ریاکاری کے سجدے

831

آخری قسط
قدسیہ ملک
۔6جن چھ چیزوں سے شیطان دور بھاگتا ہے ان کی معرفت حاصل کرنا،کیونکہ شیطان ریاکاری کا منبع اور مصیبت کی جڑ ہے،شیطان بہت ساری چیزوں سے بھاگتا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:اذان، تلاوتِ قرآن،سجدہ تلاوت، شیطان سے اللہ کی پناہ طلبی،گھر سے نکلتے اور مسجد میں داخل ہوتے وقت”مسنون دعائیں”پڑھنا اورصبح وشام کے اذکار کی،نماز کے بعد کے اذکار کی اور اقسام مشروع اذکار کی پابندی کرنا۔
کثرت سے خیر کے کام اور خفیہ عبادتیں انجام دینا اور انہیں پوشیدہ رکھنا،جیسے قیام اللیل،خفیہ صدقہ،تنہائی میں اللہ کے خوف سے رونا،نفل نمازیں،دینی بھائیوں کے لئے ان کی عدم موجودگی میں دعا کرنا،کیونکہ اللہ عزوجل خفیہ متقی پرہیز گار بندے سے محبت کرتا ہے۔
7لوگوں کی مذمت اور تعریف کی پروا نہ کرنا،کیونکہ اس سے نہ تو نقصان پہنچتا ہے نہ نفع بلکہ ضروری ہے کہ اللہ کی مذمت کا خوف ہو اور اللہ کے فضل واحسان سے خوشی۔
8سوء خاتمہ کا خوف،چنانچہ بندے کو ڈرنا چاہیے کہ ریا اور دکھاوے کے یہ اعمال ہی اس کا آخری عمل اور اس کی زندگی کا آخری لمحہ نہ ہو جائیں کہ اس کے نتیجے میں بڑا عظیم خسارہ اٹھانا پڑے،کیونکہ لوگ اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے اور سب سے بہتر اعمال آخری اعمال ہوا کرتے ہیں۔
9مخلص وتقوی شعار افراد کی صحبت اور ہم نشینی اختیار کرنا،کیونکہ مخلص ہم نشین آپ کو خیر سے محروم نہ کرے گا اور آپ اس سے اپنے لیے نیک نمونہ پائیں گے،لیکن اگر ریا کار اور مشرک شخص کا عمل اپنائیں گے تو وہ آپ کو جہنم کی آگ میں جلا دے گا۔
10لوگوں کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اس کا لالچ نہ کرنا،کیونکہ اخلاص اورمدح وثنا کی محبت اور لوگوں کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اس کے لالچ کا ایک دل میں اکھٹا ہونا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح آگ اور پانی کا اور گوہ اورمچھلی کا یکجا ہونا محال ہے۔
ایک بنیادی نکتہ یاد رکھ لیں کہ شیطان کا مقصود، غرض اور مطمع نظر انسان سے گناہ کروانا نہیں بلکہ اس کا مقصد اسے اپنے ساتھ دوزخ میں لے جانا ہے۔ اس نے اللہ کی بارگاہ میں قسم کھائی تھی کہ میں تیرے بندوں سے جہنم کو بھر دوں گا۔ لہٰذا وہ کئی طریقوں سے اپنے مقصد کو پورا کرتا ہے۔ جس طرح وہ گناہ کرواکر اور نیکیوں سے روک کر اپنے مقصد کی تکمیل کرتا ہے اسی طرح وہ بندوں کو بدعقیدگی کی طرف مائل کرکے بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کرتا ہے۔ بھلے ساری زندگی روزے رکھیں، نمازیں پڑھیں، مدرسے بنائیں، شریعت شریعت کی رٹ لگائیں مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب اور تعظیم و تکریم کو شیطان دل سے ختم کروادیتا ہے، جس سے ظاہری عبادت کا بھی کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔اب خواہ ساری زندگی نمازیں پڑھیں، اس کی فکر شیطان کو نہیں ہوتی اس لئے کہ اسے معلوم ہے کہ میں نے اس شخص کو بدعقیدہ بنا دیا ہے اور اب یہ بدعقیدگی اس کو جہنم کا ایندھن بنا دے گی۔ نمازیں کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوں گی۔ بندہ سب کچھ کرے لیکن شیطان اگر دل سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اہل بیت رضی اللہ عنہم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت ہی نکال دے، ان کا بغض اور ان سے نفرت و عداوت دل میں ڈال دے تو ایمان برباد ہو گیا اور بندہ جہنم کا ایندھن ہوگیا۔ صحابہ کرام و اہل بیت پر سب و شتم کرنے، ان سے نفرت کرنے سے سب کچھ برباد ہوجاتا ہے اور بندہ جہنم کا ایندھن بنا دیا جاتا ہے۔
