انسان کا ارتقا ایک سائنسدان کی نظر میں

1366

انسان کا ارتقا کیسے ہوا، اس کی جستجو ہر انسان کو ہمیشہ رہی ہے۔ وہ لوگ جن کا ذہن یا دل و دماغ باغیانہ نہیں بلکہ وہ اپنی تخلیق کو اپنے خالق کا کارنامہ سمجھتے ہیں یا باالفاظ دیگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا اور اس کائنات کا خالق کوئی ہے اور وہ اتنا قادر مطلق ہے کہ جو چاہے سو کر سکتا ہے، وہ تو کسی حد تک اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ اتنی بڑی کائینات کو چلانے والا ایک ہی ہو سکتا ہے کیونکہ اگر کائنات کے دعویدار ایک سے زیادہ ہوتے تو کائنات ہر وقت کسی بڑی تباہی و بربادی کا شکار نظر آتی اور ہر دعویدار اپنی برتری اور باد شاہی کو ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہی نظر آتا۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی بد بخت ہیں جو سرے سے کسی الٰہ کے قائل ہی نہیں ہیں اور ان کے نزدیک انسان اور کائنات کا ارتقائی عمل کسی حادثے کا شاخسانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ تو انسان کو کسی خالق کی اعلیٰ ترین تخلیق خیال کرتے ہیں اور نہ ہی اس بات کے قائل ہیں کہ انسان اس زمین پر کسی دوسرے مقام سے منتقل کیا گیا ہے۔ نہ ہی یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ وہ اس زمین پر بھی کسی نہ کسی مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جس طرح اس زمین کے دیگر جاندار اپنی اپنی زندگی گزار رہے ہیں اسی طرح انسان بھی پیدا ہوتا ہے، بڑا ہوتا ہے اور مرجاتا ہے۔ اس کی زندگی کے ساتھ کوئی مقصد بندھا ہے اور نہ ہی مرنے کے بعد وہ اپنی گزاری ہوئی زندگی کا جوابدہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام افراد جن کی ایسی عامیانہ سوچیں ہیں ان کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ سخت نادانی کا شکار ہیں اور عقل و سمجھ سے عاری ہیں کیونکہ وہ تمام افراد جو عقل و دانش، شعور و فہم رکھتے ہیں ان کی باتیں ہی کچھ اور ہوتی ہیں۔ ایسی عقل دانش کی حامل ایک شخصیت کا نام ‘ڈاکٹر ایلس سلور’ بھی ہے جس نے انسان کی زندگی اور اس کے ارتقا کے بارے میں ایسے تہلکہ خیز انکشافات کیے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ الہامی کتابوں اور قرآن کریم فرقان حمید میں جو جو باتیں انسان یعنی آدم و حوا کے حوالے سے بیان کی گئی ہیں عین ان ہی باتوں کے مطابق اور وہی مناظر جو قرآن میں تخلیق انسان کے بارے میں بیان کیے گئے ہیں، ان کے پہلے ٹھکانے کے متعلق جس مقام کا ذکر ہے ، اور پھر ان کو بطور سزا جس طرح ایک اچھے مقام سے اس زمین پر بھیجا گیا ہے، بالکل اسی بیان کے مطابق ساری منظر کشی کرتے ہوئے جو کچھ بھی ڈاکٹر ایلس سلور نے سائنسی تحقیق کی ہے وہ ایسی چشم کشا حقیقت ہے جس سے وہی انکار کرسکتا ہے جس کے دل و دماغ پر مہر لگا دی گئی ہو۔
مجھے ایسی سب معلومات ایک آڈیو ویڈیو کی شکل میں واٹس اپ پر کسی نے ارسال کی ہیں جسے بار بار سن کر اور پھر ضبط قلم کرنے کے لیے بار بار بند کرکے دوبارہ آن کرکے مزید قلم بند کرنے کی مسلسل کوشش کے بعد اس بات کی توفیق نصیب ہو رہی ہے کہ اسے ان قارئین تک بھی پہنچا کر ثواب حاصل کر سکوں جو واٹس اپ جیسی سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ بہت سے بد بخت انسان جو الہامی کتابوں، تورات، انجیل، زبور، آسمانی صحوف اور قرآن کو (نعوذباللہ) کوئی اہمیت تک نہیں دیا کرتے لیکن ان کو سائنسدانوں، مغربی دانشوروں اور فلسفیوں کی باتیں پیغمبروں کی زبان سے نکلی ہوئی پاکیزہ ہدایتوں سے بھی زیادہ مستند، درست اور صحیح لگتی ہیں، ان کو ایک سائنسدان ‘ڈاکٹر ایلس سلور’ کے حوالے سے انسان کے ارتقا کی تحقیق کے بارے میں لکھی گئی کتاب کے کچھ حوالے سناتا ہوں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ جو کچھ ڈاکٹر صاحب نے برس ہا برس کی تحقیق کے بعد کہا ہے وہی سب کچھ گزرجانے والے انبیائے کرام سیکڑوں سال قبل بیان کر چکے ہیں۔
