رئیس امروہوی محبتوں کے سفیر تھے‘ پروفیسر جاذب قریشی

631

ڈاکٹر نثار احمد نثار
۔12 دسمبر 2018ء کو بزمِ نگارِ ادب کے زیر اہتمام وفاقی محتسب کے دفتری ہال میں رئیس امروہوی کانفرنس اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر جاذب قریشی نے کی۔ سرور جاوید‘ عبدالمالک غوری اور سید انوار حیدر مہمانان خصوصی تھے۔ مہمانان اعزازی راشد نور نصیرالدین بدایونی تھے۔ سلمان صدیقی اور حجاب فاطمہ نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ساجدہ سلطانہ نے تلاوتِ کلام ِمجید کی سعادت حاصل کی۔ تاج علی رانا نے نعت رسولؐ پیش کی۔ یہ پروگرام دو حصوں پر مشتمل تھا پہلے دور میں رئیس امروہوی کے فن اور شخصیت پر گفتگو کرنے والوں میں پروفیسر جاذب قریشی‘ سرور جاوید‘ عبدالمالک غوری‘ سید انوار حیدر‘ راشد نور‘ سلمان صدیقی اور فیروز ناطق خسرو شامل تھے۔ فیروز ناطق خسرو نے کہا کہ رئیس امروہوی اور ان کے خاندان میں خوش گوار تعلقات تھے۔ اس موقع پر انہوں نے رئیس امروہوی کا تحریر کردہ خط پیش کیا۔ سید انوار حیدر نے کہا کہ رئیس امروہوی وسیع القلب انسان تھے وہ ہر مذہب کے ماننے والوں سے محبت کرتے تھے۔ وہ ایک پُرکشس شخص تھے انہیں بہت سے علوم پر دسترس حاصل تھی۔ سرور جاوید نے کہا کہ وہ ڈان اخبار کے رپورٹر کی حیثیت سے رئیس امروہوی کے قتل پر سب سے پہلے ان کے گھر پہنچے تھے اس وقت رئیس امروہوی شدید زخمی حالت میں تھے اسپتال پہنچنے تک وہ زندہ تھے لیکن زیادہ خون بہنے کے سبب انہوں نے اسپتال میں دم توڑ دیا۔ اس وقت کی پولیس نے ان کے قتل پر معمول کی کارروائی کی۔ رئیس امروہوی کے قتل سے کراچی میں دہشت گردی کا آغاز ہوا۔ 1988ء میں ان کا قتل ہوا لیکن ان پر بہت کم گفتگو کی گئی یہ ہمارے لیے ایک المیے سے کم نہیں۔ رئیس امروہوی بڑے انسان تھے‘ مانک جی اسٹریٹ کراچی میں ان کی ادبی محافل ہوتی تھیں۔ وہ روحانیت کے بھی ماہر تھے وہ ادبی تقریبات کی جان تھے۔ انہوں نے طنزیہ اور فکاہیہ کالم نگاری بھی کی لیکن وہ اپنے قطعات کے سبب زیادہ جانے پہچانے جاتے ہیں۔ قطعہ نگاری کے باعث ان کی شاعری پس پردہ چلی گئی اب ان کی شاعری نہیں پڑھی جارہی۔ اگر جوش کے لہجے کا کوئی بڑا شاعر ہے تو وہ رئیس امروہوی تھے ان کی شاعری کو Publish کیا جانا چاہیے انہوں نے جوش ملیح آبادی کی ادبی روایات کو آگے بڑھایا ہے‘ وہ مجلسی آدمی تھے لوگوں کے مسائل حل کرکے بہت خوشی محسوس کرتے تھے مقام افسوس یہ ہے کہ ہم نے رئیس امروہوی کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جس کے وہ مستحق تھے۔ بہرحال سخاوت علی نادر نے آج رئیس امروہوی کانفرنس منعقد کرکے ایک قابل تعریف کارنامہ انجام دیا ہے۔ عبدالمالک غوری نے کہا کہ رئیس امروہوی نے کراچی کا آشوب لکھا انہوں نے معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل اجاگر کیے وہ اردو ادب میں گراں قدر اثاثہ چھوڑ گئے ہیں لیکن یہاں کوئی ایسا انتظام نہیں ہے کہ ان کی شخصیات اور فن پر کام جاری رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ رئیس امروہوی کی مختلف جہتوں پر مطالعاتی ریسرچ سے ہمارے سامنے ان کا ویژن آئے گا جس کی روشنی میں ہم اپنا لائحہ عمل طے کرکے ایک ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔ صاحبِ صدر پروفیسر جاذب قریشی نے خطاب میں رئیس امروہوی کو شاند دار خراج عقیدت پیش کیا اس موقع پر انہوں نے ’’دیوار پر دائرے‘‘ کے عنوان سے ایک پُر مغز مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ آج کی گفتگو سن کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ رئیس امروہوی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ وہ واقعی زندہ شخصیت کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے شعر و ادب کی بساط سجا رکھی تھی جس پر ان کی نثری تحریروں کے اور شاعری کے مہرے گردش کرتے رہتے تھے۔ تقریباً 60 برس کی بازی گری میں جو تربیت اور مہارت انہوں نے حاصل کی وہ کم ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ رئیس امروہوی کی بنیادوں میں فارسی‘ اردو اور ہندی کی مطالعاتی روایات کا لہو دوڑ رہا ہے۔ غالب اور اقبال کی ان کی رضاعتوں میں خصوصیت کے ساتھ شریک رہے انہوں نے غالب کی نفسیات اور عقلیت پسندی کو اپنے فکری اظہار کا وسیلہ بنایا انہوں نے اقبال کی طرح بیسویں صدی کے معروضی موضوعات کو علم و آگہی کی نظر سے دیکھا اور استفادہ کیا۔ رئیس امروہوی کے موضوعات میں نفسیات و مابعد النفسیات‘ عجائب نفس‘ جنسیات‘ توجیہات و مراقبے‘ جنات اور ہپناٹزم‘ عالمِ برزخ‘ عالم ارواح اور حاضراتِ ارواح‘ المیہ مشرقی پاکستان‘ طبعیات اور مابع الطبعیات کے علاوہ طنزیات وغیرہ بھی شامل ہیں۔ تنقید و تبصرے بھی ان کے مزاح کا حصہ تھے۔ ان کی جو کتب ہمارے سامنے ہیں ان کی ’’الف‘ اور ’’پسِ غبار‘‘ تو بنیادی کتابیں ہیں اس کے علاوہ ملبوسِ بہار‘ بہ حضرتِ یزداں اور نسیم السحر کو کچھ نئی اور کچھ پرانی نظموں اور غزلوں کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے۔ ’’انامن الحسین‘‘ میں رئیس امروہوی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نعتیں کہی ہیں انہوں نے پہلی غزِل 1931ء میں کہی تھی جس کا مطلع ہے:

