آزادی کے بعد اردو شاعری میں طنز و مزاح

1369

پروفیسر توقیر احمد خان
‘‘خاک نشیں’’
ہائے وہ خاک نشیں جو عوض بستر ناز
زیر سر ہاتھ دھرے ہاتھ پہ سوجاتے ہیں
کتنے ایسے ہیں کہ پڑ رہتے ہیں چوراہوں پر
کتنے ایسے ہیں کہ فٹ پاتھ پہ سوجاتے ہیں
‘‘خیرات’’
نہ کر ایمان کے دعوے خدا را
اگر یہ تیرے قابو کا نہیں ہے
امور خیر پر اترانے والے
خدا خیرات کا بھوکا نہیں ہے
سیاسی حمق اور بے شعوری پرتحریر کرتے ہیں:
‘‘البتہ’’
کوڑی جو لائے بحث سیاست میں دور کی
کوئی نہ کوئی اس نے حماقت ضرور کی
تسلیم ہے جہاں کو ذہانت حضور کی
البتہ کچھ کمی ہے سیاسی شعور کی
_قتیل شفائی کی شاعری میں بھی طنز ومزاح کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ ان کے طنز کا نشانہ زیادہ تر دقیانوسیت،رجعت پسندی اورہٹ دھرمی ہے۔ طنزیہ اشعار میں مزاح کی ہلکی سی رمق بھی ملتی ہے:
‘‘وقت کا پہیہ’’
کہو کہ پیچھے گھمائے نہ وقت کا پہیہ
اگر ستاروں کی جانب قدم بڑھانا ہے
پسند اب بھی ہے جس کو سواری اونٹوں کی
اسے بتاؤ جہازوں کا یہ زمانہ ہے
‘‘لاؤڈاسپیکر’’
جو صدا حسب ضرورت تھی سہانی کل تک
اب وہی آندھی وہی طوفان بن کر رہ گئی
لاؤڈ اسپیکر جب سے ملّاؤں کے ہاتھ آیا قتیل
ایک اچھی شے وبال جان بن کر رہ گئی
طنزومزاح نگارشعرا میں دلاور فگار بہت ممتاز ومقبول ہیں۔ ظرافت ہی ان کی کل کائنات ہے۔ مکتب فکرکے لحاظ سے دلاور فگار اکبر?، جعفری? اور رئیس امروہوی سے متاثر ہیں۔ وہ ترقی پسندی اوررجعت پسندی میں اعتدال کے قائل ہیں۔ ان کا انداز تحریر نہایت شگفتہ اور دھلا منجھا ہے۔کلام میں علمی لیاقت کے ساتھ مزاح کی دلآویز چاشنی ان کا جوہر خاص ہے جس میں طنز کی رمق بھی شامل ہوتی ہے۔ اس طرح وہ طنزنگار کم اور ظرافت نگار زیادہ ہیں۔ مزاح نگاری کے میدان میں انھوں نے ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی خامیاں ان کی مزاح نگاری کے عنوانات ہیں۔ تقسیم ہند کے بعدہندوستان اورپاکستان دونوں ملکوں میں اردو بے چاری تخت? مشق ستم بنی اور اس عہد کے تقریباً تمام ہی طنز ومزاح نگاروں نے اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور کہا مگر ارد وزبان کے ان طنزیہ مرثیوں میں دلاورفگار کی نظم بے حد مقبول ہوئی جس میں علم وآگہی کے علاوہ فکری پہلوبھی نمایاں ہے:
‘‘ماتم حق اردو’’:
اے غالب مرحوم یہ تو نے بھی سنا ہے
اردو پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
بزم ادب و علم میں ہنگامہ بپا ہے
اردو جسے کہتے ہیں گرفتار بلا ہے
کم بخت کے سر پر ملک الموت کھڑا ہے
اے خاصہ خاصان ادب وقت دعا ہے
جس باغ کو خود تیری توجہ نے سنوارا
جس باغ کو چکبست نے شاداب بنایا
جس باغ میں تھے نغمہ سرا جرات و انشا
جس باغ میں بولا تھا کبھی طوطی سودا
اس باغ فصاحت میں گدھا رینگ رہا ہے
اے خاصہ خاصان ادب وقت دعا ہے
دنیا نے اگرچہ اسے پیچھے کو دھکیلا
ہر ظلم وستم اردو کے جانباز نے جھیلا
رکتا نہیں اب اس سے ترقی کا یہ میلا
بڑھتا نہیں آگے کو یہ ٹٹو ہوا ٹھیلا
منزل کے قریب آ کے دھرا ٹوٹ گیا ہے
اے خاصہ خاصان ادب وقت دعا ہے
تعمیر کی گردن میں ہیں تخریب کے پھندے
اردو کی ترقی کے لیے ہوتے ہیں چندے
کھا جاتے ہیں ان کو بھی کچھ اللہ کے بندے
للہبچائے یہ ادب خور درندے
کتوں کو سر راہ ادب چھوڑ دیا ہے
دلاورفگارخاص مشرقی انداز کے طنزومزاح نگار ہیں۔ سماجی مسائل لایعنی شاعری، تقدیر وتخلیق، پیشے، محفلیں اورمشاعرے وغیرہ ان کے طنز کا ہدف بنتے ہیں۔ سماج کے ناکارہ عناصر کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ خودفراموشی اور ناعاقبت اندیشی کا تمسخر اْڑاتے ہوئے ‘‘تعلیم مشترک’’ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
ہم بارہویں کلاس میں جب اسٹوڈنٹ تھے
