دہشت گرد

287

سیدہ عنبرین عالم
صائم اپنی بیرک میں بیٹھا اپنے فون پر پرویزمشرف کی تقریر سن رہا تھا۔ ’’سب سے پہلے پاکستان ہی ہماری پالیسی ہے، ہم ہر چیز میں پہلے پاکستان کا مفاد دیکھتے ہیں، ہماری کارگل جنگ بھی پاکستان کے مفاد میں تھی جسے زبردستی ہار میں تبدیل کیا گیا‘‘ پرویزمشرف نے کہا۔ صائم تقریر سنتا جاتا اور جذبات سے لبریز ہوکر سر ہلاتا جاتا۔ وہ پاکستان کے لیے کچھ کرنے کے جذبے سے پاک آرمی میں شامل ہوا تھا، اسے فوج میں بارہ سال ہوچکے تھے، وہ خفیہ اداروں کے لیے کام کرتا تھا، وہ جانتا تھا کہ چاہے کتنا ہی بڑا کارنامہ کیوں ناں انجام دے دے، وہ ہمیشہ گم نام ہی رہے گا۔ مگر نہ اسے نام چاہیے تھا، نہ دولت… وہ تو بس اسلام کے قلعے کو مضبوط دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی زندگی کا کوئی بھروسا نہیں، اس لیے اُس نے کسی کنواری لڑکی سے شادی کرکے اُس کی زندگی برباد کرنے کے بجائے ایک بیوہ سے شادی کرنا مناسب سمجھا، جس کے پہلے سے دو بچے تھے۔ اب ان کی شادی کو آٹھ سال ہوچکے تھے اور وہ دو بیٹیوں کا باپ بن چکا تھا۔
…٭…
’’صائم! یہ ایک خطرناک مشن ہے، آپ کو دو ہیلپر بھی دیے جارہے ہیں، آپ کو معلوم کرنا ہے کہ پاکستان کی سرحد پر واقع بھارتی قونصل خانے میں افغانی وزارتِ خارجہ کے افسر کیا کرنے آئے تھے اور ان کے درمیان کیا معاہدہ طے پایا ہے۔‘‘ کرنل فیاض نے کیپٹن صائم کو حکم دیتے ہوئے کہا۔
’’سر! پہلے بھی ہر مشن مکمل کیا ہے، اب بھی کروں گا۔‘‘ صائم نے کہا، اور زور سے نعرہ لگایا ’’اللہ اکبر‘‘۔
’’ان شاء اللہ…‘‘ کرنل فیاض مسکرائے ’’ہمیں آپ سے یہی امید تھی‘‘۔ انہوں نے کہا۔
…٭…
صائم ایک معذور فقیر کی صورت بنائے بھارتی قونصلیٹ کے آس پاس منڈلاتا رہتا، مگر اتنی سخت سیکورٹی تھی کہ بار بار اسے مار کر بھگا دیا جاتا۔ اسے خطیر رقم دے کر مشن پر بھیجا گیا تھا تاکہ کوئی مشکل نہ ہو۔ اس کے ساتھی افغان وزارتِ خارجہ کی نگرانی کررہے تھے۔ انہوں نے ایک دن صائم کو اطلاع دی کہ تین کم عمر لڑکے روز افغان وزارتِ خارجہ آتے ہیں، ان کو کسی قسم کی ٹریننگ دی جارہی ہے، ان لڑکوں کا پیچھا کیا گیا تو معلوم ہوا کہ چند ہفتوں میں ان کے مالی حالات میں خاصی بہتری آئی ہے۔ ایک لڑکے کی ماں کو کینسر تھا، اس کا بھی علاج شروع ہوگیا، ایک لڑکے کے چار بھائیوں کی اچانک شادی ہوئی اور دلہنوں کے باپوں کو رقم کی فراہمی کا کام بھی اسی لڑکے نے کیا، اور ایک لڑکا جو جھونپڑی میں رہتا تھا، اُس نے دو منزلہ گھر کابل میں خریدا ہے اور تمام فیملی وہاں شفٹ ہوگئی ہے۔
