سیارچہ بیننو

415

قاضی مظہر الدین طارق
دل تھام لیجیئے کہ’ناسا‘ کا بھیجا ہوا خلائی جہاز ’اُسَیرَس رَیکس‘ سیّارچے’ بَیننو‘ کے قریب پہنچ گیاہے ، اب دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کیا نئے انکشافات کر تا ہے۔
اس وقت یہ جہاز ’اُسَیرَس رَیکس‘بَننوکے صرف بارہ میل کے فاصلے سے بار بار گزر رہا ہے،بار بار گزرتے ہوئے یہ خلائی جہاز اس ہیرے نماسیّارچے کے قریب آجائے گا،اور جب یہ فاصلہ صرف ایک میل رہ جائے گا تو زمین پر بیٹھے ہوئے سائنسدانوں کے لئے اس کا تفصیلی اور حتمی جائزہ لینا ممکن ہو جائے گا ۔
’اُسَیرس رَیکس ‘کے ڈپٹی پرنسپل اِنویسٹگیٹر جنابہ’ہیتھر اَینوس‘ کا کہنا ہے’’ہمارے لئے یہ نہایت اہم ہے کہ ہم اس کے مدار میں داخل ہونے سے پہلے کچھ وقت صرف کر یں اور پھر مدار میں داخل ہوں تاکہ تاکہ غلطی گا امکان کم سے کم ہو۔‘‘
پھر اِس نے تو وہاں کی مٹّی بھی زمین پر لا نی ہے ، تاکہ انسان اس کا قریب سے جائزہ لے کر اُس کا تجزیہ کر سکے گا۔
یہ ایک ننھا سا سیّاچہ ہے،اس کی لمبائی تقیباً سولہ سو فیٹ ہے جس کا وزن اور کششِ ثقل بھی بہت کم ہے۔
اگست ۲۰۱۷؁ کے دوسرے ہفتہ سے شروع دسمبر تک یہ جہاز’اُسَیرس رَیکس‘ نے سیّارچے ’بَیننو‘ کی طرف تقریباً چودہ لاکھ میل کا سفر کرتے ہوئے جو تصایر بھیجیں اُن کی مدد سے سائنسدانوں نے اس سیّارچے کا مکمل نقشہ بنایا۔
اس پر اِن کو زیادہ تر پتھریلی اور چٹانی سطح نظر آئی، جبکہ کچھ حصہ ہموار میدانی بھی ہے۔
۳؍دسمبر ۲۰۱۸؁ء کو یہ جہاز سیّارچے سے صرف بارہ میل دور تھا، یہ جہاز ۸؍ستمبر ۲۰۱۶ ؁کو زمین سے روانہ کیا گیا تھا،کچھ تجربات کرنے کے بعد ۲۰۲۱؁ء میںاس نے صرف پانچ سیکنڈ کے لئے سیّارچے ’بَننو‘سے مَس(ٹچ) کرکے اس کی ساٹھ گرام مٹّی چُرائے گا او رجولائی ۲۰۲۳؁ء کو یہ مٹّی زمین پر لے آئے گا ۔
کسی دُور دَرازسیّارچے (ایسٹروائڈ)سے اس کی مٹّی لانے کایہ کام تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ہمارا اتنے کم وزن اورکم کششِ ثقل والی خلائی چٹان کے گرد مدار میں گھومنے کا یہ پہلا تجربہ ہوگا، ۳۱؍دسمبر ۲۰۱۸؁ء سے پہلے یہ مدار میں داخل نہیں ہوگا ، حسن ِ اتفاق سے اس کے اگلے ہی دن یکم جنوری ۲۰۱۹؁ء کو نئی اُفق ٹیم کا جہاز بہت دور ٹھنے ا خلائی جسم ’الطِما تھول‘ کے قریب سے گزرے گا۔