قصہ نہ پوچھ مجھ سے شبِ انتظار کا
ہر اشک آئنہ ہے مرے حالِ زار کا

رئیس امروہوی کی غزل اپنے آہنگ اور اپنی لفظیات میں جدید و قدیم مضامین کا آئینہ ہے ان کے ہاں ہجرت کا غم پوری شدت سے نمایاں ہے وہ اپنے دور کے بہت بڑے مفکر اور فلسفی انسان تھے ان کی شاعری کا بیشتر وجود خارجی اور داخلی صداقتوں کی گواہی دیتا ہے۔ انہوں نے باقاعدہ کسی فلسفے یا کسی خصوصی نظریے کی تبلیغ نہیں کی لیکن ایسا ضرور ہے کہ وہ شاعری میں علم و فکر کی روایت کے ساتھ غم عشق سے زیادہ غمِ جہاں کی افادیت کو سامنے لائے ہیں ان کی اردو شاعری پر فارسی شاعری کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ رئیس امروہوی کے لیے یہ اعزاز ہی کیا کم ہے کہ وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے قطعہ نگار ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے علم و فن سے استفادہ کریں۔ سخاوت علی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ رفتگانِ علم و ادب کے لیے پروگرام کرتے رہیں ان شاء اللہ ہم اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں مصروف عمل رہیں گے۔ اس پروگرام کا تمام کریڈٹ مالک غوری کے سر ہے کہ جن کے تعاون کے ہم شکر گزار ہیں۔ تقریب کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس میں پروفیسر جاذب قریشی‘ سرور جاوید‘ انوار حیدر‘ غلام علی وفا‘ علی اوسط جعفری‘ اختر سعیدی‘ راشد نور‘ پروین حیدر‘ فیاض علی فیاض‘ حامد علی سید‘ احمد سعید خان‘ جمیل ادیب سید‘ عارف شیخ‘ محسن سلیم‘ احمد جہانگیر‘ افضل ہزاروی‘ اصغر خان‘ عاشق شوکی‘ ساجدہ سلطانہ‘ علی کوثر‘ تاج علی رانا‘ مہر جمالی‘ سخاوت علی نادر اور حجاب فاطمہ نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔

