برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

451

قسط نمبر169
(ستائیسواں حصہ)
ہندوستان کے صوبوں بہار، بنگال، یوپی اور اڑیسہ سے نقل مکانی کرکے آباد ہونے والے بھی وہاں بہت بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں رہنے والے افراد اور خاندان جن کا تعلق پنجاب، سندھ اور سرحد سے تھا، برسوں سے مقیم تھے۔16دسمبر 1971ء کو ان تمام افراد میں سے بیشتر کو علیحدگی پسند وں نے قتل کردیا تھا۔
مشرقی پاکستان کے ضلع برہمن باریا سے تعلق رکھنے والے خورشید عالم ولد خلیل الرحمن سقوط کے وقت نویں جماعت میں تھے۔ کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد بنگالیوں کو مکتی باہنی نے قتل نہیں کیا تو اور کس نے کیا؟ وہ کہتے ہیں کہ میرے سامنے مکتی باہنیوں، ہندوستانی فوجیوں اور مقامی ہندوؤں نے محبِ وطن پاکستانیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، ان میں سے ایک مولانا عبدالقیوم خان بھی تھے جن کو تشدد کرنے کے بعد اُن کے زخمی جسم پر مسالے لگا کر انہیں تڑپایا اور قتل کیا۔ حتیٰ کہ یہی تشدد دیگر بنگالیوں کے ساتھ بھی کیا گیا۔ سرحد پار کلکتہ سے مکتی باہنی کی پشت پناہی کی جاتی تھی۔
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب پاکستان کے حامیوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر تشدد اور قتل کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ 16 دسمبر کو جنگ ختم ہونے کے کچھ ہی دیر بعد مکتی باہنی نے 12 بہاریوں کو ایک بس سے اتار کر موقع پر ہی قتل کردیا۔ 16 دسمبر کے بعد پاکستان کے حامی قیدیوں کو میدانوں میں گھٹنوں کے بل گھسیٹتے ہوئے لایا گیا۔ ان پر آخری دم تک تشدد کیا گیا، یہاں تک کہ تشدد کی تاب نہ لاکر وہ تمام شہید ہوگئے۔
جب فاتح ہندوستانی فوج مشرقی پاکستان کے ’’مکتی باہنی‘‘ کے ساتھ ڈھاکا شہر میں داخل ہورہی تھیں تو ڈھاکا کے غیر بنگالی لوگ، مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی خاندان میرپور کے علاقے میں جمع ہوگئے تاکہ آنے والے حالات سے نمٹ سکیں۔ جناب احتشام ارشد نظامی (جو وہاں سے ہجرت کرکے آج کل امریکا میں مقیم ہیں) اپنی یادداشتوں میں قومی پرچم کے حوالے سے ایک دلخراش منظر کی نشان دہی کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہم میں سے کچھ لوگ ایک جگہ بیٹھ کر اس مسئلے پر گفتگو کررہے تھے کہ جب ہندوستانی فوجیں اس علاقے میں آئیں گی تو وہ کیا کریں گے؟ ہمیں اس کی فکر نہیں تھی کہ پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں ہمارا قتل عام بھی ہوسکتا ہے، بلکہ یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ پاکستان کے اس پرچم کو کس طرح فاتح فوجوں سے بچایا جائے جسے اس علاقے کے لاگوں نے اُس وقت 23مارچ کو لہرایا تھا جب پورے مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش کا نیا پرچم آویزاں تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا ’’دشمن فوجیں پاکستانی پرچم کو پیروں تلے روندیں گی‘‘… کوئی کہتا ’’وہ اسے پھاڑ دیں گے‘‘… اور کوئی کہتا ’’وہ اسے جلا دیں گے‘‘۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اس پرچم کو اُس جنگی خندق میں دفن کردیا جائے جو جنگ کے دنوں میں کھودی گئی تھی۔ پھر تیاری کی گئی، پرچم کو لایا گیا اور ایک نوجوان جاوید منظور کو دیا گیا کہ اس پرچم کو قبر میں اتارے۔ خندق کے چاروں طرف لوگوں کا ہجوم تھا۔ جاوید پرچم کو قبر میں اتارتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ جاوید کہتا ہے کہ جب وہ ایسا کررہا تھا اُسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنے کسی پیارے کو قبر میں اتار رہا ہے۔ چاروں طرف کھڑے لوگ رندھی آوازوں میں آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ قومی ترانہ گا رہے تھے۔‘‘