ریاکاری
”دوسروں سے تعریف چاہنے کیلئے کام کرنا“
رياکاری کے نقصانات
ریاکاری شرک اصغر ہے.تنہائی میں نیکی کرنا ریاکار کیلئے مشکل ہوتا ہے.نیکی کے کام میں تاخیر کرنا ریاکار کا شیوہ ہوتا ہے.خودپسندی اور غرور کی عادت پڑجاتی ہے.حاسدین پیدا ہوتے ہے (جب انسان جگہ جگہ اپنی نعمتوں کو بڑھ بڑھ کر بیان کرے تو نظر لگتی ہے).نیکی کا نور ختم ہوجاتا ہے.نیت کی خرابی انسان سے نیکی کی توفیق چھین لیتی ہے.اللہ تعالی انسان کی بدنیتی لوگوں کے سامنے عیاں کردیتے ہیں۔
ذاتی محاسبہ
جب میں کوئی اچھا کام کروں اور لوگ تعریف نہ کریں تو دل پر کیا گزرتی ہے؟
تنہائی میں عبادت اور لوگوں کے سامنے عبادت کا فرق تو نہیں ہوتا؟
ریاکاری سے نجات
دل میں جب بھی وسوسہ آئے تو فوراً نیت درست کریں۔خود کو لفظوں میں سنوائیں”مجھے تعریف نہیں چاہیے“ایسا وسوسہ آنے پر کہیں!
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیَئًا
حقیقی شرک سے تو سارے اعمال اکارت جاتے ہیں، مشرک کا کوئی عمل اور بظاہر اچھا عمل بھی اللہکے ہاں مقبول نہیں جبکہ ریا کاری سے سارے اعمال ضائع نہیں ہوتے بلکہ ہر وہ عمل جس میں ریا پایا جائے وہ ضائع ہوجاتا ہے اور بندہ اسکے اجر و ثواب سے محروم ہوجاتا ہے۔ کئی احادیث میں ریاکاری کو صراحت کے ساتھ شرک، ’’شرک اصغر‘‘ اور ’’شرک خفی‘‘ کہا گیا ہے ممکن ہے کہ شروع میں انسان ریاکاری پر مبنی عمل اور اس عمل کے درمیان تشخیص نہ دے سکے جسے بغیر ریاکاری کے انجام دیا ہے۔ ریاکاری کی پہلی اور روشن علامت احسان جتانا ہے۔اگر انسان کوئی کام انجام دے کر لوگوں پر احسان جتائے تو اس کے عمل کا اجر اور ثواب ختم ہوجاتا ہے۔سورہ بقرہ کی آیت نمبر دوسو چونسٹھ میں ارشاد ہوتا ہے کہ اے ایمان والو! اپنے صدقات کو منت گذاری اور اذیت سے برباد نہ کرو اس شخص کی جو اپنے مال کو دنیا کو دکھانے کے لئے صرف کرتاہے اوراس کا ایمان نہ خدا پر ہے اور نہ آخرت پر اس کی مثال اس صاف چٹان کی ہے جس پر گرد جم گئی ہوکہ تیز بارش کے آتے ہی بالکل صاف ہوجائے،یہ لوگ اپنی کمائی پربھی اختیار نہیں رکھتے اور اللہ کافروں کی ہدایت نہيں کرتا۔اس آیت میں منت گذاری،اذیت اور ریاکاری کو ایک ہی ردیف میں شمار کیا گیا ہے اور انھیں اعمال وصدقات کی بربادی اور بطلان کا سبب قرار دیاگیا ہے حتی اس آیت کے مطابق ریاکار شخص خدا وآخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔
اسلام کی نظر میں ریاکاری ایک مذموم عمل ہے جو ریاکاری کرتا ہے وہ مؤمن نہیں ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ریاکاری مکمل شرک ہے۔جو لوگوں کے لئے کام کرتا ہے اس اجرت لوگوں پر ہے اور جو خدا کے لئے کام کرتاہے اس کا اجر اور ثواب خدا کے ذمہ ہے۔ عبادات میں سب سے ا ہم مسئلہ نیت کا ہے۔ نیت ہر عبادت کی روح شمار ہوتی ہے اور عبادت کی اہمیت اور قبولیت کا تعلق بھی نیت سے ہے۔ اگر نیت میں اشکال ہو اور خدا کے لئے نہ ہو اگر چہ وہ عبادت کتنی ہی اہم اور بڑی کیوں نہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہم اپنے روز مرہ کی عبادات اورمسائل میں بھی نیت کی اہمیت کے بہت زیادہ قائل ہیں اور خالص نیت سے انجام پانے والے کاموں کی قدر کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر تمہارا دوست ملاقات کے وقت تم سے خیریت پوچھتے وقت تم پر قربان اورفدا ہونے کے الفاظ استعمال کرے اور کہے کہ میں تمہیں بہت زیادہ چاہتا ہوں، تمہاری بہت زیادہ یاد آرہی تھی اگر تم یہ جان لو کہ اس نے یہ تمام باتیں محبت میں کہی ہیں تو اس کی یہ باتیں تمہارے لئے بہت ہی اہم اور قابل قدر ہوں گی جس کے نتیجے میں تم بھی اس سے زیادہ محبت کرنے لگو گے۔