سیّارچے’بَیننو‘ کے اِس نمونے(سََیمپل) پر تحقیق ، بڑی اہمیّت کا حامل کام ہو گا۔ کیوں کہ یہ مادّے اُس وقت بنے تھے، جب نظامِ سمشی کی تشکیل ہوئی، جن مادّں سے اُس وقت یہ نظام بنا تھا ، وہ مادّے اُس وقت سے اب تک اُسی حالت میں محفوظ ہیں، مطلب یہ ایک ٹائم کیپسول ہے ۔اِس تحقیق سے ہم کو نظامِ شمسی اور کائنات کی تشکیل کے جو راز پنہاں ہیں اُن کے پردے ہٹانے میں مدد ملے گی ، خاص طور پر انسان کی تخلیق کا راز۔ اس پر تحقیق کرتے ہوئے ہم کو ایسا لگے گا جیسے ہم ساڑھے چار ارب سال پیچھے ماضی میں چلے گئے ہیں۔
’’ ہم اتنے چھوٹے،کم وزن اور کم کشش کے خلائی چٹان کے مدار میں چکّر لگانے کا ایک نیا رِکارڈ قائم کرنے چلے ہیں۔‘‘جناب اَینوس نے فخرکہہ رہی تھی،’’یہ کام نہایت اہم ہے، اس کو ہم نے بہت سخت اصولوں کے ساتھ بڑی احتیاط کے ساتھ انجام دینا ہو گا۔‘‘
’ناسا‘نے اس مشن پرآٹھ سو ملین ڈالرخرچ کئے ہیں ، نئی اُفق (نیو ہورائیزن )کی اس ٹیم نے ایک سے زیادہ دہائیاں اس مشن پر لگا دیئے،پھراس نے ایک خلائی جہاز ’اُسَیرَس رَیکس‘کو ۲۰۱۶؁ء میںسیّارچے ’بَیننو‘ کی طرف روانہ کیا۔
یہ جہاز ۳؍دسمبر ۲۰۱۸؁ء کو ’بَیننو‘ کے قریب پہنچا ، بَیننو کے مدار میں داخل ہونے سے پہلے یہ جہاز کئی بار پلٹ پلٹ کربَیننو کے قریب ہوتا جائے گا،اس دَوران یہ جہاز قیمتی اور تفصیلی معلومات اِکھٹا کرے گا ، جس کی بنیاد پر سائنسدان اُس جگہ کا انتخاب کریں گے جہاں سے نقب لگا کر سیّارچہ کا مادّہ(میٹیریئل) چُرا کر لانا ہے۔
جولائی ۲۰۲۰؁ء میں اللہ نے چاہا اور کوئی حادثہ نہیں ہوا تو یہ بَیننوسے مٹّی اُٹھا ئے گا،پھر مارچ ۲۰۲۱ء؁ کو یہ واپس زمین کی طرف پلٹے گا اوردو سال سے زیادہ سفرکرکے یہ نمونے ستمبر ۲۰۲۳ء ؁ میں زمین پر پہنچا دے گا۔
اب تک کے تجزیے یہ بات کی سند دے رہے ہیں کہ اس قسم کے سیّارچوں میں پانی موجود ہے، اس کے ساتھ ہی کاربن کے مرکبات بھی ہیں، جو تشکیلِ حیات اور زندگی کی نمو کے لئے ضروری ہیں۔
ناسا اس مہم میں اکیلی نہیں ہے ،جاپان کی خلائی ایجنسی’جایا‘ نے بھی ایک خلائی جہاز ’حایابوسا۔۲‘ ایک سیّارچے’رائیگو‘ کی طرف روانہ کیا ہوا ہے، یہ ایک تین ہزار فٹ چوڑی خلائی چٹان’رائیگو‘ سے اُس کا نمونہ لائے گی،اس نے جون میں ہی کئی چھوٹے جہازسیّارچے ’رائیگو‘ پراُتار دیئے ہیں جو ۲۰۲۰ء؁ تک یہ نمونے زمین پر لا چکی ہوگی۔ اس سیّارچے کی شکل بھی بَیننوسے ملتی جلتی ہے،لیکن ساخت میں یہ ایک دوسرے مختلف ہیں۔
اب طے ہوا ہے کہ دونوں اجنسیاں (جایا اور ناسا)ایک دوسرے سے تعاون کریںگی ، ایک دوسرے کے نمونے ایک دوسرے کو دیں گی،جبکہ یہ دونوں پہلے ہی ایک دوسرے کی مدد کر رہی ہیں۔
مگر ہم کیا کر رہے ہیں؟

حصہ