تحریکِ پاکستان کے حوالے سے ممتاز مؤرخ ڈاکٹر صفدر محمود نے ’’پاکستان کیوں ٹوٹا؟‘‘ میں اس طرح لکھا کہ ’’مشرقی پاکستان میں سیاسی احساسِ محرومی کو ایوبی مارشل لا اور فوجی طرزِ حکومت نے ابھارا، اور اسے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل دی۔ پارلیمانی جمہوریت میں بنگالیوں کو اقتدار ملنے کی توقع تھی، وہ جانتے تھے کہ کسی بھی چھوٹے صوبے کو ساتھ ملا کر پیرٹی کے باوجود اقتدار حاصل کرسکیں گے، لیکن ایوبی مارشل لا نے ان کی امید کی یہ شمع بھی بجھا دی اور انہیں یقین دلا دیا کہ اب کبھی بھی ان کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ پھر ایوبی مارشل لا کی آمرانہ سختیوں… میڈیا، سوچ اور اظہار پر شدید پابندیوں، اور سیاسی مخالفوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی کارروائیوں نے بنگالیوں پر یہ بھی واضح کردیا کہ ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہے۔ ’’پاکستان سے بنگلادیش‘‘ نامی کتاب میں سابق بنگالی سفیر اور کرنل شریف الحق نے بالکل درست لکھا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے 1949ء میں علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ کرنل شریف الحق بنگلادیش کی تحریکِ آزادی اور 1971ء کی جنگ کے ہیرو ہیں۔ وہ بنگلادیش کے سابق سفیر اور شیخ مجیب الرحمن کے خلاف بغاوت کرنے والوں میں شامل تھے، چنانچہ ان کا لکھا ہوا مستند ہے۔ شیخ مجیب الرحمن جب 1972ء میں رہائی پاکر لندن پہنچا تو اس نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ وہ عرصے سے بنگلادیش کے قیام کے لیے کام کررہا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’16 نومبر 2009ء کو بنگلادیش کی وزیراعظم، شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے انکشاف کیا کہ وہ 1969ء میں لندن میں اپنے والد کے ساتھ تھی جہاں شیخ مجیب الرحمن نے ہندوستانی ایجنسی ’’را‘‘ کے افسران سے ملاقاتیں کیں اور بنگلادیش کے قیام کی حکمت عملی طے کی‘‘۔ شیخ مجیب الرحمن کبھی بھی اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہوتا اگر اسے ہندوستان کی مکمل حمایت حاصل نہ ہوتی، اور ہندوستان اپنی فوجی قوت کے بل بوتے پر مشرقی پاکستان کو الگ نہ کردیتا۔‘‘
(ان کی انگریزی کتاب “Divided Pakistan”)
شیخ مجیب الرحمن نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’آکسفورڈ‘‘ میں اعتراف کیا کہ اس نے 1961ء میں ہندوستان کی مدد سے بنگلادیش کی علیحدگی کے لیے خفیہ تنظیم قائم کی تھی۔ مجیب الرحمن کو بھارت سے 1951ء سے 25 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا۔ اسی طرح مغربی پاکستان کی جانب سے بھی خفیہ فنڈز سے ماہانہ مالی وظیفہ ملتا تھا، جو اس کی گرفتاری کے دنوں میں اس کی اہلیہ کو پہنچایا جاتا)۔ یہ وظیفہ اس کے قریبی دوست (ہارون فیملی) کے ذریعے فراہم کیا جاتا تھا۔
