برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

354

قسط نمبر168
(چھبیسواں حصہ)
پاک فوج کے ہتھیار ڈالنے کا واقعہ اس قدر اندوہناک سانحہ تھا کہ پاکستانی قوم اور مشرقی پاکستان کے محب وطن بنگالی اور غیر بنگالی سب کی عقل دنگ تھی کہ آخری خطرۂ خون تک جنگ لڑنے اور اپنے سینے پر سے ٹینک گزارنے والے کس طرح دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال سکتے ہیں؟
جتنی بھی خونریزی اس سانحے سے پہلے ہوچکی تھی وہ تو ایک داستان ہے ہی، مگر سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد جو مظالم ڈھائے گئے اُن کا تمام تر شکار محب وطن بنگالی اور غیر بنگالی بنے۔
اس حوالے سے اب بے شمار تجزیے بھی آچکے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے دولخت ہونے میں کیا کیا عوامل کارفرما رہے؟ اور سیاسی حوالے سے اس معاملے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں مغربی پاکستان کی جانب سے کیوں نہیں ہوئیں؟ مگر پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جو مظالم توڑے گئے ان کا پاکستان کی جانب سے کوئی باقاعدہ ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے، نہ ہی حکومتی سطح پر اس جانب کوئی دلچسپی ظاہر کی گئی۔
پاکستان کے خلاف جتنا بھی پروپیگنڈا ہوا اسے ہی مکمل تاریخ مان لیا گیا۔ تاہم انفرادی سطح پر کچھ لکھنے والوں نے اپنے اپنے طور پر جو بھی معلومات تھیں، اُن کو ضبطِ تحریر میں لانے کی کوشش ضرور کی۔
ہتھیار ڈالنے کے حوالے سے جو بات مشہور کی گئی وہ یہ کہ 90 ہزار سپاہی ہندوستانی قید میں چلے گئے۔ اس تعداد کو مکمل فوجی گرداننا زیادتی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل اے کے نیازی، سابق کور کمانڈر ایسٹرن کمانڈ، سابق مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے اپنے ایک انٹرویو میں اس سوال پر کہ کیا سقوطِ ڈھاکا کے وقت آپ کے پاس ساری فوج اور اسلحہ ختم ہوگئے تھے؟ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے پاس ڈھاکا کے دفاع کے لیے آخری وقت میں عسکری قوت صرف 30 ہزار رہ گئی تھی۔‘‘
یہ معاملہ بھی ابھی تک صاف نہیں ہوا کہ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی اصل کہانی کیا تھی۔ سربراہِ مملکت جنرل آغا محمد یحییٰ خان کا انٹرویو ریکارڈ پر ہے کہ ’’جب مشرقی پاکستان کے گورنر ڈاکٹر عبدالمالک کا سگنل ملا تو میرے پاس ایڈمرل احسن، نیوی کے سابق سربراہ اے آر خان اور لیفٹیننٹ جنرل گل حسن بیٹھے تھے۔ یہ لوگ روزانہ شام کے وقت مجھ سے آرڈر لینے اور رپورٹ دینے آتے تھے۔ میں نے ڈاکٹر مالک کا سگنل پڑھا اور اپنے پی اے کو بلواکر اس کا جواب لکھوا دیا: نیازی! تم مشرقی پاکستان کے محاذ پر سینئر ترین فوجی افسر ہو۔ تم ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی ہو، وہاں کے انڈینڈنٹ کمانڈر بھی ہو، تم میری نسبت صورت حال کو بہتر جانتے ہو، میں ایک ہزار میل دور بیٹھا ہوں، تم سچویشن کا صحیح اندازہ کرسکتے ہو۔ گورنر کو کنسلٹ کرو اور یو این او والوں کو بولو کہ وہ سیز فائر کروادیں۔ جب سیز فائر ہوتا ہے اور کمانڈر آپس میں ملتے ہیں تو کوئی سمجھوتا ہوجاتا ہے۔ یہ کچھ کرو لیکن دشمن کے آگے ہتھیار ڈالنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
