ریاکاری کے سجدے

2693

قدسیہ ملک
شیخ سعدیؒ کی روایات میں ایک قصہ ملتا ہے۔ ایک شخص جو دیکھنے میں بہت پرہیزگار اور عبادت گزار معلوم ہوتا تھا، ایک بادشاہ کا مہمان ہوا۔ جب کھانے کے لیے دسترخوان پر بیٹھا تو اپنی خوراک سے کم کھایا، اور جب نماز کے لیے کھڑا ہوا تو عادت سے زیادہ وقت صرف کیا تاکہ لوگ اس کے متعلق اچھی رائے قائم کریں اور اُن کے دلوں میں اس کی عقیدت بڑھے۔ اے جاہل اور گنوار شخص تُو کعبہ کی زیارت کے لیے جانا چاہتا ہے مگر تُو وہاں نہ پہنچ سکے گا، کیونکہ تُو جس راستے پر جارہا ہے یہ تو ترکستان کا راستہ ہے۔ یعنی تمھارا مقصد تو یہ ہے کہ نیک عمل کرکے خدا کی خوشنودی حاصل کرو، لیکن تم نے ریاکاری کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اُس کی وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکو گے۔جب وہ بزرگ نما شخص اپنے مکان پر واپس آیا تو کھانا مانگا۔ اُس کا لڑکا بہت سمجھ دار تھا، باپ سے کہنے لگا ’’ابّا جان! کیا آپ نے بادشاہ کے دسترخوان پرکھانا نہیں کھایا؟‘‘ اس نے کہا ’’میں نے بادشاہ کے یہاں بہت تھوڑا سا کھایا ہے تاکہ اُس پر اور دوسرے لوگوں پر میری بزرگی کا اثر پڑے اور مجھ سے عقیدت بڑھے‘‘۔ لڑکے نے کہا ’’ابّا جان! آپ نماز بھی دوبارہ پڑھ لیجیے کیونکہ بادشاہ کے ساتھ آپ نے جو نماز پڑھی وہ دکھاوے کے لیے تھی، خدا تعالیٰ کے لیے نہ تھی۔ جو شخص اپنی معمولی ہنرمندی دوسروں کو دکھاتا ہے لیکن اپنے بڑے عیبوں کو چھپاتا ہے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح سے کھوٹے روپیہ سے کوئی چیز نہیں خریدی جا سکتی، اسی طرح برائیوں سے نیک نامی حاصل نہیں ہوسکتی۔‘‘
خود نمائی، دکھاوا، ریاکاری ایک ہی بیماری کے تین نام ہیں۔ دکھاوا اخلاص کی ضد ہے۔ یہ صرف فردِ واحد ہی کا عمل نہیں ہوتا بلکہ اس میں گروہ، برادریاں، قبیلے اور بعض اوقات پورے پورے ملک متاثر ہوتے ہیں۔ مولانا محمد عابد ندوی کے بقول: ریاکاری، نام و نمود اور شہرت کا جذبہ، نہایت قبیح عادت اور برے اخلاق و کردار میں سے ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی کہ بندۂ مومن جو بھی نیک کام کرے وہ اللہ کے لیے کرے، اس کا دل اخلاص و للہیت کے جذبے سے معمور ہو، اس کا مقصد عمل صالح سے اللہ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہو، نہ کہ نام و نمود اور لوگوں میں خود کو بڑا ظاہر کرنا، یا ان کی تعریف اور دنیاوی فائدہ حاصل کرنا۔ اللہ تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے، اسے وہ نیکی ہرگز قبول نہیں جس کے کرنے میں بندہ مخلص نہ ہو، اللہ کی رضا جوئی چھوڑ کر کسی اور کو خوش کرنے یا دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے وہ نیکی انجام دی گئی ہو۔ ریا کاری اخلاص کے منافی ہے۔
ریاکاری شرک ہے، اور شرک گناہِ کبیرہ ہے۔ ریاکاری اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ کاموں میں سے ایک ہے۔ قرآن میں ہے’’اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتاکر اور تکلیف پہنچاکر ضائع نہ کرو اُس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا‘‘ (البقرہ264)۔ ایک اور جگہ ریاکاری کو منافقین کی خصلت قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک منافق اللہ سے چال بازیاں کررہے ہیں اور وہ انہیں اس چال بازی کا بدلہ دینے والا ہے، اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں، صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یادِ الٰہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں‘‘ (النساء 142)۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ہلاکت و بربادی ہے اُن نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غافل ہیں، وہ جو ریا کاری کرتے ہیں۔‘‘(الماعون4۔6)