اب آئیے جنرل نیازی کی جانب، جو ہتھیار ڈالنے کے حوالے سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’مجھے 15 دسمبر 1971ء کی رات کو سوا بارہ بجے اپنے چیف آف آرمی اسٹاف (جنرل یحییٰ خان) کی جانب سے ایک سگنل موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ میں ہندوستانی کمانڈر انچیف کی شرائط من و عن تسلیم کرلوں‘‘۔ ’’جنرل نیازی نے مزید کہا کہ ’’جنرل راؤ فرمان علی ایک ذہین اور زیرک انسان تھا اور اپنی اسی ذہانت کی وجہ سے ہندوستانی جنرل مانک شا کو بھیجے گئے خفیہ پیغامات کی بابت لوگوں کو بے وقوف بناتا رہا اور غلط اطلاعات دیتا رہا۔ مجھے یہ علم ہی نہیں تھا کہ جنرل رائو فرمان علی کیوں اور کس کے احکامات سے جنرل مانک شا سے براہِ راست خط کتابت کررہا تھا؟‘‘
(حوالہ: انٹرویو جلیس سلاسل)
عجیب بات ہے کہ جنرل یحییٰ خان نے جنوری 1971ء میں ہی ڈھاکا ایئرپورٹ پر شیخ مجیب الرحمن کو ملک کا آئندہ وزیراعظم قرار دے دیا تھا۔ اس کے فوری بعد مغربی پاکستان سے زیڈ۔ اے۔ بھٹو نے اپنی پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ڈھاکا کا دورہ کیا اور شیخ مجیب سے اجتماعی اور انفرادی ملاقاتوں میں کچھ خفیہ ڈیل بنائی۔
اس خفیہ منصوبے میں طے پایا کہ ہمارے باہمی مذاکرات کو ناکام دکھایا جائے گا۔ اور پھر اسی طرح ہوا۔ مذاکرات ناکام ہوگئے۔ ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے امریکا کا ہنگامی دورہ کیا اور ایک منطقی نتیجے پر یکسوئی کے لیے مغربی پاکستان کو ایک میز پر لانے کی کوششیں تیز کردی گئیں۔ امریکہ نے ہندوستان کے لیے جنگ اور دخل اندازی کا جواز فراہم کرنے کے لیے یحییٰ خان کو اہم ترین ٹاسک دیا۔ اب ایک خفیہ ڈراما منظرعام پر لایا گیا اور ہندوستان کی آسانی کے لیے ہندوستانی ’گنگا‘ نامی جہاز کو اغوا کروایا گیا جس میں دو کشمیری نوجوان ہاشم قریشی اور اشرف قریشی شامل تھے۔ اس راز سے پردہ تب اٹھا جب خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ایک سابق افسر آر کے یادیو نے ہندوستانی اخبار سے گفتگو کے دوران دعویٰ کیا کہ 1971ء میں گنگا نامی بھارتی طیارہ ہم نے خود اغوا کروایا، اور الزام پاکستان پر لگا کر مشرقی پاکستان جانے والی پاکستانی پروازیں بھی روک دیں۔ گنگا نامی ناکارہ جہاز کو پہلے استعمال کے قابل بنایا گیا اور پھر اغوا کرکے لاہور لے جانے پر مجبور کردیا۔ آر کے یادیو کے مطابق طیارے کے اغوا کے بعد ہندوستان نے پاکستانی طیاروں کے ہندوستانی حدود سے گزرنے پر پابندی لگادی تھی اور سابق مشرقی پاکستان کے لیے پاکستانی فوجی نقل و حمل معطل کرڈالی تھی۔‘‘
جنرل یحییٰ نے امریکا کے کہنے پر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو خصوصی اختیارات کے تحت اغوا کاروں سے مذاکرات کا حکم دیا۔ بھٹو صاحب نے دوسرے دن طیارے کے اندر ہاشم اور اشرف سے ملاقات کی۔ قبضہ چھڑوانے کی کوشش میں جہاز کو آگ لگ گئی اور یوں ہندوستان نے پاکستانی طیاروں کے ہندوستانی فضائی حدود سے گزرنے پر پابندی عائد کردی۔ اس نازک وقت میں چین اور پولینڈ نے معاملات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سفارتی سطح پر کوششیں کیں اور پولینڈ نے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد پیش کی۔ مگر بھٹو صاحب نے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غیظ و غضب سے بھرپور تقریر کی اور فرطِ جذبات میں آکر پولینڈ کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کی قرارداد کا مسودہ پھاڑ کر اجلاس کے فلور پر پھینک دیا اور واک آئوٹ کرگئے۔
(جاری ہے)

حصہ