جنرل نیازی نے اپنے اسی انٹرویو میں اس بات کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ ’’وہ (یحییٰ خان) بکواس کرتا ہے، اس نے جھوٹ بولا، اس کا ایسا کوئی آرڈر مجھے موصول نہیں ہوا۔ میں نے مشرقی پاکستان میں بھارت کو قبضہ کرنے سے21 دن تک روکے رکھا۔ بھارت کے پلان کے مطابق ان کو مشرقی پاکستان پر12 دن میں قبضہ کرنا تھا۔ اندرا گاندھی نے 21 نومبر 1971ء ہی کو اپنی تقریر تیار کرلی تھی۔ مغربی پاکستان والوں نے ان کو 12 دن کا موقع دیا۔ اس لیے مغربی پاکستان سے 3 دسمبر 1971ء کو حملہ کیا گیا۔ ہم نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈال دیے لیکن انہوں نے مغربی پاکستان میں کیوں جنگ بندی کردی؟ یہ سقوطِ ڈھاکا نہیں سقوطِ اسلام آباد تھا۔ جو حکم عدولی کرتا ہے اس کو تبدیل کردیا جاتا ہے، میں تو جنرل یحییٰ خان کو فون کر کرکے تھک گیا۔ جب فون کرتا تو جواب ملتا باتھ روم میں ہے۔ وہ ہر وقت باتھ روم میں بیٹھا کیا کرتا رہتا تھا! وہ ہر وقت شراب کے نشے میں دھت پڑا رہتا تھا۔ وہ اگر مشرقی پاکستان کا اتنا درد رکھتا تھا، مشرقی پاکستانیوں سے اتنی ہمدردی رکھتا تھا تو ہم 9 ماہ سے جنگ لڑرہے تھے، وہ 9 ماہ میں ایک روز کے لیے بھی وہاں نہیں آیا، وہ تو کمانڈر انچیف تھا۔ میں اس سے کہتا کہ آپ کچھ کریں حالات بہت خراب ہیں، تو کہتا: میں کیا کرسکتا ہوں! بس دعا کرسکتا ہوں۔ ایک کمانڈر انچیف جنگ میں بس دعا کرسکتا ہے اور بے چارے کی ذمہ داری بھی کیا ہے! سنا آپ نے۔ میں حکم عدولی کررہا تھا تو وہ مجھ کو تبدیل کرسکتا تھا، برطرف کرسکتا تھا، جیسا کہ وہ خود کہتا تھا کہ میرا حکم کوئی نہ مانتا تو اس کو برطرف کردیتا۔ میں نے اس کا حکم نہیں مانا تو مجھے کیوں برطرف نہیں کیا؟‘‘
بین الاقوامی سازش کے حوالے سے جنرل نیازی کا مؤقف تھا کہ ’’یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی تھی کہ روسی ہر ضروری اطلاع بھارتیوں کو پہنچا رہے تھے، اور انہیں جدید بم بھی پہنچائے، جن کی وجہ سے بھارتیوں نے ہماری فضائی کمین گاہوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔‘‘
(حوالہ: انٹرویو… جلیس سلاسل)
اس طرح ریگولر فوج کے 30 ہزار سپاہی اور ان کی خدمات انجام دینے والے غیر فوجی افراد اور دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین سبھی جان کو محفوظ بنانے کے لیے ان میں شامل کرلیے گئے۔
شرمیلا بوس نے اپنی کتاب ’ڈیڈ ریکننگ‘ (Dead Reckoning) میں لکھا ہے کہ ’’گزشتہ نصف صدی میں ہوئی سب سے خونیں جنگوں میں سے ایک کی داستان صرف فاتح فریق کی جانب سے بیان کی گئی ہے جو کہ 1971ء میں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے والے بنگلہ دیشی قوم پرست ہیں۔
ہندوستانی مصنفہ نے لکھا ہے کہ ’’اس لڑائی کے فریقین اب بھی جنگ کی مخالفانہ اساطیر میں قید ہیں‘‘۔
کتاب کے تعارف میں انہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے کی گئی خونیں جدوجہد کے دوران پاکستانی فوج کو قتل کے واقعات سے بری الذمہ قرار نہیں دیا، لیکن اس کتاب کے حوالے سے بنگلہ دیش میں جس چیز کو سب سے متنازع مانا جائے گا وہ یہ ہے کہ اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ آزادی کے حق میں اور اس کے خلاف لڑنے والے بنگالیوں نے بھی ’’قابلِ نفرت مظالم ڈھائے۔
یہاں تک کہ رمنا گرائونڈ میں ہتھیار ڈالنے کی تقریب میں شامیانے کی پچھلی جانب البدر کے نوجوانوں کو اکٹھا کیا گیا اور بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے سنگینیں بھونک بھونک کے شہید کردیا گیا۔
