توہینِ انسانیت

256

خاور عباس جتوئی
اپنے کام پر جاتے وقت میرا ایک گلی کے پاس سے گزر ہوا تو مجھے شور سنائی دیا ،میں آگے بڑھا اور دیکھا کہ ایک خوش لباس شخص ایک سر جھکائے غریب اور لاچار شخص کو گالیاں دینے اور مارنے میں مصروف ہے۔ وہاں پر کچھ اور لوگ بھی موجود تھے جو یہ سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔ میرے دریافت کرنے پر کسی نے کہا کہ یہ خوش لباس شخص اس سرجھکائے ہوئے شخص کا مالک ہے اور یہ لاچار شخص اسکا نوکر ہے ۔جس سے شائد کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے اس لاچار شخص کے ساتھ ساتھ گالیاں دینے والے اس خوش لباس شخض پر رحم آیا اور ساتھ ہی وہاں کھڑے ان تماشائیوں پر افسوس ہوا۔
جو ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کی توہین ہوتے خاموشی سے دیکھ رہے تھے ،جو خود اپنے آپ میں انسانیت کی توہین ہے ۔ وہ شخص خود تو خوش لباس تھا مگر انسانیت کو برہنہ کر رہا تھا۔ اس کے اندر انسانیت کا احساس نہ ہونے کے برابر اور اپنے مالک ہونے کا احساس کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور ایک انسان کو ہی انسان کی توہین کرتے دیکھا گیا ہے۔اگر ہم صرف ایک چیز انسانیت کو سمجھ لیں، انسانیت کو اپنا لیں اور خود کو انسانیت کی توہین سے بچا لیں تو شاید کبھی بھی کسی تعلق اور رشتے کی توہین نہ ہو کیونکہ ابتدا انسانیت ہے اس کے بعد رشتے اور تعلقات آتے ہیں۔
کسی انسان کو گالی دینا، لعنت کرنا، غیبت، چغلی یا اْس پر بہتان لگانا، اس پر آوازیں کسنا، راہ چلتے اس کی عزت اْچھالنا، اس کا مذاق اْڑانا یا بغیر تحقیق کہ کسی کو کافر، بدعتی و مشرک کہنا، یہ سب توہین ہی کہلائیں گے۔ اس سب کلچر، تہذیب، ثقافت کے ذمہ دار ہم سب مسلمان ہیں۔
اب جو اہل علم ہیں یہ ان کے ذمے ہے کہ وہ انسانیت کا درس دیں اور انسان کے انسان پر جو حقوق ہیں ان کادرس دیں۔ لوگوں میں آگاہی پیدا کریں،نفرتیں ختم کرنے کی بات کریں۔ اس دور میں جہاں ہر طرف نفرتوں کے بیج بونے والے انسانیت کے دشمن ہیں اہل علم ان کے ہر وار سے آگاہی دیں۔ہمیں درس انسانیت کوعام کرنا ہوگا تب ہی معاشرے کے ہر فرد کو اس کے حقوق ملیں گے اورتب ہی ہم اس معاشرے سے برائی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

حصہ