نسیم صاحب بھی خوب ہیں

245

زاہد عباس
حنیف بھائی کا بیٹا بہت تیز موٹرسائیکل چلاتا ہے، کل صدر جاتے ہوئے شارع فیصل پر دیکھا تو بڑی حیرت ہوئی، خاصی تیز موٹر بائیک چلاتا جا رہا تھا، گاڑیوں کے درمیان سے ایسے کٹنگ مارتا جیسے موت کے کنویں میں گاڑی چلا رہا ہو، اسے موٹر سائیکل چلاتے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ یہ بہترین کٹنگ ماسٹر ہے۔ ویسے تو لفظ ’کٹنگ‘ کئی جگہ استعمال ہوتا ہے، مجھے یاد ہے کہ امی، باجی سے کہا کرتی تھیں ’’کپڑوں کی کٹنگ سیکھ لو، شادی کے بعد کام آتی ہے، کہاں لوگوں سے اپنے سوٹ سلواتی پھرو گی!‘‘ یعنی یہاں بھی کٹنگ کی ہی بات کی گئی۔ ناصر کی دکان پر جاکر بیٹھو تو ہر دوسرا شخص بالوں کی کٹنگ پر بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔ پچھلے دنوں نسیم کا بیٹا کسی انگریز گلوکار کی تصویر ساتھ لایا، بولا ’’ناصر بھائی میرے بالوں کی بھی بالکل ایسی ہی کٹنگ کرنی ہے‘‘۔ کٹنگ یہاں تک ہی محدود نہیں، بلکہ آج کل کے نوجوان تو بازار سے نئی پینٹ لاکر اس پرکٹنگ کرکے مختلف ڈیزائن بنایا کرتے ہیں۔ بات یہیں تک محدود نہیں، بلکہ پودوں سے لے کر آنکھوں تک لفظ کٹنگ اپنی اہمیت ثابت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بات کٹنگ کی مختلف اقسام پر ہو رہی ہو اور چائنا کٹنگ کی خصوصیات کا ذکر نہ آئے، یہ انتہائی زیادتی ہوگی۔ لہٰذا آنے والی نسلوں کی معلومات میں اضافے اور اپنے ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے کی غرض سے اس طریقۂ واردات پر بھی لب کشائی کرلیتے ہیں۔
کراچی کے پرانے علاقوں میں جہاں میدان، اسکول اور پارک کی جگہ تھی، وہاں اب بلند و بالا عمارتوں نے لے لی ہے، جس کے بعد شہرِ قائد کے باسیوں کے لیے تفریحی مقامات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ حکومت کی نااہلی اور آنکھیں بند کرنے یا پشت پناہی کے باعث سیاسی جماعتوں، اداروں کے افسران، اور کرپٹ مافیا نے شہر کے رفاہی و فلاحی پلاٹ، ریلوے کی اراضی، نالے، فٹ پاتھ بھی فروخت کردیے۔ اس کرپٹ مافیا کا جہاں بس چلا، اپنا ’’کارنامہ‘‘ دکھا دیا۔ فٹ پاتھ سے لے کر کئی ایکڑ زمینیں کوڑیوں کے مول بیچ دیں۔ ان اداروں کی اگر بات کریں تو ماضی میں جب کبھی انہیں کارکردگی ظاہر کرنا پڑی ہے تو ہاتھ صرف اور صرف غریب پر ہی پڑا ہے۔ کھیل کے میدانوں پر قائم کیے گئے شادی ہالز اور عمارتوں کے سامنے قائم پنکچر کی دکانیں یا پان کے کھوکھوں کو اکھاڑ کر یا ان کا سامان ضبط کرکے اخبار میں تصویر چھپوا لی، مگر ان کے عقب میں بیٹھے بڑے مگرمچھوں پر کبھی بھی ہاتھ نہ ڈالا گیا۔ ہاں اگر بات زیادہ بڑھ جائے تو شہر کے سنسان علاقے میں جاکر چار دیواری کو گرا دیا جاتا ہے، اور دو چار دن بعد یہ چار دیواری دوبارہ قانون کا منہ چڑاتے ہوئے عالیشان انداز میں کھڑی نظر آتی ہے۔ یہی تو چائنا کٹنگ کی وہ خصوصیات ہیں جن کی بنیاد پر اس پروجیکٹ نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی۔ تیزی سے ترقی کرتے اس پروجیکٹ کی یہ بھی خاصیت ہے کہ کوئی محکمہ آپ سے کسی بھی قسم کا پنگا لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے جب متعلقہ محکموں کے افسران محکمے سے زیادہ اپنا گھر چلانے کو ترجیح دیں گے تو اسی قسم کے نتائج برآمد ہوں گے۔