صائم نے جو یہ صورتِ حال دیکھی تو ٹھان لیا کہ جلد از جلد معلومات حاصل کرنی ہیں کہ آخر بھارت اور افغانستان نے کیا منصوبہ بنایا ہے۔ وہ خود بھی افغان وزارتِ خارجہ کے دفتر پہنچا۔ وہ کئی دفعہ افغانستان میں خدمات انجام دے چکا تھا اور پشتو بڑی روانی سے بول سکتا تھا۔ تینوں رات ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ سب سے بڑا مسئلہ عمارت کے اندر داخل ہونے کا تھا، دیواروں میں اوپر کی طرف بجلی کے تار نصب تھے جن میں کرنٹ دوڑ رہا تھا۔ بڑے بھیانک کتوں کی آوازیں بھی دل دہلائے دے رہی تھیں۔ وہ تین گھنٹے کڑکڑاتی سردی میں باہر بیٹھے رہے کہ کوئی اندر جانے کا سبب پیدا ہو۔ آخرکار کالے رنگ کی ایک گاڑی عمارت کی طرف آتی نظر آئی۔ صائم نے گاڑی کے ٹائر پر فائر کردیا اور تینوں گاڑی کی طرف بھاگے۔ فوری کمانڈو ایکشن کے تحت انہوں نے گاڑی کے گارڈز کو قابو کیا، گاڑی میں موجود سواریوں کو پستولوں کی ضربوں سے بے ہوش کرکے باہر پھینکا اور گاڑی لے کر اندر داخل ہوگئے۔ گارڈز کوڈ ورڈز جانتے تھے لہٰذا چند ہی لمحوں میں وہ عمارت کے اندر تھے۔ بس پھر کیا تھا، وہ اندر گھستے چلے گئے، راستے میں جو آیا اسے پستولوں کی ضربوں سے بے ہوش، یا ٹانگ پر گولی مار کر حرکت سے معذور کردیا گیا، یہاں تک کہ وہ عمارت میں موجود بڑے افسر تک پہنچ گئے اور ساری معلومات حاصل کرلیں۔
یہ بازی عشق کی بازی ہے، یہ بازی ہم ہی جیتیں گے
آگ کے دریا بھی جھیلیں گے، پہاڑ اپنے قدموں میں گرائیں گے
…٭…
’’سر 8 ستمبر کو کراچی کے صدر بازار میں خودکش دھماکے کرنے کا پلان ہے، لڑکے 6 ستمبر کو یہاں سے روانہ ہوںگے اور 8 ستمبر کی صبح فجر کے وقت کراچی میں بذریعہ بس داخل ہوں گے، ان لڑکوںکی تصویریں میں نے آپ کو واٹس ایپ کردی ہیں، داخلے کے وقت انہوں نے خودکش جیکٹس نہیں پہنی ہوں گی، یہ جیکٹس انہیں کراچی پہنچنے پر فراہم کی جائیں گی۔‘‘ صائم نے بتایا۔
’’زبردست صائم! تم نے پاکستان کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا۔ ماشاء اللہ۔‘‘ کرنل فیاض نے کہا۔
…٭…
’’جانے جنرل صاحب نے مجھے کیوں بلایا ہے؟‘‘ صائم سوچتا ہوا ان کے کمرے کی طرف چل پڑا۔
’’بیٹا! تم تو بہت زخمی ہو، میں نے سنا ہے دو ہفتے سے ہسپتال میں بھی داخل تھے۔‘‘ جنرل صاحب بولے۔
’’جی جنرل سمیع! ایک مشن تھا افغانستان میں، وہاں زخمی ہوگیا۔‘‘ صائم نے جواب دیا۔
’’ہم تو آپ کو ایک اہم مشن پر بھیجنے والے تھے، مگر آپ کو تو آرام کی ضرورت ہے۔‘‘ جنرل سمیع نے کہا۔
’’سر! جان بھی حاضر ہے، آپ حکم کریں۔‘‘ صائم نے کہا اور ’’اللہ اکبر‘‘ کا زور سے نعرہ لگایا۔
’’بھارتی فورسز کی افغانستان میں نقل و حمل پر نظر رکھنے کے لیے میجر عاطف اور میجر انور کو بھیجا گیا تھا، مگر بھارتیوں نے انہیں اغوا کرلیا ہے، وہ ہمارے بیٹے ہیں، انہیں آزاد کرانا ہے۔‘‘ جنرل سمیع نے کہا۔
…٭…