لیکن اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ اس نے یہ باتیں تمہیں فریب دینے کے لئے کہی ہیں تاکہ تم سے فائدہ اٹھائے تو تم کبھی بھی اس کی باتوں پر توجہ نہیں دوگے اور ناہی اس کے احترام کے قائل ہوگے۔ بلکہ وہ جتنا بھی ان باتوں کو دوہرائے گا اس سے نفرت بڑھتی جائے گی۔ ظاہر میں دونوں کا عمل ایک جیسا ہوگاکیونکہ نیت سے عمل کا پتہ چل جاتاہے۔بنابرایں یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ مؤمن اور ہوشیار افراد کام کی اہمیت کے بارے میں اس کے ظاہری آثار کو نہیں دیکھتے ہیں بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے کس نیت سے اس کام اور عمل کو انجام دیا ہے۔
بعض علماء بیان کرتے ہیں اگر آپ ریا کاری سے بچنا چاہتے ہیں حتیٰ آپ نے نیک عمل کرنے کا جو ارادہ کیا ہے وہ بھی آپ کے ذھن میں نہ آئے اور صرف یہ کہے کہ خدا کا لطف وکرم تھا اور اس عمل سے آپ لذت محسوس کریں اور بار بار اپنے ذھن میں اس عمل کو دہراتے رہیں تودر حقیقت آپ نے اپنے عمل کے خلوص میں کمی کی ہے۔ پس اگر آپ نے کسی کی مدد کی ہے یا آپ نے راہ خدا میں جہاد کیا ہے، خدا کے لئے قلم چلایا ہے اور خدانے جو حکم دیا ان سب پر عمل کیا ہے تو انھیں بار بار اپنے ذھن میں لانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ ریا مادہ را سے ہے جس کے معنی رویت اور دیکھنے کے ہیں۔ عمل کی تکرار کے ساتھ انسان اپنے عمل کو جو انجام دیا ہے اسے بہت بڑا دیکھے گااسی لئے وہ اپنی تعریف وتمجید کی زيادہ سے زیادہ امید بھی رکھے گا۔ریا کاری سے بچنے کا ایک راستہ اپنے نفس کا محاسبہ کرناہے۔
اپنی نیت کو ہمیشہ خالص کرلیں کیونکہ شیطان کے انسان کو ہلاکت میں ڈالنے کا ایک بڑا حملہ انسان کی نیت کو خراب کردینا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ انسان کو عبادات، نماز، حج و زکوٰۃ اور سب نیک کام کرنے دے مگر ان سب اعمال کے پیچھے نیت کو خراب کر دے۔ نیت فاسدہ، باطلہ اور کدرہ ہو جائے۔ یعنی نماز جی بھر کے پڑھیں مگر طبیعت میں ریا، تکبر، حسد، عداوت، بغض و عناد اور اللہ کے بندوں کے ساتھ نفرت موجود ہو۔ اس سے سارے اعمال برباد ہوگئے۔ یہ سب سے بڑا خطرناک حملہ ہے کہ شکل میں تو نیک لگے مگر پتہ نہ چلے کہ یہ آدمی برا ہے۔
سب سے بڑی ذمہ داری عورتوں کی ہے۔ہم امت کی مائیں ہیں۔خواتین اپنے بچوں کی کردار سازی میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اور ان میں مخلصانہ رویہ بیدار کرسکتی ہیں۔ ایک ماں سے ایک بچے میں اور بچے سے پورے معاشرے میں منافقت کی روک تھام ممکن ہےکیوں کہ ہر فردمعاشرے کی اکائی ہوتا ہے ۔ نپولین نے کہا تھا تم مجھے ایک اچھی عورت دو میں تمھیں اچھی قوم دوں گا!تو ایک اچھی عورت کہاں سے ملے گی، اچھی عورت ایک اچھی ماں،ایک اچھی ماں ایک اچھیبیٹی کی تربیت کرے گی۔اسی طرح ہمارے معاشرے مضبوط ہوتے چلے جائیں گے۔مثبت سوچ کو فروغ دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ دوسروں کے اعمال دیکھنے کی بجائے بس اپنے حصہ کا کام کرتے جانا ہے۔ بقول شاعرـ

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

حصہ