آصف زرداری کی سیاسی زندگی کیا ختم ہونے والی ہے؟

439

محمد انور
کراچی میں 32 سال تک بادشاہت کرنے والے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی و قائد الطاف حسین کا قصہ تو ماضی کا حصہ بن گیا۔ مسلم لیگ نواز کے بانی و سابق وزیراعظم میاں نوازشریف بھی کھربوں روپے کی جائداد کے حوالے سے جھوٹے بیانات کے بعد ایون فیلڈ مقدمے میں گرفتاری اور سیاست سے نااہلی کے بعد اب سیاست سے عملی طور پر فارغ ہوچکے ہیں اور اب سیاست کے خودساختہ چیمپئن کہلانے والے اور سندھ پر بلاشرکت غیرے 2008ء سے حکومت کے نام پر ’’بادشاہت‘‘ کرنے والے آصف زرداری کی باری آنے کو ہے۔
آصف علی زرداری شاہ عبداللطیف بھٹائی کی دھرتی کے ساتھ جو کچھ کرتے رہے اُس پر ہر عام و خاص کا خیال یہی تھا کہ وہ سیاست کے نام پر ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کو ختم کررہے ہیں۔ بہت سے واقف حال لوگوں کو شک ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اُن کے والد حاکم علی زرداری کے ساتھ جو کچھ کیا تھا اس کا بدلہ وہ ان کی پارٹی اور ان کی اولادوں سے لے رہے ہیں۔
آصف علی زرداری سیاست کے’’فنکار‘‘ بننے سے قبل فلمی اداکار تھے۔
وہ بچپن میں اپنی اداکاری کے جوہر وحید مراد کے بیٹے بن کر دکھا چکے ہیں۔ گو کہ وہ 11، 12 سال کی عمر سے ’’فنکاریاں‘‘ کررہے ہیں۔ انہوں نے ملک کے صدر ہونے کا کردار بھی ’’بہت خوب‘‘ ادا کیا تھا۔ آئینی ترمیم کے بعد صدر کے پاس اختیارات ختم ہونے کے باوجود وہ 2008ء سے 2013ء تک پارٹی کے سربراہ اور مملکت کے صدر بھی رہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی اپنے اشاروں پر مثالی انداز میں چلاتے رہے۔
اب اطلاعات کے مطابق ان کا برا وقت شروع ہونے کو ہے۔ ویسے تو آصف زرداری اس سے قبل بھی جیل جاچکے ہیں۔ اس بارے میں وہ ڈھٹائی سے یہ کہہ چکے ہیں کہ ’’ایسا تو ہوتا ہے ایسے کاموں میں‘‘۔
جعلی بینک اکائونٹس کے مقدمے میں 21 دسمبر کو بیکنگ کورٹ میں پیشی کے موقع پر امکان تھا کہ ان کی عبوری ضمانت میں توسیع نہ کرکے انہیں اور ان کی بہن فریال تالپور کو عدالت سے ہی گرفتار کرلیا جائے، لیکن عدالت نے ان کی اس مقدمے میں عبوری ضمانت کی مدت میں7 جنوری تک توسیع کردی جس کے نتیجے میں ان کی گرفتاری نہیں ہوسکی۔ اس مقدمے میں بینکنگ عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی ضمانت میں 7 جنوری 2019ء تک توسیع کردی۔ چونکہ جمعہ 21 دسمبر کو بینکنگ کورٹ میں پیشی کے موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو خدشہ تھا کہ آصف زرداری اور ان کی بہن کی ضمانت میں توسیع نہیں ہوگی اور دونوں گرفتار کرلیے جائیں گے۔ اس ممکنہ گرفتاری پر فوری احتجاج کے لیے پی پی پی کی قیادت نے تمام پارلیمانی اراکین اور دیگر رہنماؤں و کارکنوں کو کراچی طلب کرلیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود صرف درجنوں افراد ہی کورٹ کے باہر اور اندر جمع ہوسکے تھے۔
عدالت میں پیشی کے موقع پر کارکنان نے کمرۂ عدالت میں گھسنے کی کوشش کی اور آصف زرداری کے حق میں نعرے بازی کی، جس پر عدالت کے جج نے کمرۂ عدالت کی صورت حال پر برہمی کا اظہار کیا۔ دورانِ سماعت عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ اس کیس میں کیا پوزیشن ہے؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے اور اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔
پارٹی قیادت کی طلبی کے باوجود کارکنوں و رہنماؤں کی عدالت کے باہر اور اندر بھرپور حاضری نہ ہونے پر یہ تاثر ملا ہے کہ بیشتر رہنمائوں اور کارکنوں نے اس معاملے سے دور رہنے کو ہی بہتر سمجھا۔ آصف زرداری اور ان کی بہن کی عدالت میں پیشی کے موقع پر متعدد رہنماؤں اور کارکنوں کی عدم موجودگی یقیناً پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور دیگر کے لیے اُس تشویش سے کم نہیں ہوگی جو اُن کی گرفتاری کے خدشات سے پیدا ہوچکی تھی۔ اگر کارکنوں کی طرف سے منہ موڑنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تو یہ یقین کرنا پڑے گا کہ پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کی سیاست کے خاتمے کی ابتدا ہوچکی ہے۔ ایسا اس لیے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ آصف علی زرداری نے اپنے ’’دورِ رہنمائی‘‘ میں پیپلز پارٹی کو بہت پیچھے دھکیل دیا، یا آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان کی وجہ سے پارٹی ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہوئی۔
پیپلز پارٹی کے بیشتر رہنما اور کارکن اس بات کا بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ آصف زرداری نے اپنے آپ کو، اپنے خاندان اور اپنے دوستوں کو نوازنے کے لیے پارٹی کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے، اس لیے اب مزید اُن کی غیر سیاسی سرگرمیوں پر اُن کا ساتھ دینا احمقانہ بات ہوگی۔
یاد رہے کہ 2015ء کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔ اس مقدمے میں یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روپے بتائی گئی تھی۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ہزاروں افراد جن میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد شامل ہے، کا کہنا ہے کہ شریک چیئرمین آصف زرداری جس مقدمے میں ان کی حمایت حاصل کرنا چاہ رہے ہیں اس کا سیاست سے تعلق ہی نہیں ہے۔ ان مقدمات کا تعلق ان کے اپنے ذاتی دوستوں اور رشتوں داروں سے ہے، پارٹی کے معاملات سے ان کا دور کا واسطہ نہیں ہے۔

حصہ