احادیث میں بھی ریاکاری کی بہت وعید آئی ہے۔ محمود بن لبیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ’’شرکِ اصغر‘‘ سے ڈرتا ہوں‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! شرکِ اصغر کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ریا کاری۔‘‘(مسند احمد)
ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کے بارے میں شرک کا خوف ظاہر فرمایا۔ آپؐ سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپؐ کے بعد آپؐ کی اُمت شرک میں مبتلا ہوجائے گی؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ہاں! پھر یہ وضاحت فرمائی کہ وہ لوگ چاند سورج کی، پتھر اور بتوں کی پرستش نہیں کریں گے لیکن ریاکاری کریں گے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام کریں گے۔
(تفسیر ابن کثیر)
ریاکاری کی اقسام
اخلاص اور ریا:کسی بھی عمل کی قبولیت کے لیے دو بنیادی شرطوں کا پایا جانا بے حد ضروری ہے، ان میں سے کسی ایک شرط کا فقدان اس عمل کی قبولیت میں مانع ہوگا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل خالص اللہ کے لیے کیا گیا ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ سنتِ نبویؐ کے مطابق ہو۔ اللہ رب العزت نے ان دونوں شرطوں کو مختلف آیات میں بیان فرمایا ہے، تاہم درج ذیل آیتِ کریمہ میں دونوں شرطیں یکجا بیان فرمائی ہیں، ارشاد ہے: ’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھیرائے۔‘‘
اخلاص کے فوائد:
اخلاص امت کی نصرت،اللہ کے عذاب سے نجات،دنیاو آخرت میں منازل ودرجات کی بلندی،دنیا میں گمراہی سے حفاظت،اللہ عزوجل کی اور اہلِ ارض وسما کی بندے سے محبت،نیک نامی،دنیا وآخرت کی مصیبتوں سے نجات،نیک بختی اور توفیق الٰہی کا احساس وشعور اور اس سے اطمینان،پریشانی اور دشواریوں کو برداشت کرنے کی قوت،دلوں میں ایمان کی آرائش وزیبائش،دعا کی قبولیت،نیز قبر میں نعمت اور خوشی کی بشارت کا سبب ہے۔اخلاص عبادات کی روح ہے،اس کے بغیر ساری عبادتیں بے جان ہیں۔
ریا کاری کی اقسام:
1: ایک ریا منافقین کی ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے ظاہری طور پر اسلام کا دعویٰ کرتے اور نام لیتے ہیں، مگر ان کے دلوں میں کفر پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ طرزعمل توحید کے منافی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر ہے۔
2: بندے کا مقصود اللہ کے سوا کچھ اور ہو، اس کی خواہش یہ ہو کہ لوگ اس کے کارنامے کو جانیں،اخلاص بالکل مقصود نہ ہو،تو یہ نفاق کی ایک قسم ہے۔اور توحید کے اعلی درجہ کے منافی ہے۔
3:بندہ اللہ کے لیے عبادت میں داخل ہواور اللہ ہی کے لیے عبادت سے نکلے، پھر اس چیز کا لوگوں کو علم ہو جائے اور اس پر اس کی تعریف ہو تو اس تعریف سے اس کے دل کو سکون واطمنان حاصل ہو اور وہ مزید اس بات کی تمنا کرے کہ لوگ اس کی تعریف وتوصیف کریں،یہ خوشی ومسرت،تعریف کی مزید خواہش اور اپنے مطلوب کے حصول کی تمنا وغیرہ پوشیدہ ریا کاری پر دلالت کرتی ہیں۔
4:جسمانی ریاکاری:جیسے کوئی شخص چہرے کی زردی اور جسم کی کمزوری ظاہر کرے،اس سے لوگوں کو یہ دکھانا مقصود ہو کہ وہ بڑا عبارت گزار ہے اور اس پر آخرت کا خوف غالب ہے اور کبھی کبھار ریا کاری آواز کی پستی اور ہونٹوں کی پژمردگی سے بھی ہوتی ہے تا کہ لوگوں کو یہ شعور دے کہ وہ روزے سے یا بھوکا ہے۔
