے اسی پر فوزیہ کے تین بھائیوں کو بھی میٹرک کرتے ہی بٹھا لیا تھا۔ خاندان میں تعلیم کا رواج زیادہ نہ تھا۔ فوزیہ کی ایک ٹانگ میں پولیو کی وجہ سے لنگ آگیا تھا، اس لیے رشتہ نہیں ہورہا تھا، اور لڑکیوں کی کمائی کھانا معیوب تھا، سو وہ آگے پڑھتی گئی۔ تینوں بھائی اس کی پڑھائی کے خلاف تھے اور کہتے تھے کہ دیکھ لینا ابا، یہ کوئی نہ کوئی گل کھلائے گی لڑکوں کے ساتھ پڑھ کر… مگر ابا نے کسی کی نہ سنی اور اسے یونیورسٹی جانے کی اجازت دے دی۔
فوزیہ کا گھر کراچی کے نواحی علاقے میں تھا، بس سے ہی دو گھنٹے کا راستہ تھا، رکشے سے جاتی تو 1200روپے بنتے، ابا دے تو دیتے لیکن اس کے بھائی ہنگامہ کھڑا کردیتے کہ لڑکی کی پڑھائی پر اتنا خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے! اسی شش و پنج میں خاصا وقت گزر گیا اور اندھیرا چھا گیا۔ فوزیہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ کسی بھائی کو بلاتی تو بائیک پر بھی اتنی دور سے آنے میں سوا گھنٹہ تو لگتا۔ ’’فوزیہ! تم اب تک گھر نہیں گئیں؟‘‘ فوزیہ کو اپنے پیچھے سے آواز آئی۔ عمران اس کا کلاس فیلو بائیک پر کھڑا تھا۔
فوزیہ تقریباً رو ہی پڑی، سارا قصہ سنایا۔ عمران اسے گھر چھوڑنے پر راضی ہوگیا۔ ادھر فوزیہ کا دَم نکلا ہوا تھا کہ کسی بھائی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا… بہرحال مرتی کیا نہ کرتی، وہ عمران کے ساتھ بیٹھ گئی اور گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔
گھر سے کچھ دور ہی فوزیہ نے اترنا غنیمت سمجھا۔ اسے افسوس بھی تھا کہ عمران اتنی دور اسے چھوڑنے آیا اور اس نے عمران کو چائے تک نہ پوچھی۔ مگر وہ اپنے گھر کا ماحول جانتی تھی، اس لیے اکیلے ہی پیدل گھر کی طرف چل پڑی۔ علاقے کی لائٹ گئی ہوئی تھی اور سب لوگ گھروں سے نکل کر فٹ پاتھوں پر محفل جمائے بیٹھے تھے۔
’’رانی! کبھی ہمارے ساتھ بھی بائیک پر بیٹھو۔‘‘ ایک آواز آئی۔ اور وہ چونک پڑی۔ محلے کے کسی لڑکے نے فوزیہ کو عمران کے ساتھ بائیک پر آتے دیکھ لیا تھا۔
’’ارے! یہ راشد، انور اور اکبر کی بہن ہے، نقاب کرکے سمجھتی ہے ہم پہچانیں گے نہیں، ہمیں تو منہ لگاتی نہیں۔ لگائے گی بھی کیوں، ہم غریب جو ہوئے۔‘‘ ایک اور آواز آئی، پھر کسی نے پیچھے پتھر کھینچ کے مارا اور ساتھ ہی بہت سے قہقہے ابھرے۔
فوزیہ بھاگتی ہوئی گھر کے بجائے ورکشاپ گئی، ابا کو ساری بات بتائی۔ اس کے بھائی محلے کے لڑکوں کی باتوں میں آکر ابا سے بھی بدتمیزی کرتے رہے، مگر ابا نے فو زیہ کا بھرپور دفاع کیا اور اس کی پڑھائی چھڑوانے سے انکار کردیا۔
’’منحوس، کم بخت، یہ لڑکی تو بہت ہی تیز نکلی۔‘‘ ابلیس غصے سے اپنے بال نوچ رہا تھا۔