بات صرف اتنی ہی ہے کہ جب بھی ذہن کو طاغوتی فکر و سمجھ سے آزاد کرکے خالص اس نیت سے سوچا جائے گا کہ انسان اپنی اور کائنات کی حقیقت کو جان سکے تو جو بات بھی اس کے دل و دماغ میں ترازو ہو گی وہ اللہ کی کتابوں اور خاص طور سے قرآن میں بیان کیے گئے الفاظ کے مطابق ہی ہوگی کیونکہ یہ اللہ کی کتاب ہے جو تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے ہے اور اس میں جو کچھ بھی درج ہے وہ انسانوں کے لیے قیامت تک کے لیے ہے۔ لہٰذا جب بھی کوئی اپنی اور کائنات کی حقیقت جاننا چاہے گا اسے وہی کچھ حاصل ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں بیان کردیا ہے۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ قرآن کا ایک ایک لفظ تخلیق انسانی نہیں بلکہ آسمان کی لوح میں بھی ایسا ہی طبع شدہ ہے جیسا اس دنیا میں چھاپا گیا ہے۔ جب یہ طے ہے کہ قرآن کا ایک ایک حرف اللہ ہی کا تخلیق کردہ ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کوئی عقل و فہم رکھنے والا تخلیق انسان یا کائنات کے بارے میں سوچے تو اس کی سوچ اس حقیقت سے مختلف ہو جس کا ذکر قرآن میں بیان کیا گیا ہو۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ڈاکٹر ایلس سلور کی کتاب ‘ہیومنز آر ناٹ فرام ارتھ’ میں سامنے آرہی ہے۔ قارئین پڑھنے کے بعد خود ہی اس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا اس کتاب میں کوئی ایسی حقیقت بھی سامنے آئی ہے جو اللہ کی کتاب میں بیان کردہ باتوں سے مختلف ہو؟۔ مجھے امید ہے کہ جو بھی اس کو آغاز سے اختتام تک پڑھے گا اسے بہت لطف آئے گا اس لیے کہ جو لطف کسی سچی بات کو پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے، فسانوں اور کہانیوں سے حاصل نہیں ہوا کرتا۔
مشہور سائنسدان ڈاکٹر ایلس سیلور نے اپنی کتاب ‘ہیومنز آر ناٹ فرام ارتھ’ میں دعویٰ کیا ہے کہ انسان اس سیارے کی مخلوق نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے پر تخلیق کیا گیا اور پھر اسے اس کے موجودہ سیارے یعنی زمین پر بھیج دیا گیا یا پھینک دیا گیا۔ ڈاکٹر ایلس ایک سائنسدان اور امریکہ کے ایک اعلیٰ مصنف بھی ہیں ان کے الفاظ پر غور کریں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ الفاظ ایک ایسے سائنسدان کے ہیں جو کسی مذہب کے کہنے پر ایسا نہیں کہہ رہا بلکہ اس کے پیچھے ایک گہری تحقیق پوشیدہ ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ انسان جس جگہ یا سیارے پر تخلیق کیا گیا وہ جگہ اسقدر آرام دہ اور اعلیٰ تھی کہ اس جگہ کو وی وی آئی پی کہا جاسکتا ہے۔انسان کسی بہت ہی نرم و نازک جگہ پر رہتا تھا اور اس کی اسی نازک مزاجی کی وجہ سے اسے اپنی روٹی روزی تک کے لیے کچھ نہیں کرنا پڑتا تھا۔ یہ اتنی لاڈلی مخلوق تھی کہ اسے ایسے اعلیٰ مقام پر رکھا گیا تھا جہاں اذیت و تکلیف کا نام و نشان تک نہ تھا۔ سردی یا گرمی کا کوئی تصور نہیں تھا بلکہ ہر وقت بہار جیسا موسم رہتا تھا۔ وہاں سورج جیسی دھوپ اور الٹرا وائیلٹ شعائیں نہیں ہوتی تھیں جو اس کی برداشت سے باہر اور تکلیف دہ ہوتی ہوں۔ پھر ہوا یوں کہ اس سے کوئی بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی جس کی وجہ سے اسے اس آرام دہ ماحول اور عیاشی کی جگہ سے اس زمین پر پھینک دیا گیا۔ لگتا ہے کہ جس ہستی نے اسے اس سیارے یا اس آرام دہ ماحول سے نکال کر اس زمین پر لا پھینکا وہ کوئی بہت ہی طاقتور ہستی تھی۔ اس کے اختیار میں سارے سیاروں اور ستاروں کا نظام تھا اور وہ اتنی قدرت والی تھی کہ جس کو بھی چاہتی سزا یا جزا کے طور پر کسی بھی سیارے یا ستارے میں اسے بھیج سکتی تھی۔ وہ مخلوقات کو پیدا کرنے پر بھی قادر تھی۔ ڈاکٹر سلور کا کہنا ہے کہ زمین ایک ایسا سیارہ تھا جس کا ماحول ایک جیل کی مانند ہے جہاں سزا کاٹنے کے لیے کسی کو بھی بھیجا جاتا ہوگا۔ زمین کی شکل ایک کالا پانی جیسی جیل کی طرح ہے جہاں خشکی کے چاروں جانب پانی ہی پانی ہے۔
