مطالعۂ سیرت اور اس کے عوامل

858

راحیلہ چوہدری
دنیا کی سب سے زیا دہ خو ب صورت چیز نیک سیرت ہے۔اس لیے سیرت کی تعمیر و تشکیل کی بہت اہمیت ہے۔دنیا کے معا ملات حل کرنے اور سچائی کی تلاش کے لیے پا کیزہ سیرت نہایت اہم ہے۔اللہ تعا لیٰ نے انسان کے اندر جو قو تیں اور صلاحیتیں رکھی ہیں وہ سب انسان کے مقصد وجود کے لیے ضروری ہیں۔یہ تمام قوتیں مل کر ایک کردار کی تشکیل کرتی ہیں۔دنیا کی ہر چیز کسی نہ کسی چیز سے بنی ہوئی ہے ۔زندگی ایک تربیت گاہ ہے حق تعالیٰ مربی و معلم ہیں۔واقعات وہ آلات ہیں جن کے ذریعے وہ ہماری سیرت کی تکمیل کر رہے ہیںاور پاکیزہ سیرت سے ہی اعمال صالحہ وقو ع پزیر ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کواپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور اسلام کی تعلیم کے مطابق عبادت محض نماز، روزہ اور حج وغیرہ کا نام نہیں بلکہ اسلام نے عبادت کے مفہوم کو نہایت وسیع معنوں میں لیا ہے۔ اس لیے اسلام نے افراد کے تزکیہ نفوس اور تعمیر سیرت کے لیے ایسا نقشہ بنایا ہے جوتمام نقشوں سے اپنے مقصد میں بلندتر ہے۔ یعنی اسلام کے پیش نظرایسے انسان تیا ر کرنا مقصد ہے جو با خلاق اللہ ہوں،صحیح معنوں میں خلیفۃاللہ بن کر زمین میں کام کریںاور اس کام کے صلے میں اللہ کا تقرب حاصل کرے۔آپؐ نے افراد کی تربیت کے لیے جن با توں کو سب سے زیا دہ اہمیت دی اور جن کو کردار کی پختگی کے لیے لازم قرار دیاہے۔وہ درج ذیل ہیں:
علم:علم کا حصول تخلیق انسانی کا ایک اہم جز ہے۔یہی وہ جو ہر ہے جس کی بنا پر انسان کو نوری مخلوق فر شتوں پر بھی فضیلت عطا ہوئی ہے ۔اللہ تعا لیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتے ہیں،’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا،کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں۔ فرمایا،میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔ اس کے بعد اللہ نے آدمؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا ،اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتا‘‘۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ہر طرح کی خیر و بھلائی کی طرف وہی شخص لپکتا اور اس کو قبول کرتا ہے جو علم و آگہی کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے اور جس کا ضمیر اپنے پروردگار کی عطا کردہ معرفت کی روشنی سے منور ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب علم ہو گا تواس کو وہ بصیرت حاصل ہو گی جس سے وہ عبادت کی روح اور اس کے فوائد و حقیقت کو سمجھ سکے گا اور پھر اس کو عبادت کا حقیقی لطف بھی حاصل ہو گا۔
تزکیہ نفس:کسی بھی مثالی اور صحیح اسلامی تعلیمات کی حامل شخصیت کی تعمیر کے لیے تزکیہِ نفس نہا یت ضروری امر ہے۔اس کے بغیر صحیح معنی میں مثالی شخصیت کی تعمیر ممکن نہیں۔ اسی لیے اسلام میں تزکیہِ نفس پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے جو مقا صد بیان فرمائے ہیںان میں سے ایک تزکیہ نفس بھی ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ،’’درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اُن کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے‘‘۔