5:لباس یا وضع قطع کے ذریعے ریا کاری:جیسے کوئی شخص پیوند لگے کپڑے پہنے یا اسلامی حلیہ اپنائے تا کہ لوگ کہیں کہ یہ دنیا سے بڑا بے رغبت انسان ہے،یا کوئی ایسا لباس پہنے جسے ایک خاص طبقے کے لوگ پہنتے ہوں جنہیں لوگ علما کی فہرست میں شمار کرتے ہوں۔
6:قولی ریاکاری:یہ عام طور پر وعظ، نصیحت، نیز بحث و تکرار،مناظرہ اور علم کے اظہار کے لیے احادیث وآثار کے حفظ کے ذریعے دین داروں میں پائی جاتی ہے۔
7:عملی ریا کاری: جیسے دکھاوے کے لیے نمازی کا نماز، رکوع اور سجدہ وغیرہ طویل کرنا اور خشوع و خضوع ظاہر کرنا،نیز روزے،حج اور صدقہ میں ریا کاری وغیرہ۔
8:ساتھیوں اور ملاقاتیوں کے ذریعے ریا کاری: جیسے کوئی شخص بہ تکلیف کسی عالم سے ملاقات کرے، تاکہ یہ کہا جائے کہ فلاں تو فلاں کی زیارت یا ملاقات کے لیے گیا تھا۔ اسی طرح اپنی زیارت کے لیے لوگوں کو دعوت دینا،تاکہ یہ شہرہ ہو کہ دین دار لوگ اس کے پاس آتے ہیں۔
9:لوگوں کے درمیان اپنی ذات کی مذمت کے ذریعے ریا کاری: اور اس سے اس کا مقصد لوگوں کو یہ دکھانا ہو کہ وہ بڑا متواضع اور خاکسار آدمی ہے، تاکہ تاکہ ان کے نزدیک اس کا مقام بڑھ جائے اور اسے بیان کرکے لوگ اس کی مدح وستائش کریں۔ یہ ریا کاری کی باریک قسموں میں سے ہے۔
10:ریا کاری کی باریکیوں اور اسرار میں سے یہ بھی ہے کہ عمل کرنے والا اپنی نیکی چھپائے، اس طرح کہ وہ یہ نہ چاہے کہ لوگوں کو اس کی نیکیوں کی اطلاع ہو اور نہ اس کے ظاہر ہونے سے اسے خوشی ہی ہو، لیکن اس کے باوجود جب وہ لوگوں کو دیکھے تو اس کی خواہش یہ ہو کہ لوگ اس سے سلام کرنے میں پہل کریں، اس سے خندہ پیشانی اور احترام سے ملیں، اس کی تعریف و توصیف کریں، گرم جوشی سے اس کی ضرورت پوری کریں اور خرید و فروخت میں اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں، اور اگر یہ سب کچھ نہ حاصل ہو تو اپنے دل میں رنج و تکلیف محسوس کرے،گویا وہ اپنی نیکیوں پر عزت و احترام کا طلب گار اور خواہش مند ہے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’پہلے قیامت میں جس کا فیصلہ ہوگا وہ ایک شخص ہو گا جو شہید ہوا۔ جب اس کو اللہ کے پاس لائیں گے تو اللہ اپنی نعمت اس کو بتلا دے گا۔ وہ پہچانے گا، اللہ تعالیٰ پوچھے گا: تُو نے اس کے لیے کیا عمل کیا ہے؟ وہ بولے گا: میں لڑا تیری راہ میں، یہاں تک کہ شہید ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تُو نے جھوٹ کہا، تُو اس لیے لڑا تھا کہ لوگ بہادر کہیں اور تجھے بہادر کہا گیا۔ پھر حکم ہوگا اور اس کو اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیں گے۔ اور ایک شخص ہوگا جس نے دین کا علم سیکھا اور سکھلایا اور قرآن پڑھا۔ اس کو اللہ تعالیٰ کے پاس لائیں گے، وہ اپنی نعمتیں دکھلائے گا۔ وہ شخص پہچان لے گا، تب کہا جائے گا تُو نے اس کے لیے عمل کیا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تُو جھوٹ بولتا ہے، تُو نے اس لیے علم پڑھا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن اس لیے پڑھا تھا کہ لوگ قاری کہیں۔ تجھ کو عالم اور قاری دنیا میں کہا گیا۔ پھر حکم ہوگا، اور اس کو منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیں گے۔ اور ایک شخص ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا تھا اور سب طرح کے مال دیئے تھے، وہ اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں دکھلائے گا، وہ پہچان لے گا، اللہ تعالیٰ پوچھے گا: تُو نے اس کے لیے کیا عمل کیے؟ وہ کہے گا: میں نے کوئی راہ مال خرچنے کی جس میں خرچ کرنا پسند کرتا تھا، نہیں چھوڑی تیرے واسطے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تُو جھوٹا ہے، تُو نے اس لیے خرچا کیا تاکہ لوگ سخی کہیں، تو تجھے لوگوں نے سخی کہہ دیا دنیا میں۔ پھر حکم ہو گا، منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں ڈال دیں گے۔ )صحیح مسلم)