’’اگر اس طرح بچے اپنی ہر بات والدین کو بتاتے رہے تو ہمارا تو کام مشکل ہوجائے گا۔ کیوں کہ والدین تو کسی نہ کسی طرح مشکل حل کر ہی لیتے ہیں، ہمارا کام تو اُس وقت ہوگا جب ماں باپ کا بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ نہ ہو اور بچے ہر بات ماں باپ سے چھپائیں۔ ایسے بچوں کو صحیح ہدایت دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ماں باپ کو اُس وقت پتا چلتا ہے جب بچے برباد ہوچکے ہوتے ہیں اور بچائو کا کوئی راستہ بچتا ہی نہیں۔‘‘ زنگلی نے افسردگی سے کہا۔
’’اگر فوزیہ کا باپ فوزیہ پر لگائے گئے تمام الزامات تسلیم کرلیتا، اسے مارتا پیٹتا اور پڑھائی سے روک دیتا تو فوزیہ کے پورے خاندان میں کبھی کوئی لڑکی تعلیم حاصل نہ کرپاتی۔ یہی سوچ کر میں نے محلے کے لڑکوں کو بھڑکایا تھا، مگر سب کام الٹ ہوگیا۔‘‘ ابلیس ہاتھ ملتا ہوا بولا۔
زنگلی کی آنکھوں میں آنسو تھے ’’میں آسمانوں سے خبر لایا ہوں، یہ لڑکی فوزیہ پڑھ لکھ کر ڈپٹی کمشنر لگے گی اور اس کی شادی پولیس کے ایک افسر سے ہوگی، اس کے سب بچے بھی پڑھی لکھی ماں کی تربیت کی وجہ سے ترقی کریں گے، اس کا تمام خاندان اس پر رشک کرے گا۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’ہائے یہ کیا ہوگیا، پڑھی لکھی مائیں تو پوری نسلِ انسانی سنوار دیں گی، میں تو ہار جائوں گا۔ انسان کو نائب بنا لیا جائے گا۔ ارے میں کیا کروں، کہاں جائوں؟‘‘ ابلیس گلا پھاڑ پھاڑ کر روتا رہا۔
…٭…
صفدر صاحب سرکاری ملازم تھے، ماشاء اللہ تین بچے تھے، بیٹا میٹرک میں تھا اور دونوں بچیاں بالترتیب ساتویں اور چوتھی میں تھیں۔ گھر میں صفدر صاحب کی چھوٹی بہن بھی رہتی تھی جو سائیکالوجی میں ماسٹرز کررہی تھی، صفدر صاحب کی بیگم روبینہ ایک کالج میں لیکچرر تھیں۔ گویا ہنسی خوشی یہ خاندان متوسط سی زندگی گزار رہا تھا۔
ایک روز صفدر صاحب کے دفتر میں ایک لڑکی آئی۔ لڑکی کیا، تیس پینتیس سال کی خاتون تھی، اپنے والد کی پنشن کے سلسلے میں بڑی پریشان تھی۔ یہ لڑکی خود کینسر کی مریضہ تھی اور اس کے والد 70 سال کے بزرگ اور ایک ٹانگ سے معذور تھے، پنشن ہی ان دونوں کا واحد آسرا تھی اور حکومتی لوٹ مار کے سبب کبھی پنشن ملتی، کبھی نہ ملتی۔ غرض وہ لڑکی بڑی مصیبت میں تھی۔ صفدر صاحب اس کا کام کرانے کی کوشش بھی کرتے اور ذاتی طور پر اپنی جیب سے بھی مدد کرتے رہتے۔ ایک سال گزر گا، ایک روز اس لڑکی کے والد صاحب آئے اور تین مہینے سے رکی ہوئی پنشن طلب کرنے لگے۔ صفدر صاحب نے لڑکی کی خیریت دریافت کی تو والد صاحب نے بتایا کہ وہ دو ہفتے سے آئی سی یو میں ہے، ڈاکٹروں نے اسے لاہور کے کینسر اسپتال لے جانے کا مشورہ دیا ہے، مگر نہ وسائل ہیں، نہ مجھ میں اتنی ہمت کہ اتنی مشقت اٹھا سکوں۔
جانے صفدر صاحب کے دل میں کیا آیا، لڑکی کے والد صاحب سے بات کی، نکاح خواں اور دو گواہوں کو اسپتال لے گئے اور لڑکی سے نکاح کرلیا، اور پھر اسے لاہور لے جانے کا انتظام کرنے لگے، گھر میں بھی اسی رات بتا دیا۔ خبر کیا تھی، گویا طوفان تھا۔ روبینہ بیگم نے تو کہرام برپا کردیا اور بچے اور بہن بھی سخت ناراض ہوئے… تین دن بعد صفدر صاحب لڑکی اور اس کے والد کو لے کر لاہور روانہ ہوئے۔ دو ماہ لڑکی کا علاج چلتا رہا اور وہ خاصی بہتر ہوگئی۔