تزکیے کے معنٰی طہارت کے ہیں۔ یعنی آپؐ لوگوں کو ظاہری اور باطنی نجاستوں سے پاک کرتے ہیں۔ انسان کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ جس طرح شریعت ظاہر کے لیے ہے اسی طرح باطن کے لیے بھی ہے۔ جس طرح انسان کو بے شمار بیماریاں لا حق ہوتی ہیں اسی طرح اس کے قلب کے اندر بھی بے شمار بیماریاں ہیں۔ کفر و شرک، بغض و حسد،کینہ و تکبر، حبِ مال و جا ہ وغیرہ۔انسان کا دل اس کے جسم کا با دشاہ ہے اور تمام اعضا کا سردارہے۔ دل کی اصلاح اور پا کیزگی پر تمام جسم انسانی کی اصلاح کا مدار ہے۔اس لیے تزکیہ نفس بہت ضروری ہے
اخلاق:افراد کی تر بیت کا انحصار ان کی اخلاقی حالت کی بہتری پر ہوتا ہے۔اگر یہ پہلو کمزور رہ جا ئے تو آئندہ ترقی تو کجا، تنزلی کا امکان غالب رہتا ہے۔اس لیے آپ ؐ نے اس پہلو پر بھر پور توجہ مرکوز فرمائی۔آپؐ نے اپنی بعثت کا اولین مقصد ان الفاظ میں بیان فرمایا۔’’بلا شبہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعو ث کیا گیا ہوں‘‘۔آپؐ ایسے بلند پایہ اخلاق کے حامل تھے کہ آپ ؐکے جانی دشمن بھی آپؐ کی متفقہ حیثیت ’’الصادق و الامین‘‘پر حرف گیری کی جرات نہ کر سکے اور آپؐ کو اپنی امانتوں کے لیے سب سے زیادہ قابل اعتبار شخص آپؐ کو ہی تصور کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمرؓفرماتے ہیں،آپؐ فرماتے تھے:’’کہ تم میں بہتر وہ لو گ ہیں جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہوں‘‘۔
صدق و امانت:فلاحی ریاست کی تشکیل کے لیے مطلوب افراد کی تربیت میں بھی صدق و امانت کی اہمیت تسلیم شدہ امر ہے ایک مسلمان کے لیے۔ہر معاملے میں سچائی سے وابستہ رہنا اور تمام مسا ئل کو اسی زاویہِ نگاہ سے دیکھنا۔از حدضروری ہے۔اس کے بر عکس جھوٹ ایک بہت بڑی لعنت ہے۔یہ ایسی بُرائی ہے جو جھوٹے شخص کے اندرونی فساد کی غماز ہے۔ اس لیے آپؐ نے صاف صاف فرما دیا کہ مومن کا جھوٹ سے کوئی تعلق نہیں۔آپؐ نے فرمایا،’’مومن کے اندر تمام خرابیاں پائی جا سکتی ہیں سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔‘‘
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں،’’اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘سچا اور کھرا عمل یہی مطلوب ہے، کیو نکہ اس میں کھوٹ کا کوئی تصور نہیں ہوتا اور وہ اخلاص سے پُر ہوتا ہے۔آپؐ کے زمانے میں اور آپؐ کے بعد کافی عرصے تک مسلمانوں کا یہی طرز عمل تھا ان کے آپس کے تعلقات فضائل و کردار کی بنیاد پر تھے۔ انسان کے اندر پیدا ہونے میں بھی کذب کا ہا تھ ہوتا ہے۔اگر انسان فطرتاراست باز اور حق گو طبیعت کا مالک ہو تو وہ قطعا ًاس فعل مذموم کی جانب راغب نہیں ہو گا۔اس لیے امانت کا صدق کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
عفو و در گزر:کسی بھی معا ملے میں جذبات سے مغلوب ہوناہوش و خرد سے بے گانہ کر دیتا ہے اور غصے کی حالت میں کیے جانے والے اکثر بلکہ تقریبا تمام افعال بعد میں پچتاوے کا با عث بنتے ہیں۔یہ نقصان عام طور پر فردِ واحد کے ساتھ خاص ہوتا ہے لیکن ایک فلاحی اور مثالی ریاست میں ایسے مغلوب الغضب افراد سے پورے معا شرے کا متاثر ہونا بدیہی امر ہے۔ غصے کی ان تباہ کا ریوںاور مسلم سوسا ئٹی پر پڑنے والے اس کے منفی و مہلک اثرات کو دیکھتے ہوئے۔آپؐ نے اس کی بیخ کنی پر بھر پور انداز میں توجہ دیتے ہوئے علم و عفو اور در گزر کا درس دیا۔
غرض سیرت کے مطالعے سے حاصل ہونے والے یہ وہ عوامل ہیں۔کہ اگر کوئی انسان علم حا صل کرنے کے مقصد کو جان لے،تزکیہ نفس کرنا سیکھ لے،اپنے اخلاق کو سنوار لے، اخوت صدق و امانت اور عفو و درگزر جیسی صفات کو اپنا لے۔تو ایک متوازن شخصیت سامنے آ ئے گی اور انسان دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر لے گا۔

حصہ