ریا کاری کی بنیاد اور اصل ”جاہ مرتبہ”کی محبت ہے اور جس کے دل پر اس چیز کی محبت غالب آ جاتی ہے اس کی ساری فکر مخلوق کی رعایت،ان کا چکر لگانے اور ان کے دکھاوے میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور وہ اپنے تمام تر اقوال وافعال اور جملہ تصرفات میں ہمیشہ ان چیزوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جن سے لوگوں کے نزدیک اس کا مقام ومرتبہ اونچا ہو۔بیماری اور مصیبت کی یہی جڑ اور اساس ہے،کیونکہ جس شخص کو بھی اس کی خواہش ہوتی ہے اسے عبادت میں ریا کاری اور ممنوع وحرام کاموں کا ارتکاب لامحالہ کرنا پڑتا ہییہ بڑا دقیق اور پیچیدہ باب ہے جسے اللہ عزوجل کا علم ومعرفت رکھنے اور اس سے محبت کرنے والے ہی جان سکتے ہیں۔
اگر اس سبب اور تباہ کن مرض کی تفصیل بیان کی جائے تو وہ درج ذیل تین اصولوں کی طرف لوٹے گا:
٭حمدوثنا اور مدح وستائش کی لذت کی محبت وچاہت۔
٭دوسروں کی طرف سے اپنی مذمت برائی سے نفرت۔
٭لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس کی لالچ۔
یہ تین چیزیں ریا کاری کا سبب اور اصل محرک ہیں،لہٰذا ان سے بچ کر رہیں۔
ریا کاری کے ازالہ وعلاج اور اخلاص کے حصول کے چند طریقے:
1:دنیا کی خاطر عمل اور ریا کاری کے انواع واقسام اور اسباب ومحرکات کی معرفت حاصل کرنا اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا۔
2:کتاب وسنت پر مبنی اللہ کے اسماء وصفات اور افعال کی صحیح معرفت کے ذریعے اللہ کے جلال وعظمت کا علم حاصل کرنا،کیونکہ جب بندے کو اس بات کا علم ہو گا کہ اللہ واحد ہی تنہا نفع ونقصان،عزت وذلت۔پستی وبرتری،دینے نہ دینے اور مارنے جلانے کا مالک،خیانت کرنے والی آنکھوں اور سینوں میں پوشیدہ رازوں کا جاننے والا ہے،نیز یہ کہ اللہ وحدہ لاشریک ہی تنہا مستحق عبادت ہے،تو یہ ساری چیزیں اخلاص اور اللہ کے ساتھ سچائی پیدا کریں گی،لہٰذا توحید کی تمام قسموں صحیح معرفت حاصل کرنا ضروری ہے۔
3:آخرت میں اللہ عزوجل کی تیار کردہ نعمت وعذاب،موت کی ہولناکیوں اور عذاب قبر وغیرہ کی معرفت حاصل کرنا،کیونکہ جب بندے کو ان چیزوں کا علم ہو گا اور وہ سمجھ دار ہو گا تو ریاکاری ترک کر کے اخلاص اپنائے گا۔
4:دنیا کے لیے عمل کرنے نیز عمل کو ضائع کرنے والی ریا کاری کی خطرناکی سے ڈرنا،کیونکہ جو کسی چیز سے ڈرتا ہے وہ اس سے بچتا رہتا ہے اور نجات پاتا ہے اور جو ڈرتا ہے وہ منہ اندھیرے سفر شروع کرتا ہے اور جو منہ اندھیرے سفر شروع کرتا ہے وہ منزل پا لیتا ہے۔
لہٰذا انسان کے لیے مناسب بلکہ ضروری ہے کہ جب اس کی خواہش مدح وستائش کی آفت کی طرف آمادہ کرے تو اپنے نفس کو ریا کاری کی آفتوں اور اللہ کی ناراضی کی یاد دلائے اور جسے لوگوں کی محتاجی اور کمزوری کا علم ہوتا ہے وہ راحت محسوس کرتا ہے۔
5:بندہ جب لوگوں سے ڈرتا ہے اور اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی کرتا ہے،تو اللہ عزوجل اس سے ناراض وغضبناک ہو جاتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے ناراض کر دیتا ہے۔

حصہ