سائبان

273

فرخندہ شہاب بنت ِ پروفیسر عبدالغفور احمد
سائبان، ٹھنڈی چھائوں، سایہ دار درخت… جب یہ الفاظ آتے ہیں تو ایک ہی نام دماغ میں آتا ہے ’’باپ‘‘۔ بے شک باپ اپنی اولاد کے لیے ایک سائبان کی طرح ہی ہوتا ہے۔ آج سے چھ سال قبل 26 دسمبر 2012ء کو ہمارے سر سے یہ سائبان اٹھ گیا، ہمارے پیارے ابا جی (پروفیسر عبدالغفور احمد) اس فانی دنیا سے رخصت ہوکر ابدی زندگی کی طرف روانہ ہوئے۔ ہماری پیاری والدہ محترمہ 23 اکتوبر 2008ء کو ہم سے جدا ہوئیں۔ اللہ ہمارے والدین اور تمام مرحومین کو غریقِ رحمت کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرے، آمین۔
ماں باپ جیسی محبت دنیا کے کسی اور رشتے میں نہیں ہے۔ والدین کی کمی کوئی پوری نہیں کرسکتا۔ امی، ابا جی کی یاد ہر دَم، ہر پل ساتھ رہتی ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اور زیادہ بڑھتی جارہی ہے۔ یقینا امی اور ابا جی اچھی جگہ ہیں لیکن زندگی میں والدین کی کمی کا احساس کانٹے کی طرح چبھتا رہتا ہے۔ دعا ہے اللہ ہم سب اولادوں کو اپنے والدین کے لیے صدقۂ جاریہ بنا دے، آمین۔
ابا جی کو ہم نے اپنے بچپن سے سیاست کے کاموں میں مصروف دیکھا، لیکن وہ ہماری تعلیم و تربیت سے غافل نہیں رہے۔ اپنے کردار سے ہم سب کو اسلام کے اصولوں پر چلنا سکھایا۔ ہم بچوں میں سے اگر کسی نے ابا جی سے کسی چیز کی فرمائش کی تو وہ حتی الامکان پوری کرنے کی کوشش کرتے۔ بڑے بھائی طارق فوزی نے ایک مرتبہ ٹیبل ٹینس کی میز کی فرمائش کی، اگلے دن وہ گھر آگئی۔ چھوٹی بہن نے سائیکل کی فرمائش کی جو فوراً پوری کردی گئی۔ 2008ء میں امی کے انتقال کے بعد ہم نے ابا جی کا ایک نیا روپ دیکھا، وہ ہم سب اولادوں کے لیے ماں اور باپ دونوں کا کردار ادا کرنے لگے۔ سیاسی مصروفیات کم کردیں، ہم سب اولادوں کو بھرپور وقت دیا، اپنی شفقت اور پیار کے سائبان تلے ایسے رکھا کہ ہم امی کو بھی ابا جی میں ہی ڈھونڈنے لگے۔
ہم سب بہن بھائی جو کبھی اباجی کے پاس بیٹھنے اور بات کرنے سے جھجکتے تھے، اب ابا جی سے کھانے کی میز پر ہر موضوع پر بات کرنے لگے۔ اباجی اکثر اپنے ماضی کے بارے میں بتاتے کہ کس طرح غربت کی زندگی گزاری اور کٹھن حالات میں تعلیم حاصل کی، اور اپنی محنت اور لگن سے یہ مقام حاصل کیا۔ اباجی کا کہنا تھا کہ انسان کو اپنا ماضی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ کبھی اچھے موڈ میں ہوتے تو لطیفے بھی سناتے۔ ان لطیفوں میں بھی اصلاح کا پہلو ہوتا تھا۔ اباجی نے بیٹوں سے زیادہ اپنی بیٹیوں کو چاہا۔ لوگوں کی مخالفت کے باوجود ہم بہنوں کو شارع فیصل پر واقع ایک بڑے اسکول میں تعلیم دلوائی۔ ہم بہنوں میں سے کوئی بہن اباجی کے کمرے میں اُن سے ملنے جاتی تو اباجی کھڑے ہوکر ملتے اور سر پر ہاتھ پھیرتے۔ بیٹیوں کا جو مقام اسلام میں ہے اباجی اس پر عمل کرتے تھے۔ میں اکثر سوچتی ہوں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بیٹیوں کی اچھی تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارت دی ہے، امی ابا جی نے ماشاء اللہ ہم چھ بہنوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی اور سب کی وقت پر شادی کی۔ دعا ہے اللہ ہمارے والدین کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔
پروفسیر عبدالغفور احمد… دنیا جنہیں منکسرالمزاج، درویش صفت، سچائی کا پیکر، دیانت دار رہنما، جماعت اسلامی کا روشن ستارہ، روادار، امانت دار کے نام سے یاد کرتی ہے، ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ پارلیمنٹ کے رکن رہے، وفاقی وزیر بنے، سینیٹر بھی رہے، مگر کبھی کروفر کو قریب بھی پھٹکنے نہ دیا۔ دامنِ کردار کو کبھی میلا نہ ہونے دیا۔ سیاسی جماعتوں کے جب جب اتحاد بنے، سیکریٹری جنرل کے لیے نگاہِ انتخاب ابا جی پر ہی ٹھیرتی۔
شاعر اجمل سراج صاحب نے ابا جی کے بارے میں کیا خوب اشعار کہے ہیں:

دیکھ کے اُن کو دل یہ کہتا تھا
اہلِ ایمان ایسے ہوتے ہیں
روزِ آخر ہو جن کے پیشِ نظر
وہی انسان ایسے ہوتے ہیں
ایسے ہوتے ہیں مطمئن انسان
ہاں میری جان ایسے ہوتے ہیں

حصہ