غلط فہمیاں اور بد گمانیاں

991

رشتوں میں دراڑیں پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں

افروز عنایت
ندرت: لیکن بھائی صاحب، بھابھی نے تو پورے سسرال کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ چلو میں مانتی ہوں کئی جگہوں پر ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہوگی، لیکن ہمارے ساتھ قطع تعلق کی وجہ؟
ندرت کا دیور: بھابھی بس اُس کا دل خراب ہوگیا ہے سب کی طرف سے۔ میں نے تو آپ لوگوں سے قطع تعلق نہیں کیا، بھائی اور آپ کو سلام دعا کرنے کے لیے سال میں ایک دو مرتبہ ضرور چلا آتا ہوں۔
ندرت: بھائی، دینِ اسلام نے بلاوجہ قطع تعلق سے منع فرمایا ہے۔ ہمارے دل میں آپ سب کے لیے عزت و احترام ہے۔
دیور: خیر بھابھی قطع تعلق کی وجہ تو ہے۔
ندرت: (حیرانی سے) وجہ…؟ کیا…
دیور: بھابھی، دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ بھائی جان نے بھی تو ہمیں مکان سے بے دخل کیا تھا۔
بھابھی: بے دخل… لیکن آپ کے بھائی جان نے تو سب کو اس اقدام سے روکا تھا، انہوں نے میرے سامنے آپ کے لیے خط لکھا جس کی گواہی میں دے رہی ہوں۔ یہ بندہ تو بڑا بے ضرر ہے، دوسروں سے برائی کا نہیں سوچا تو آپ کے ساتھ برا کیسے کر سکتا ہے!
دیور: تو بھابھی وہ خط… پھر کس کی شرارت تھی!
اس طرح دونوں بھائیوں کے خاندانوں کے درمیان بدگمانی کے جو سائے گزشتہ 6 سال سے چھائے ہوئے تھے، چھٹ گئے۔
…٭…٭…
جاوید: اماں کہاں ہیں؟ اور تمہاری طبیعت کو کیا ہوا؟ خیریت تو ہے!
رضیہ: میری تو صبح سے یہ حالت ہے۔ بڑی بے چینی محسوس کررہی ہوں۔
جاوید: تم کو اماں کو بتانا تھا۔
رضیہ: بتایا تھا لیکن… وہ سیرت آگئی تھی، اس کے ساتھ اماں شاپنگ کے لیے چلی گئیں۔
جاوید کو ماں کے رویّے پر حیرانی ہوئی کہ اماں میری بیوی کو ایسی حالت میں دیکھ کر بھی چلی گئیں! آج میں اماں سے ضرور بات کروں گا۔
رضیہ: رہنے دیں، آپ اماں کو کچھ نہیں کہیں گے۔ اماں تو اکثر میرے ساتھ…
لیکن جاوید نے سوچا: آج اماں سے اس سلسلے میں ضرور بات کروں گا۔ چند مرتبہ پہلے بھی رضیہ نے جاوید سے کچھ ایسی باتیں کی تھیں جس کی وجہ سے وہ اماں سے بدگمان ہوگیا تھا۔
اماں ڈیڑھ دو گھنٹے میں شاپنگ سے آگئیں۔ اماں نے رضیہ کی چیزیں جو اس نے منگوائی تھیں اسے تھمائیں اور کہا کہ بیٹا تم چیک کر لو، سب صحیح ہیں ناں…
جاوید: اماں آپ آگئیں (جاوید نے بہن سے بھی سلام دعا کی) ویسے اماں آپ رضیہ کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتیں، اس نے آپ سے کہا بھی… پھر آپ شاپنگ کے لیے چلی گئیں۔ ضروری کام تو ہسپتال جانا تھا۔
اماں: (حیرانی سے بہو کو دیکھتے ہوئے) بیٹا ہسپتال، مجھے رضیہ نے کہا؟
رضیہ: جاوید رہنے دیں ناں… اماں ابھی تھکی ہاری آئی ہیں۔ آپ… آپ اِدھر آئیں ،چائے تیار ہے پی لیں۔
اماں جاوید کے بدلے رویّے کو بہت دنوں سے دیکھ رہی تھی۔ انہیں بہت دکھ ہوا، کیوں کہ وہ ایک پڑھی لکھی سمجھ دار خاتون تھیں، ہر ممکن طور پر بہو کا خاص خیال رکھ رہی تھیں۔ وہ حیران تھیں کہ بیٹے کا آج کل اکھڑا اکھڑا رویہ کیوں ہے۔ انہوں نے ایک دو مرتبہ رضیہ سے بھی پوچھا کہ بیٹا جاوید کچھ پریشان ہے؟ کہیں آفس کی طرف سے کوئی پریشانی تو نہیں؟ اور آج انہیں بیٹے کے دو جملوں سے اندازہ ہوگیا کہ بیٹے کے دل میں بدگمانی پیدا کی جا رہی ہے اسے مجھ سے دور کرنے کے لیے۔