آج کے دور میں ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کا فخریہ اعتراف دیکھیں جس میں وہ اس بات کو یہ کہہ کر تسلیم کررہے ہیں کہ ’’ہم ہی وہ لوگ تھے جنہوں نے مکتیوں کے شانہ بشانہ بھارتی فوجیوں کی صورت میں اپنا خون بنگلہ دیش کے لیے بہایا۔‘‘
ہندوستانی مصنف بھارتی انٹیلی جنس ’را‘ کے سابق آفیسر آر کے یادَو نے اپنی کتاب ’’مشن۔را‘‘ میں لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان میں بغاوت ہم نے کروائی۔
’’1971ء کی جنگ سے پہلے ہندوستانی انٹیلی جنس نے مکتی باہنی کو تشکیل دیا۔ اُسے ہندوستان کی سرزمین پر پاکستان کے خلاف لڑنے کی تربیت دی اور اسے اسلحہ اور سرمایہ فراہم کیا تاکہ مشرقی پاکستان میں افراتفری پیدا کی جا سکے۔ را چیف آر این کاو نے اپنے ذرائع سے پاکستان سے معلومات اکٹھی کیں اور باقاعدہ وزیرِاعظم اندرا گاندھی کو ایک الگ میٹنگ میں مشرقی و مغربی پاکستان کی اندرونی سیاسی و عسکری صورت حال پر ایک بریفنگ دی، اور اسی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ را چیف ایک بِلو پرنٹ تیار کرے گا جس کے تحت مکتی باہنی کے ذریعے مشرقی پاکستان میں متحدہ پاکستان کے خلاف بغاوت کروائی جائے گی، اور اندرا گاندھی نے باقاعدہ ایک منصوبہ ترتیب دیاکہ کس طرح مشرقی پاکستان کو متحدہ پاکستان سے الگ کروایا جائے گا۔
یہ تاثر بھی عام کیا گیا کہ بنگالی پاکستان کے خلاف ہوگئے تھے۔ بنگالیوں نے پاکستان کے خلاف بغاوت نہیں کی بلکہ وہ اب تک پاکستان کے حامی ہیں۔
غلام اعظم، عبدالقادر ملّا، قمر الزمان، اظہر الاسلام، عبدالسبحان، مطیع الرحمن نظامی، علی احسن محمد اور صلاح الدین قادر جیسے عظیم لوگ جو بنگالی بھی تھے اور رہیں گے، مگر یہ پاکستان کو متحد دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مکتی باہنی کے دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور پاکستان کی حمایت میں ڈٹے رہے اور گرفتار کرلیے گئے۔ عبدالقادر ملّا، قمر الزمان، علی احسن محمد اور صلاح الدین قادر 44 برسوں بعد بھی پاکستان کی حمایت کرنے پر بھارت نواز بنگلہ دیشی حکومت کے آگے نہیں جھکے بلکہ تختۂ دار پر جھول جانے کو فوقیت دی۔
’’جنگِ 1971ء پر ہندوستانی بنگلہ دیشی وضاحتی غلبے میں تحقیق کرنے کے باوجود یہ حقیقت پائی کہ ہمیں جنگِ 1971ء پر حقیقت کے برخلاف کہانی سنائی جاتی ہے۔ جنگ پر جو کہانی سنائی جاتی ہے وہ زمینی حقیقت سے خاصی مختلف ہے۔ جنگ پر جو کچھ بھی لکھا گیا ہے وہ بہت جانب داری اور منفی طور پر رقم کیا گیا ہے۔ میں نے جنگ ِ1971ء کی تاریخ پر وہی لکھا جو مجھے سچ لگا تھا اور جو میری قوتِ استدلال نے قبول کیا۔‘‘
سابق ہندوستانی آرمی چیف جنرل شنکر کے مطابق
’’مجھے مکتی باہنی کی ٹریننگ، نقل و حمل، امداد اور سامانِ حرب کی فراہمی سے متعلق ’’ہندوستانی فوج کے مکتی باہنی کے ساتھ تعاون‘‘ پر تحفظات لاحق تھے۔ ہم نے مکتی باہنی کی پشت پناہی کرنے کا نہ تو ہندوستانی عوام کو بتایا اور نہ ہی کبھی اس کا اعتراف کیا تھا۔ لیکن پاکستان یہ حق بجانب دعویٰ کرتا تھا کہ ہم (ہندوستان) بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) میں در اندازی کررہے ہیں۔‘‘
حوالہ جات:
’ڈیڈ ریکننگ‘ مصنفہ شرمیلا بوس
آر کے یادَو کی کتاب‘‘ مشن۔را‘‘
انٹرویو: جنرل نیازی۔ جلیس سلاسل
(جاری ہے)

حصہ