زبان دانی ضروری ہے

727

مریم شہزاد
اچھا لکھنے کے لیے بہت سارا پڑھنا ضروری ہوتا ہے، اور بہت سارا پڑھنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ BBA, MA یا MBBS یا کوئی اور ڈگری لے لیں۔ صرف ڈگری لینا ہی پڑھنا نہیں ہوتا… پڑھنا تو بس پڑھنا ہوتا ہے، اور اگر بچپن ہی سے پڑھنے کی عادت ہوجائے تو آپ سائن بورڈ بھی پڑھتے ہیں اور روٹی کو لپیٹے اخبار بھی۔ شکرقند کھاتے ہیں تو اس کاغذ کو بھی پڑھتے ہیں جس میں شکرقند ہوتی ہے۔ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے دیواروں کو بھی پڑھتے ہیں اور رکشہ اور بسوں کے پیچھے لکھے اشعار اور تحریریں بھی۔ گویا یہ طے ہے کہ تحریر کے لیے مطالعہ ضروری ہے۔
مطالعے سے جہاں معلومات میں اضافہ ہوتا ہے وہیں ذخیرۂ الفاظ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ الفاظ کے درست ہجے اور جوڑتوڑ کا بھی پتا چلتا ہے۔ ورنہ آج کل تو بچوں کے ساتھ ساتھ کچھ والدین اور اساتذہ کو بھی درست تلفظ نہیں معلوم ہوتے۔ بچوں کی انگلش ٹھیک کرانے کی تو سرتوڑ کوشش کی جاتی ہے مگر صرف پڑھانے کی حد تک۔ انگلش الفاظ کے معنی بھی انگلش میں ہی بتائے جاتے ہیں، حالانکہ اگر کسی علم کو صحیح طور پر سیکھنا ہو تو اس کو اپنی مادری زبان میں منتقل کرکے سیکھنا چاہیے۔ مگر آج کا بچہ تو اپنی مادری زبان ہی غلط بولتا ہے۔ غلط کو ’’گلط‘‘، مرغی کو ’’مرگی‘‘، قینچی کو ’’کینچی‘‘ اور چیخنا کو ’’چیکھنا‘‘ صرف بولتا ہی نہیں، لکھتا بھی اسی طرح ہے۔ باقی رہی سہی کسر آج کے موبائل پیغامات نے پوری کردی ہے جن میں رومن اردو یا انگلش جو لکھی جاتی ہے وہ قابلِ عبرت ہے۔ لیکن اب چوں کہ مطالعہ کم ہوتا جارہا ہے اور بچوں کو بھی اس طرف راغب نہیں کیا جا رہا، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے نئے لکھنے والوں کو نئی نسل سے متعارف کرایا جائے جو ذہنوں کو کھول سکیں، اور ایسے اساتذہ دیے جائیں جو علم کو ذہنوں میں منتقل کریں، نہ کہ مضمون، تشریحات، نوٹس کا رٹا لگوائیں۔
اب اسکولوں اور کالجوں میں تشریح، مضمون اور دوسرا مواد سب ریڈی میڈ فوٹو اسٹیٹ دیا جارہا ہے جس سے ذہنوں کو زنگ لگ رہا ہے، اور یہ بہت خطرناک ہے۔ کیوں کہ جب ذہن صحیح سمت میں نہیں جائے گا تو نئے تجربے، نئے خیالات سامنے نہیں آئیں گے اور نہ ہی نئی تخلیقات اور نئے رجحانات کو فروغ ملے گا۔
اب اس کے لیے ضروری ہے کہ بچوں اور بچیوں میں پڑھنے کی لگن ابھاریں اور ان کو ایسا ادب (لٹریچر) پڑھنے کے لیے دیں جو ان کے لیے دل چسپی کا باعث ہو، ان کے ذہن کے دریچے کھولنے کا سبب بنے۔ صرف پیار و محبت پر مبنی ڈرامے اور کہانیاں ہی زندگی نہیں… زندگی تو ایک بہت وسیع کتاب ہے اور ہر شخص کی زندگی دوسرے کی زندگی سے مختلف ہے، اور جب پڑھنے کی لگن ہوگی تو انسانوں کو بھی پڑھنے کا شوق ہوجائے گا جس سے مزید راہیں کھلیں گی۔ زندگی تو مصور کی نظر میں ایک ایسا کینوس ہے جس پر رنگ بکھیرتے ہی چلے جائو، رنگ ختم ہوجائیں گے مگر کینوس پھر بھی مکمل نہ ہوسکے گا۔
اس ضمن میں ایک بات اور بھی بہت ضروری ہے کہ آج کا دور کیوں کہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور صحیح اور غلط باتیں بہت جلد ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کو منتقل ہو جاتی ہیں، اس لیے اس بات کی احتیاط بھی رکھی جائے کہ ہمارے بچے جو کچھ پڑھ رہے ہیں وہ ان کو عقیدہ اسلام سے بدظن یا منکر نہ کر دے، یا ایسا نہ ہو جائے کہ وہ بلا سوچے سمجھے کسی ایسی تحریک کا حصہ بن جائیں جو بظاہر ظلم کے خلاف ہو، مگر درحقیقت ظلم کا ساتھ دینے والی ہو۔ اسی لیے شروع سے ہی بچوں کو صحیح غلط کی پہچان بھی دیں اور پڑھنے کی طرف راغب بھی کریں۔

ورق تمام ہوا مدعا باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے

حصہ