اماں: اوہو… میں سمجھ گئی، بیٹا رضیہ یہاں آئیں، کیا آپ نے مجھے کہا تھا کہ آپ کی طبیعت خراب ہے، آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانا ہے؟
رضیہ: وہ امی… میں نے تو… چھوڑیں، جو کچھ ہوا رہنے دیں ناں۔
اماں رضیہ کو جاوید کی نظروں سے گرانا نہیں چاہتی تھیں، لیکن اسے تنبیہ کرنا بھی ضروری تھا، تاکہ اس ہنستے بستے گھرانے میں بدگمانی پیدا کرکے دراڑیں نہ ڈالے۔ اماں نے دونوں میاں بیوی کو اپنے سامنے بٹھایا، پھر بڑی سنجیدگی سے گویا ہوئیں: رضیہ آپ کی شادی کو آٹھ نو مہینے ہوگئے ہیں اور آپ نے شروع کردیں یہ بدگمانی پیدا کرنے والی باتیں…! آپ اپنے شوہر کو بتائیں یا میں بتائوں؟ حالانکہ میں کسی کے سامنے جوابدہ نہیں، لیکن مجھے تو افسوس اپنے بیٹے پر ہورہا ہے۔ اکثر بیویاں ایسا کرتی رہتی ہیں لیکن بیٹا افسوس ہے۔ جاتے ہوئے رضیہ سے میں نے پوچھا کہ بیٹا آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہے؟ کہنے لگی: امی مجھے سستی ہورہی ہے، طبیعت میں سستی ہے، آپ میری بھی یہ چند چیزیں لے آئیں، اب میں اس حالت میں تو جا نہیں سکتی۔ لہٰذا ہم دونوں ماں بیٹی چلی گئیں۔ بیٹا رضیہ بولیں یہ بات تھی یا نہیں…؟
رضیہ: (گھبرا کر) وہ امی میں نے جاوید سے یہ کہا…
جاوید: رضیہ مجھے بہت افسوس ہوا تمہاری بات سے۔ امی میرا قصور ہے کہ میں آپ سے بدگمان ہوگیا۔
اماں: بیٹا، سعادت مند اولاد تو وہ ہے جو دوسروں کے بہکائے میں آکر ماں باپ سے بدگمانی نہ کرے اور نہ دور ہوجائے۔ مجھے رضیہ سے نہیں تم سے شکایت ہے۔
جاوید نے ماں کو گلے سے لگا کر معافی مانگی۔
اماں: اب رضیہ کو ڈانٹنا نہیں، جو ہوا درگزر کرو تم بھی اور میں بھی… لیکن رضیہ آپ آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گی جس سے ہم سب کے درمیان غلط فہمیاں اور بدگمانیاں جنم لیں۔
…٭…٭…
عالیہ: امی میں بچوں کو اسکول سے لے کر تھوڑی دیر امی کے پاس چلی جائوں گی، اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں۔
ساس: صحیح ہے بیٹا، کھانا تو بنا لیا ناں تم نے؟
عالیہ: جی امی۔
ساس: (فون پر بیٹے سے) دیکھے اپنی بیوی کے لچھن… اکثر اُس کا وتیرہ یہی ہے، بچوں کو اسکول سے لینے کے بہانے ماں کے ساتھ گھومنے پھرنے نکل جاتی ہے، اگر کچھ کہوں تو زبان چلتی ہے اس کی قینچی کی طرح۔ اب یہی دیکھو آدھے گھنٹے کا کہہ کر گئی ہے، ابھی تک نہیں آئی۔
بیٹا: اماں آپ اس کو سمجھائیں، میں تو آفس میں ہوتا ہوں۔
ساس: بس بیٹا وہ تو ہر معاملے میں اپنی من مانی کرتی رہتی ہے۔
عالیہ کا شوہر ماں کی روز روز کی شکایتوں کی وجہ سے بیوی سے بدظن ہوتا گیا اور بے رخی برتنے لگا۔ اس طرح دونوں میاں بیوی کے درمیاں فاصلے پیدا ہوگئے جس کا اکثر ننھے بچوں پر سب سے زیادہ زیادہ پڑا۔
…٭…٭…