’’اگر ہم امریکا کا ساتھ نہ دیتے تو وہ پاکستان کو کھنڈر بنا دیتے، یا پاکستان میں بھی طالبانائزیشن شروع ہوجاتی، ہم نے بالکل درست فیصلہ کیا۔‘‘ پرویزمشرف نے کہا۔ وہ ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو دے رہے تھے۔ ’’ہم پاکستان کو تباہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔‘‘ اس نے کہا۔ صائم پھر پرویزمشرف کی باتوں سے متاثر ہوکر نم آنکھیں لیے بیٹھا تھا۔
…٭…
’’آخر آپ کب گھر آئیں گے؟ آٹھ مہینے ہوگئے۔ منی کے پیدا ہونے پر آئے تھے، وہ تو اب چلنے لگی ہے۔ مجھے، ماں کو اور بھائی بہنوں کو پہچاننے لگی ہے۔‘‘ صائم کی بیوی سمیعہ نے فون پر کہا۔
’’ہاں ہاں آجائوں گا، یہ بتائو بچے کیسے ہیں، پڑھائی کیسی چل رہی ہے۔‘‘ صائم نے بات ٹالی۔
’’کیا پوری آرمی میں صرف آپ کام کرتے ہیں! آپ کو چھٹی کیوں نہیں ملتی؟‘‘ سمیعہ نے شکوہ کیا۔
’’ارے حالات خراب ہیں، کسی کو بھی چھٹی نہیں مل رہی، خفیہ والوں کو تو زیادہ کام ہوتا ہے، روز ایک نیا مشن… کام چھوڑ کر تو نہیں آسکتا، پاکستان خطرے میں ہے۔‘‘ صائم نے جواب دیا۔
’’ہاں بیٹا صائم کیسا ہے تُو، پھر کوئی چوٹ تو نہیں لگوا لی کسی مشن میں!‘‘ اماں کی آواز آئی۔
’’نہیں نہیں اماں…‘‘ صائم نے صاف جھوٹ بولا ’’اب تو بہت احتیاط سے کام کرتا ہوں۔‘‘
’’بچوں سے بات کرو گے؟‘‘ اماں نے پوچھا۔ ’’نہیں اماں وقت نہیں ہے۔‘‘ صائم نے فون بند کردیا۔ اب کیا بتاتا کہ بچوں سے بات کرتے ہی دل ملنے کے لیے تڑپنے لگتا ہے، اس لیے بات ہی نہیں کرتا۔
…٭…
صائم ایک بار پھر افغانستان چلا گیا۔ اس مرتبہ اسے جدید ہتھیار اور سات نائب دیے گئے تھے۔ انہوں نے باقاعدہ افغانستان میں گھر لے کر رہائش اختیار کی، مختلف بھارتی عمارتوں کے اندرونی نقشے بھاری قیمت دے کر حاصل کیے، مقامی مخبروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ آخرکار دونوں پاکستانی افسروں کی قید کا مقام معلوم ہوگیا۔ اب مرحلہ تھا اُن کو آزاد کرانے کا۔ افغانستان میں افغانیوں سے زیادہ بھارتیوں کا کنٹرول تھا، اور وہ اس قدر الرٹ تھے کہ کوئی بھی کارروائی مشکل تھی۔ بالآخر چھ ماہ کی جان توڑ کوشش کے بعد آپریشن کی تاریخ مقرر ہوئی۔ آپریشن ماشاء اللہ کامیاب رہا۔ میجر عاطف اور میجرانور کو رہا کرا لیا گیا، لیکن میجر عاطف اس قدر بری حالت میں تھے کہ ان کو فوراً اسپتال منتقل کیا گیا۔ بے انتہا تشدد نے ان کے اندرونی اعضا متاثر کردیے تھے۔ نہ گردے صحیح کام کررہے تھے نہ دل، نہ وہ کچھ کھانے پینے کے لائق تھے۔ چوتھے دن انتقال کرگئے۔ میجر انور بہتر تھے حالانکہ ان کے بھی سارے ناخن کھینچ لیے گئے تھے اور کان کاٹ دیے گئے تھے۔ بہرحال ان کو لے کر کمانڈو ٹیم واپس پاکستان لوٹ آئی اور انہیں اسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔
…٭…