شاعری بھی فنونِ لطیفہ کی اہم شاخ ہے‘ سلمان صدیقی

شاعری بھی فنون لطیفہ کی ایک اہم شاخ ہے لیکن یہ ودیعت الٰہی ہے‘ ہر شخص شاعری نہیں کرسکتا۔ یہ ایک خداداد صلاحیت ہے جس کو مناسب انداز میں اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ شاعر بہت حساس ہوتا ہے وہ جو کچھ دیکھتا ہے اس کو شاعری بنا کر پیش کر دیتا ہے لیکن وہ اپنے ذاتی تجربات اور داخلی حسیات کا اظہار بھی کرتا ہے اچھا شاعر وہ ہوتا ہے جو معاشرے کے ساتھ جڑا ہو کیوں کہ ادب اور زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان خیالات کا اظہار سلمان صدیقی نے بزم یارانِ سخن کراچی کی جانب سے منعقدہ مشاعرے کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرے ہر زمانے کی ضرورت ہے‘ شعر و ادب کی آبیاری ہمارا فرض ہے اس وقت کراچی میں ادبی پروگرام بہت ہو رہے ہیں اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ابھی صاحبِ ذوق موجود ہیں اور ہم اپنی روایات نئی نسل تک پہنچا رہے ہیں۔ مہمان خصوصی سید فیاض علی نے کہا کہ آج کی یہ مختصر شعری نشست اس لحاظ سے بہت کامیاب ہے کہ آج منتخب کلام سنایا گیا ہے۔ آج سامعین بھی موجود ہیں جو مشاعرے کے حسن کو دوبالا کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر صنفِ سخن مشکل ہے لیکن غزل کہنا اس حوالے سے مشکل ہوتی ہے کہ اس کے دو مصرعوں میں مکمل مضمون باندھنا پڑتا ہے۔ شاعری خونِ دل مانگتی ہے‘ یہ ایک فل ٹائم جاب ہے جو لوگ ایسا نہیں کرتے شاعری کی دیوی ان سے ناراض ہو جاتی ہے۔ اس مشاعرے کی نظامت سخاوت علی نادر نے کی۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ اختر سعیدی‘ علی اوسط جعفری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ احمد سعید خان‘ محسن سلیم‘ شیخ عارف‘ حامد علی سید‘ نجیب عمر‘ صفدر علی انشاء‘ الحاج یوسف اور ذوالفقار حیدر پرواز نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔

رسا چغتائی کی یاد میں بزم نگار ادب پاکستان کا مشاعرہ

گزشتہ دنوں دبستان کراچی کی معروف اور فعال تنظیم بزم نگارِ ادب اور دبستان سخن نے یادِ رفتگان کے سلسلے میں رسا چغتائی کی یاد میں کورنگی کراچی میں ایک مشاعرہ منعقد کیا جس کی صدارت سرور جاوید نے کی۔ غلام علی وفا مہمان خصوصی اور جمیل ادیب سید مہمان اعزازی تھے۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام مجید اور نعت رسول مقبولؐ سے ہوا۔ اس موقع پر جمیل ادیب سید نے کہا کہ رسا چغتائی ایک قادرالکلام شاعر اور نہایت نفیس انسان تھے۔ انہوں نے زندگی بھر ادب کی خدمت کی ان کی شاعری ہر زمانے میں زندہ رہے گی۔ غلام علی وفا نے کہا کہ رسا چغتائی ادبی منظر نامے کا اہم حصہ تھے وہ منکسرالمزاج انسان تھے اور شاعری کے حوالے سے بھی انتہائی معتبر تھے‘ وہ مشاعروں میں بہت کم جاتے تھے لیکن انہوں نے شاعری میں بہت نام کمایا۔ سرور جاوید نے کہا کہ رسا چغتائی محبتوں کے آدمی تھے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے مختلف گوشے ہمارے سامنے ہیں تاہم سہل ممتنع میں ان کا جواب نہیں تھا۔ وہ ایک ایسے ادارے سے وابستہ تھے جہاں ان کی معقول آمدنی تھی ان کے دوست ان کے انتظار میں ہوتے تھے۔ رسا چغتائی اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر کسی بھی ہوٹل میں اپنے دوستوں کی تواضع کرتے تھے۔ وہ بہت صاف گو تھے‘ کبھی بھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ وہ اپنے عہد کے بڑے شاعر تھے۔ نادر علی سخاوت نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ پروین حیدر‘ سخاوت علی نادر‘ یوسف چشتی‘ علی مبارک‘ محسن سلیم‘ افضل ہزاروی‘ تاج علی رانا‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر‘ کامران طالش اور دیگر نے اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