دینِ اسلام میں رشتوں، ناتوں کے درمیان مضبوطی پیدا کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے، جبکہ آج کل گھروں میں، اور دفتروں وغیرہ میں بھی لوگ اپنے ذاتی مقاصد کے حصول اور دوسروں کو سامنے والے کی نظروں سے گرانے کے لیے دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں، یعنی اپنی طرف سے کوئی غلط بات اس طرح بیان کرنا کہ دو لوگوں کے درمیان غلط فہمی اور بدگمانی جنم لے… اور اس طرح مفاد پرست ان کے رشتوں، ناتوں میں دراڑیں پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے دینِ اسلام نے جھوٹ بولنے، بدگمانی پیدا کرنے یا بدگمان ہونے، اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ ایسے مفاد پرست لوگ اکثر اپنے مقصد میں کامیاب تو ہو جاتے ہیں لیکن دیر سویر اُن کے اعمال کی قلعی کھل جاتی ہے تو دوسروں کی نظروں سے خود بھی گر جاتے ہیں، یعنی دوسروں کے لیے جو گڑھا کھودتے ہیں اس کی نذر خود بھی ہو جاتے ہیں، لوگوں میں ان پر سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔
سورۃ الحجرات اصلاحِ معاشرہ کے لیے بہترین نقاط کی تعلیم سے نوازتی ہے۔ اس کی آیت 6 میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر لے آئے تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر، تو تحقیق کرلیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نقصان پہنچا بیٹھو کسی گروہ کو نادانستہ، اور ہونا پڑے تمہیں اپنے کیے پرنادم۔‘‘
اسی طرح اسی سورۃ مبارکہ میں آپس میں ایک دوسرے کی صلح کرانے کی بھی تلقین کی گئی ہے، نہ کہ دو گروہ یا دو افراد کے درمیان غلط فہمیاں یا دروغ گوئی کے ذریعے بدگمانی پیدا کرنے کو کہا گیا ہے۔ آج ہمارے اردگرد ایسا ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ مملکتوں اور اداروں سے لے کر عام لوگوں کے درمیان بھی لڑائی فساد پیدا کرنے کا سامان پیدا کیا جارہا ہے۔ لہٰذا کسی بھی شخص کے خلاف دل میں نفرت پیدا کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے معلومات حاصل کر لیں۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو درگزر اور صبر و تحمل سے کام لینا افہام و تفہیم کی نشاندہی ہے۔ ایک صاحب اِدھر اُدھر کی غلط باتوں کو ذہن میں بٹھا کر بیوی کو طلاق دے بیٹھے، پھر ساری زندگی ہاتھ مَلتے رہ گئے۔ اپنا بھی نقصان کیا اور بیوی کو بھی زندگی بھر کا دکھ دیا۔ ویسے بھی میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا کرنے والا شیطان کا دوست ہے، اور اُس کی اس حرکت پر سب سے زیادہ شیطان ہی خوشی محسوس کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو راہِ ہدایت پر چلائے تاکہ ہم معاشرتی زندگی کو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے باعثِ تسکین بنائیں۔ آمین
آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! کیا میں تمہیں تمہارے بہترین لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: ہاں ضرور دیں۔ آپؐ نے فرمایا: بہترین لوگ وہ ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آجائے۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے بدترین لوگوں کے بارے میں بتائوں؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ہاں ضرور خبر دیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہارے بدترین لوگ وہ ہیں جو چغل خوری کرتے پھرتے ہیں، دوستوں کے درمیان تعلقات خراب کرتے ہیں اور اللہ کے نیک بندوں کے درمیان جھگڑے فساد کی خواہش رکھتے ہیں۔‘‘
(المعجم الا وسط للطبرانی 423 حدیث حسن)
اللہ ہمیں ایسے بد ترین لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین

حصہ