بھارتی وزیر خارجہ نے امریکی وزیر خارجہ کو فون ملایا ’’جی ہاں اس کا نام کیپٹن محمد صائم شیخ ہے، وہ افغانستان میں بھارت کے کئی منصوبوں کو ناکام بنا چکا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’اچھا ابھی اس کا انتظام کرتا ہوں، بڑا آیا سیکرٹ کمانڈو۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ نے تسلی دی۔
…٭…
’’جی جی میں تو آپ کا خادم ہوں، آپ بس حکم کریں۔‘‘ پرویز مشرف نے امریکی وزیر خارجہ کو کہا۔
’’شاباش، ہم تو بس آپ کی لمبی عمر کی دعا کرتے ہیں۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ نے کہا۔
’’بس خیال رکھیے گا میرا، میرے ہوتے ہوئے آپ کا کوئی کام نہیں رکے گا، وعدہ رہا۔‘‘ پرویز مشرف نے کہا۔
’’آپ فکر ہی نہ کریں، آپ کو خوش کردیں گے، بس کام ہونا چاہیے۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ نے کہا۔
…٭…
’’سر! آج کون سا مشن ہے، مجھے کیوں بلایا ہے؟‘‘ صائم نے کرنل فیاض سے پوچھا۔
کرنل فیاض مسلسل اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کررہے تھے۔ ’’صائم! آپ کو امریکن قونصلیٹ جانا ہے، وہاں پر آپ کو بتایا جائے گا کہ کہاں جانا ہے۔‘‘ انہوں نے صائم کو بتایا۔
’’مگر میں اُن کے آرڈر پر کام کیوں کروں گا، میں وہاں کیوں جائوں؟‘‘ صائم نے حیرانی سے پوچھا۔
’’یہ جنرل مشرف کا آرڈر ہے، وہ چیف ہیں، آپ کو جانا پڑے گا۔‘‘ کرنل فیاض نے سختی سے کہا۔
…٭…
امریکن قونصلیٹ پہنچتے ہی صائم کو گرفتار کرلیا گیا۔ وہ سادہ کپڑوں کا اہلکار تھا اور سادہ کپڑوں میں ہی گیا تھا۔ چونکہ افغانستان میں ڈیوٹی دیتا تھا تو بڑی سی داڑھی بھی رکھی تھی۔ فوراً تصویریں کھینچی گئیں اور دنیا کے تمام چینلوں پر خبر چلنے لگی کہ ایک طالبان دہشت گرد پاکستان سے گرفتار ہوگیا ہے۔ پرویزمشرف کے اکائونٹ میں رقم پہنچ چکی تھی، وہ رات اس نے ایک کلب میں ڈانس کرتے ہوئے گزاری۔
…٭…
’’سر یہ زیادتی ہے، کسی بھی طرح صائم کو بچائیں، وہ بے قصور ہے۔‘‘ کرنل فیاض بولے۔ جنرل سمیع سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’صائم گوانتاناموبے پہنچ چکا ہے، صرف دو گھنٹے کے اندر اندر۔ ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے، وہ ہمارا بہترین سپاہی تھا۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’سر اُس نے بار بار اپنی جان خطرے میں ڈال کر پاکستان کے لیے کام کیا، وہ سچ مچ کا مجاہد تھا، اسے اللہ نے اس کام کے لیے منتخب کیا تھا، سر وہ پاکستان کے بہت کام آئے گا۔‘‘ کرنل فیاض نے کہا۔
’’تم خود سوچو، میں آرمی چیف کے آگے کیا کرسکتا ہوں! ہر سنتِ نبویؐ کے حلیے والے کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ صبر کرو،، صبر ہی کرسکتے ہیں۔‘‘ جنرل سمیع نے کہا۔