جس دن وہ نازیہ اور اس کے والد کو لے کر گھر داخل میں ہوگئے، سب گھروالوں نے اُن سے بات کرنا چھوڑ دی۔ اُن کو نازیہ اور اُس کے والد کے لیے ملازمہ رکھنا پڑی، ان کا ہاتھ بھی تنگ ہوگیا تھا کیوں کہ نازیہ کی دوائیں بہت مہنگی تھیں، اب وہ بچوں کی بے تکی فرمائشیں پوری نہیںکر پاتے تھے، اس لیے بچے مزید کبیدہ خاطر ہوگئے تھے۔ آخر ایک دن انہوں نے سب کو جمع کیا اور اچھی طرح سمجھایا کہ یہ لڑکی اور اس کے والد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے تحفہ ہیں، ان کی خدمت کرکے ہم جنت کما سکتے ہیں۔ تین گھنٹے کی بحث کے بعد روبینہ نے صفدر صاحب کا مؤقف تسلیم کرلیا۔ اب صفدر صاحب کی فیملی مزید خوش حال ہوگئی ہے کیونکہ انہوں نے اللہ کو راضی کرنا چاہا تو اللہ رب العزت نے انہیں بھی دنیا اور آخرت میں راضی کردیا۔
’’ارے یہ کیا ہوگیا؟‘‘ شیطان نے اپنا سر پیٹ لیا۔ ’’بے شک اللہ نے مردوں کو چار شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے، مگر زیادہ تر مرد تو مزید تفریح کے لیے مزید شادیاں کرتے تھے، یہ اس منحوس صفدر نے مردوں کے دل میں یہ آئیڈیا ڈال دیا کہ بے سہارا عورتوں کو سہارا دینے کے لیے ان سے شادی کی جائے، جیسے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اسی مقصد سے شادیاں کرتے تھے، اس صفدر نے تو فتنہ کھڑا کردیا۔ اب عورتوں کو مزید بے شرم بنانا پڑے گا تاکہ مرد بے حیا عورتوں کے ناز و انداز سے متاثر ہوکر ان سے شادی کریں۔ بے سہارا عورتوں کو سہارا نہ دیں۔‘‘ اس نے بات مکمل کی۔
’’بے سہارا عورتیں ہی تو ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔ جس معاشرے میں کثرت سے عورتیں بے سہارا ہوں، اُس معاشرے کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا، کیوں کہ یہ عورتیں بھی پیٹ رکھتی ہیں اور انہیں بھی کسی نہ کسی طرح روٹی حاصل کرنی ہوتی ہے۔‘‘ زنگلی نے تائید کی۔
’’ہاں یار یہی تو غم ہے، صفدر جیسے مرد تو ہمارا منصوبہ خاک میں ملا دیں گے۔ ویسے بھی جس معاشرے میں بوڑھوں، یتیموں، بیماروں اور معذوروں پر رحم نہیں کھایا جاتا ایسے معاشرے پر اللہ بھی رحم نہیں کرتا، میں تو ہر مسلمان کے دل میں یہی ڈالتا ہوں کہ بھلے کپڑوں اور کھانوں پر لاکھوں اڑا دو، مگر کسی کمزور کو ہزار، دو ہزار سے زیادہ نہ دینا، ان کی آہوں سے ہی تو قوموں پر عذاب آتے ہیں۔ یہ خوش حال اور پُرسکون ہوگئے تو ہم کو تو اللہ کا عذاب انسانوں پر لانے کے لیے دس گنا محنت کرنی پڑے گی، زیادہ بہکانا پڑے گا کہ زیادہ گناہ ہوں اور زیادہ عذاب آئے… ہائے صفدر تیرا بیڑا غرق ہو۔‘‘ ابلیس رونے لگا۔

حصہ