ڈاکٹر سلور ایک سائنسدان ہیں جو ہر بات کا تجزیہ اور تحقیق ٹھوس حقائق کی بنیاد پر کرتے ہیں اور وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کے پیچھے دلائل کا ایک ایسا انبار ہوتا ہے جس کی تردید ممکن نہیں ہوتی لہٰذا انسان کے بارے میں جو تجزیہ وہ کر رہے ہیں اس کی بنیاد چند دلائل پر ہے جس کو ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔
1۔ زمین کی کشش ثقل اور جس جگہ سے انسان زمین پر پھینکا گیا ہے یا آیا ہے دونوں میں بہت فرق ہے۔ جس سیارے یا جگہ سے انسان آیا ہے وہاں کی کشش ثقل بہت کم تھی جس کی وجہ سے اس کا وہاں چلنا پھرنا اور بوجھ اٹھانا بہت آسان تھا۔ یہی وجہ ہے اسے یہاں کمر درد جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے جبکہ زمین کے اپنے جانوروں کے ساتھ اس قسم کا کوئی مسئلہ نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ زمین کے جانوروں کی ریڑھ کی ہڈی زمین کے متوازی ہوتی ہے جبکہ انسان کی ریڑھ کی ہڈی یعنی کمر زمین سے 90 درجے کے زاویے پر ہے۔
2 – انسان کے جسم میں بیماریوں کے جو بھی اسباب پائے جاتے ہیں وہ اس زمین کے کسی بھی جاندار میں نہیں پائے جاتے۔ ڈاکٹر سلور مزید فرماتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایک بھی انسان ایسا دکھا دیں جس میں کوئی ایک بھی بیماری نہیں ہو تو میں اپنے دعوے سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہوں جبکہ میں ہر جانور کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ کسی وقتی بیماری کے علاوہ کسی ایک مرض میں بھی گرفتار نہیں ملے گا۔
3۔ ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کو چکر آنے لگتے ہیں اور وہ سن اسٹرک کا شکار ہو سکتا ہے جبکہ اس زمین کے جانور مہینوں دھوپ میں رہنے کے باوجود نہ تو کسی جلدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور ناہی ان پر سن اسٹروک یا کسی اور بیماری کا حملہ ہوتا ہے۔
4۔ ہر انسان ہر وقت یہی محسوس کرتا ہے اور ہر وقت اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا گھر یہ زمین نہیں یا یہ سیارہ نہیں۔ کبھی کبھی اس پر ایسی اداسی طاری ہوجاتی ہے جیسے کسی پردیس میں رہنے والے کو اپنا دیس یاد آنے پر ہو جاتی ہے خواہ وہ اپنے ہی دیس میں اپنے خونی رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نہ بیٹھا ہو۔
5۔ زمین پر رہنے والے تمام جانوروں کے جسم کا درجہ حرارت موسم کی کیفیتوں کے مطابق خودکار طریقے سے ریگولیٹ ہوجاتا ہے۔ مثلاً اگر وہ تیز دھوپ میں ہوں تو دھوپ کی حدت کے مطابق ان کے بدن کا ٹمپریچر ریگو لیٹ ہو جائے گا لیکن اگر اسی وقت بادل آجائیں تو ان کے جسم کا درجہ حرارت سائے کے مطابق ریگولیٹ ہوجائے گا جبکہ انسان کے ساتھ ایسا کوئی نظام نہیں۔ اس کے بر عکس یہ دیکھا گیا ہے کہ انسا ن بدلتے موسم کے ساتھ بیمار ہونے لگتا ہے جس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ موسمی بخار کا مرض صرف انسانوں میں ہی پایا جاتا ہے۔
6۔ انسان زمین پر پائے جانے والے جانوروں سے بہت مختلف ہے۔ اس کی ڈی اینس اور جینز کی تعدا زمین کے تمام جانوروں سے بہت مختلف اور کہیں زیادہ ہے۔