صائم کو گوانتاناموبے کی جیل میں جس پنجرے میں قید کیا گیا تھا وہاں کھڑے ہونے کی گنجائش نہ تھی۔ نہ ٹوائلٹ کی سہولت، نہ مناسب خوراک اور پانی… پھر دن رات تشدد، پورا لیٹ بھی نہیں سکتے تھے۔ بس چوبیس گھنٹے بیٹھے رہو۔ دو مہینے میں ہی صائم سوکھ کر کانٹا ہوگیا، اس کے کپڑے بوسیدہ ہوکر پھٹ گئے تھے اور نئے کپڑے قیدیوں کو فراہم کرنے کا رواج نہ تھا، لہٰذا وہ برہنہ ہی پسینے میں تربتر بیٹھا رہتا اور اللہ کو یاد کرتا رہتا۔
…٭…
ایک روز امریکی اہلکار ٹی وی دیکھ رہے تھے، صائم کے پنجرے سے بھی ٹی وی نظر آرہا تھا۔ ٹی وی پر پرویزمشرف کسی انگریز عورت کو انٹرویو دے رہا تھا ’’میرے وطن کے لوگ ہی میرا سرمایہ ہیں، میں جو کچھ مشکل فیصلے کرتا ہوں اپنی قوم کی بھلائی کے لیے کرتا ہوں، ایک ایک فرد کی حفاظت میری ذمے داری ہے، سب سے پہلے پاکستان‘‘۔ اس نے مُکّا دکھا کر کہا۔
…٭…
فروری2011ء کی ایک ٹھنڈی شام تھی۔ ’’امی! بابا کب آئیں گے؟‘‘ منی نے پوچھا۔
’’بیٹا! چھ سال سے تو کوئی رابطہ نہیں، پتا نہیں زندہ بھی ہیں یا…؟‘‘ سمیعہ نے کہا۔
’’بکواس مت کرو، میرا بیٹا سیکرٹ مشن پر ہے، وہ ضرور آئے گا۔‘‘ اماں نے کہا۔
’’سیکرٹ مشن والوں کی موت بھی سیکرٹ ہوتی ہے اماں۔‘‘ سمیعہ بولی۔
’’وہ اللہ کے لیے کام کرتا تھا، مر بھی گیا تو شہید مرتے تھوڑی ہیں۔‘‘ اماں نے روتے ہوئے کہا۔
…٭…
امتِ مسلمہ نے ہمیشہ میر جعفر اور میر صادق کی وجہ سے مات کھائی ہے، ہمیں تو ہمیشہ اپنوں نے ہی لوٹا۔ ہماری چلتی ہوئی اسٹیل مل اچانک بند ہوجاتی ہے، ہمارا چلتا ہوا پی آئی اے اچانک خسارے میں چلا جاتا ہے، اربوں کھربوں کی کرپشن، اقربا پروری، لاپروائی اور غیر ذمے داری وغیرہ تو ہے ہی، ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے محسنوں کی قدر نہیں کرتے۔ لیاقت علی خان سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک ہم اپنے ہیروز کے ہی خون کے پیاسے رہے، انہیں رسوا کیا اور انہیں پاکستان کے لیے کچھ نہیں کرنے کردیا۔ ہمارا دوسرا بڑا المیہ غداروں اور مکاروں کو سر آنکھوں پر بٹھانا ہے، ہم جانتے بوجھتے ملک دشمنوں کو ہی ملک کا مالک بنا دیتے ہں، ہمارے عوام کو دال روٹی کے چکر میں اس بری طرح پھنسا دیا گیا ہے کہ اصل ملکی مسائل پر بے چارے کچھ کر ہی نہیں پاتے، اور ہمارے دشمن ہمیں تباہ کرنے کے لیے کوئی مزاحمت پاتے ہی نہیں۔ چاہے ایمل کاسی ہو، چاہے عافیہ صدیقی… یہ پاکستانی تھے، ہمارا سرمایہ تھے، ہمارے بچے تھے۔ اپنے بچوں کو بھی بھلا کوئی دشمن کے ہاتھوں بیچتا ہے؟ اور جب انسانیت اس حد تک گر جائے تو پھر ایسی قوموں کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو آج ہمارے ساتھ ہورہا ہے… بے شک ہم اسی لائق ہیں۔

حصہ