نسیم صاحب بھی خوب ہیں، بولے: ’’میاں تمہیں کیا تکلیف ہے جو چائنا کٹنگ کے بارے میں مستقل لکھ رہے ہو؟ ارے میاں غریبوں کی بات کرو… جوڑنے کی بات کرو، توڑنے کی نہیں۔ تمہیں یہ گھر کیوں برے لگ رہے ہیں؟ لوگوں کے سروں سے چھت چھیننا اچھی بات نہیں۔ ویسے بھی کون سی حکومت گزری ہے جس نے غریبوں کا خیال کیا ہو۔ اگر کسی نے سستے مکانات دے ہی دیے ہیں تو تمہیں کیا بے چینی ہورہی ہے، کیوں بے کار اور فضول باتیں کرتے ہو؟ عقل استعمال کرو اور ایسی باتیں کرنا چھوڑ دو۔ کسی غریب کی بددعا لگ گئی تو بہت نقصان ہوجائے گا اور مفت میں دشمنی بھی مول لو گے۔ لہٰذا اپنے کام سے کام رکھو۔ اور ویسے بھی تم کون ہو اور تم میں ایسے کون سے لعل جڑے ہیں جن کی بنیاد پر تمہاری باتیں مانی جائیں! جن کا کام ہے انہوں نے یعنی عدالتِ عظمیٰ نے بھی تجاوزات کے خلاف کارروائی کو عارضی طور پر روکنے کے احکامات جاری کیے ہیں، اس معاملے میں سیاسی جماعتوں کا کردار بھی قابلِ تحسین ہے، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا اس بارے میں واضح مؤقف ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کے حقوق کا نہ صرف تحفظ کرے گی بلکہ اس آپریشن کے خلاف عدالت میں پٹیشن بھی داخل کرے گی۔ جب کسی کو کوئی اعتراض نہیں تو تمہیں مخالفت کرنے کی کیا پڑی ہے!‘‘
اب نسیم صاحب کی باتوں پر سوائے ہنسنے کے کیا کیا جاسکتا ہے! انہیں اتنی خبر بھی نہیں کہ بات کس پیرائے میں کی گئی ہے۔ جو منہ میں آیا بغیر سوچے سمجھے بول دیا۔ نسیم صاحب باتوں سے دکان دار کم، چائناکٹنگ کے بروکر زیادہ دکھائی دے رہے تھے، جو چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے دیئے گئے فیصلے کو اپنے ذہن کے مطابق معنی پہنا کر مسلسل بولے جارہے تھے۔ اُن کی جانب سے یہی اصول حافظ نعیم الرحمن کے بیان سے متعلق بھی تھا۔ خیر، خاصی دیر اُن کی باتیں سننے سے میرے پیٹ کا مروڑ بڑھنے لگا، اس سے پہلے کہ وہ اپنی اس فضول گفتگو کو مزید طول دیتے، میں نے انہیں روکتے ہوئے کہا:
’’جناب آپ جو کچھ بھی فرما رہے ہیں وہ حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ کراچی میں کی جانے والی چائنا کٹنگ کی مخالفت اور مختلف قبضہ مافیا کی جانب سے کیے جانے والے غیر قانونی اقدامات پر میری جانب سے لکھے جانے والے مضامین کے خلاف بات کرنے سے پہلے یہ ضروری تھا کہ آپ ان حقائق کو دیکھ لیتے جن کی بنیاد پر میں مسلسل کراچی کے اس مسئلے پر لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ میں کراچی کا بیٹا ہوں، اس لیے میرا فرض ہے کہ یہاں کی ایک ایک انچ زمین کا محافظ بنوں، کسی کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ میری زمین پر ناجائز قبضہ کرسکے، یہ میری ذمہ داری ہے کہ اپنے اطراف ہونے والے ہر اُس غیر قانونی عمل کی مزاحمت کروں بلکہ شدید مخالفت کروں جو میرے شہر کی خوبصورتی پر بدنما داغ بن رہا ہو۔ میں ہمیشہ اس قبضہ مافیا کے خلاف لکھنے کی بھرپور کوشش کرتا رہوں گا۔ جہاں تک چیف جسٹس آف پاکستان کے اس فیصلے کا تعلق ہے جس کی مثال نسیم صاحب نے دی، یا ان کی جانب سے کی جانے والی بات کو اپنے معنی پہنانے کی کوشش کی اُس مکالمے کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا ’’ہم نے کراچی میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کارروائی کا حکم دیا، یہاں امن وامان کی صورت حال خراب ہوگئی، کیا اس طرح غیر قانونی قابضین کو چھوڑ دیں؟ لوگ احتجاج شروع کردیں تو کیا حکومت کی رٹ ختم کردیں؟ قبضہ مافیا کے سامنے سر جھکا دیں؟ کراچی کو اسی طرح رہنے دیں؟ ہم کراچی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر آپ لوگوں کو مسئلہ ہے، مصلحت آڑے آرہی ہے۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ میئر کراچی نے اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے!‘‘
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’جو فیصلے ہم نے دیئے تھے ان پر عمل درآمد ہورہا ہے اور آپ کو اور وفاقی حکومت کو پریشانی لگی ہے۔ ہمیں قانون کی بالادستی چاہیے‘‘۔ میئر کا کہنا تھا کہ ہم عمل درآمد کررہے ہیں لیکن درخواست ہے کہ رہائش گاہوں کو نہ توڑا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے گھروں کو توڑنے کا حکم نہیں دیا۔ ہم نے حکم دیا ہے جس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ غیر قانونی طور پر بنائی جانے والی عمارتوں کے خلاف کارروائی جاری رکھی جائے، غیر قانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن کا تسلسل نہیں ٹوٹنا چاہیے، مافیا کے سامنے سر نہیں جھکایا جائے، لوگوں کی بحالی اور متبادل جگہیں دینا حکومت کا کام ہے، یہ تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
اسی طرح جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن کی مخالفت نہیں کررہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی کا یہ بھی کہنا تھا کہ جماعت قبضہ مافیا کے ساتھ کبھی کھڑی نہیں ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ناجائز تعمیرات کی آڑ میں جائز طور پر قائم عمارتوں کے خلاف کارروائی پر جماعت اسلامی آواز بلند کرتی رہے گی اور کسی بھی ایسے عمل کا حصہ نہیں بنے گی جس سے غریبوں کو بے گھر کیا جائے۔
بات بالکل صاف ہوگئی۔ کراچی میں قبضہ مافیا کی جانب سے کی جانے والی چائنا کٹنگ، فٹ پاتھوں پر قبضہ، پارکوں اور رفاہی پلاٹوں پر قائم عمارتوں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات یہاں کے رہنے والوں کے دل کی آواز ہیں۔ لہٰذا نسیم صاحب جیسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل سے اس مافیا کا ساتھ دینے کے بجائے کراچی کے وارث بنیں، تاکہ کراچی پھر سے روشنیوں کا شہر بن سکے۔

حصہ