7۔ زمین کے اپنے جانوروں کو اپنی غذا حاصل کرنا اور اس کو کھانا نہایت آسان ہے۔ وہ اپنی غذا براہ راست کھا تے ہیں جبکہ انسان کو اپنی غذا کھانے کے لیے ہزاروں جتن کرنے پڑتے ہیں۔ پہلے اسے اپنی غذا نرم کرنی پڑتی ہے تب کہیں جا کر اس کی غذا اس کے معدے کے لیے قابل قبول بنتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان اس سیارے کی مخلوق نہیں۔ جب یہ اپنے سیارے یا مخصوص جگہ پر تھا تب اسے کھانے کے لیے کسی جتن کی ضرورت نہیں تھی بلکہ وہاں اس کے لیے ہر شے ایسی تھی کہ بغیر کسی محنت وہ اس کو جب چاہے کھا سکتا تھا۔ ڈاکٹر سلور مزید کہتے ہیں کہ انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جو اپنی دو ٹانگوں سے چلتا ہے اور یہی اس بات کی نشانی ہے کہ وہ اس سیارے کی مخلوق نہیں ہے۔
8۔ انسان کو سونے اور لیٹنے کے لیے بہت نرم و گداز بسترے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ زمین کے باسیوں یعنی جانوروں کو اس قسم کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے سیارے پر بہت ہی نرم و نازک بچھونوں پر سونے کا عادی تھا۔
9۔ انسان زمین کے کسی بھی جانور، بندر، لنگور یا بن مانس کی ارتقائی شکل نہیں ہے بلکہ اسے کوئی مخلوق زمین پر لاکر پھینک گئی ہے۔ انسان کو جس سیارے پر تخلیق کیا گیا تھا وہاں کا ماحول زمین کی طرح نہیں تھا۔ اس کی جلد جس طرح سورج کی شعاؤں یا تپش سے جھلس کر سیاہ ہو جاتی ہے وہاں ایسا نہیں تھا۔ یہ اتنا نازک مزاج تھا کہ اس کے لیے ایسی سختی سہنا ناقابل برداشت تھا لہٰذا یہ آج بھی اپنی مرضی کا ماحول بنا کر رہنے کہ جد و جہد میں مصروف کار ہے۔ اسے وہاں جیسا آرام میسر تھا وہ اسے یہاں بھی اپنے لیے میسر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے والدین جیسے وہاں بڑے بڑے کشادہ محلوں میں رہا کرتے تھے اسی طرح کے محل اور مکانات بنانے میں مصروف نظر آتا ہے جبکہ اس زمین کی اپنی مخلوقات ان ساری احتیاجات سے بے نیاز ہیں۔
زمین کی مخلوقات عقل سے عاری ہیں اس لیے ان کو اپنے لیے کچھ اچھا سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر سلور کہتے ہیں کہ انسان بھی اس سخت ماحول میں رہ کر سخت مزاج ہوتا جارہا ہے جبکہ اس کی اصل محبت فنون لطیفہ سے تھی لیکن اس کو سزا کے طور پر اس تیسرے درجے کے سیارے پر بھیج دیا گیا ہے تاکہ یہ اپنی سزا کاٹ کر اپنے اصل سیارے پر جا سکے۔
ڈاکتر ایلس سلور کہتے ہیں کہ انسان کو زمین پر آئے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے بلکہ اسے یہاں آئے ہوئے چند ہزار سال ہی گزرے ہیں۔ یہ اپنے زندگی کو اپنے پرانے سیارے کے عیش و آرام کے مطابق بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کبھی گاڑی ایجاد کر تا ہے کبھی موبائل فون۔ اگر اسے لاکھوں سال گزر چکے ہوتے تو یہ ساری چیزیں جو آج نظر آرہی ہیں یہ لاکھوں برس پہلے ایجاد ہو چکی ہوتیں۔
کیونکہ انسان اشرف المخلوق ہے اور عقل سلیم کا حامل ہے اس لیے اس کے پاس اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی بہترین صلاحیتیں موجود ہیں۔
یہ بات کوئی عام فرد نہیں بلکہ ایک سائنسدان کی ہیں۔ وہ انسانی زندگی کو جس انداز میں بیان کر رہا ہے وہ کوئی کہانی نہیں بلکہ وہ باتیں آسمان کی ہر الہامی کتاب میں اسی طرح بیان کی گئی ہیں۔
ڈاکٹر ایلس سلور نے جو جو دلائل دیئے ہیں اس کی تردید میں آج تک کسی نے بھی کچھ نہیں لکھا۔ یہ سب باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان کی تخلیق اس ہستی نے کی ہے جس کے قبضہ قدرت میں پوری کائنات کا نظام ہے۔ وہ جب جو چاہے بنا سکتا ہے اور جب جس کو چاہے تباہ و برباد کر سکتا ہے۔

حصہ