گھنٹہ تھا ایک روز کسی لکچرار کا
وہ نوٹس بولتے تھے مگر ایک طالبہ
افسانہ لکھ رہی تھی دل بے قرار کا
دلاورفگار کو پیروڈی لکھنے میں کمال حاصل ہے۔ پیروڈی سنجیدہ شاعری کو مضحکہ خیز بنانے کا نام ہے۔ شاعر کا اصل کلام اس کی شوخی وظرافت میں چھپ جاتا ہے۔ جیسے شوکت ?تھانوی نے اقبال کے ایک شعر کی ایسی پیروڈی کردی کہ پیروڈی اصل شعر سے زیادہ مشہور گئی اور آج بھی لوگ اسے لطف کے ساتھ دوہراتے ہیں۔
شکوہ ہے فرشتوں کو کم آمیز ہے مومن
حوروں کو شکایت کہ بہت تیز ہے مومن
دلاورفگار نے بھی معروف شعرا کی غزلوں اور نظموں پر پیروڈیاں کی ہیں۔ وہ اقبال کی نظموں کی پیروڈی کرکے باغ ظرافت کوقہقہہ زار بناتے ہیں:
‘‘شکوہ’’
کیوں گنہگار بنوں فرض فراموش رہوں
کیوں نہ تنخواہ طلب کرکے سبکدوش رہوں
طعنے غیروں کے سنوں اورہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں کوئی بدھو ہوں کہ خاموش رہوں
جرات آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ تنخواہ کا خاکم بدہن ہے مجھ کو
فگار کی پیروڈیوں میں انسانی دکھوں کے تئیں ہمدردی کا جذبہ ملتا ہے۔ بھوک، افلاس، استحصال، غریبی اور فاقہ مستی کے خلاف صدائے احتجاج بھی ہے:
ہے بجا صدقہ و خیرات میں مشہور ہیں ہم
حق محنت نہ ملے جس کو وہ مزدور ہیں ہم
فقر و فاقہ کی قسم سرمد و منصور ہیں ہم
ہوگئے پانچ مہینے کہ ‘‘بدستور’’ ہیں ہم
حاکما شکو? ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
آگیا عین پڑھائی میں اگر پے کا خیال
ماسٹر بھول گیا ماضی و مستقبل و حال
رہ گیا بورڈ پہ لکھا ہوا آدھا ہی سوال
آگئے یاد گرامر کے عوض اہل و عیال
گیٹے وشیلی و خیام و ولی ایک ہوئے
بھوک دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
پنجاب بورڈ کے ایک سنٹرنے امتحان کے پرچے میں رومانی سوال پوچھا تودلاورفگار نے ایک بڑی شگفتہ نظم ‘‘عشق کا پرچہ’’ لکھی۔ شگفتگی،مسرت اورشادمانی دلاورفگار کے کلام کا جوہر ہے ان کی نظمیں روح میں تازگی اور گدگداہٹ اورچلبلاپن پیدا کرتی ہیں۔
‘‘عشق کا پرچہ’’
محو حیرت ہوں کہ وہ سنٹر تھا کتنا خوش خیال
عشق کے بارے میں پوچھا جس نے پرچہ میں سوال
ایسے ہی سنٹر اگر کچھ اور پیدا ہوگئے
بھائیوں کو دیکھنا بہنوں پہ شیدا ہوگئے
عام ہوگی عاشقی کالج کے عرض و طول میں
لیلیٰ و مجنوں نظر آئیں گے ہر اسکول میں
عشق کے آداب لڑکوں کو سکھائے جائیں گے
غیر عاشق جو ہیں وہ عاشق بنائے جائیں گے
عاشقوں کو علم میں پرفیکٹ سمجھاجائے گا
عشق اک کمپلسری سبجیکٹ سمجھا جائے گا
امتحاں ہوگا تو پوچھے جائیں گے ایسے سوال
اپنی محبوبہ کے بارے میں کیجئے کچھ اظہارِ حال
انڈیا کاایک نقشہ اپنی کاپی پر بناؤ
اور پھر اس میں حدود کوچہ جاناں دکھاؤ
کچھ مثالیں دے کے سمجھاؤ یہ قول مستند
عشق اوّل در دل معشوق پیدا می شود
ایک تحقیقی مقالہ لکھ کے سمجھاؤ یہ بات
شاخ آہو پر ہی کیوں رہتی ہے عاشق کی برات
عشق اک سائنس ہے یا آرٹ سمجھا کر لکھو
یا یہ دونوں عشق کا ہیں پارٹ سمجھا کر لکھو
اپنے اندازے سے طول شام تنہائی بتاؤ
صرف تخمیناً شب ہجراں کی لمبائی بتاؤ
چھوٹے چھوٹے نوٹس لکھو ذیل کے ٹاپکس پر
شام غم، شام جدائی، درد دل، درد جگر
آج اپنے ملک میں عاشق ہیں کتنے فی صدی
منتہی ان میں ہیں کتنے اور کتنے مبتدی
وصل کی درخواست پر کس کی سفارش چاہیے
عشق کے پودے کو کتنے انچ بارش چاہیے
کون سے آلہ سے دیکھیں حسن جانا نہ؟ لکھو
حسن کی مقدار جو ناپے وہ پیمانہ؟ لکھو
مادر لیلیٰ نے تو لیلیٰ نہ بیاہی قیس کو
تم اگر لیلیٰ کی ماں ہوتے تو کیا کرتے لکھو
ایک عاشق تین دن میں چلتا ہے انیس میل
تین عاشق کتنے دن میں جائیں گے اڑتیس میل
آپ کرسکتے ہیں ان میں سے کْل بارہ سوال
بدخطی کے پانچ نمبر ہیں رہے یہ بھی خیال
(جاری ہے)

حصہ