خوش نصیب لوگ

460

افروز عنایت
اماں:۔ بیٹا! بڑوں کی صحبت سے کچھ نہ کچھ بھلا ہی حاصل ہوتا ہے۔ اُن کے تجربے اور عمر کی روشنی میں چھوٹوں کو بھی سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ بے شک تمہاری ساس تم سے بے اعتنائی برت رہی ہیں، لیکن ہیں تو تمہاری بزرگ۔ ان سے سیکھو، ان کے تجربے سے کچھ حاصل کرو۔
زرین:۔ لیکن اماں، وہ تو مجھ سے بولنا بھی پسند نہیں کرتیں، مجھے سکھائیں گی کیا! میں کچھ پوچھوں بھی تو منہ دوسری طرف کرلیتی ہیں۔ اب کل ہی اشعر بہت رو رہا تھا، میں نے پوچھا بھی ’’اماں شاید اس کے دانت آرہے ہیں، کیا کروں؟‘‘ کہنے لگیں ’’مجھے نہیں پتا‘‘۔ پھر شام کو عالیہ آئیں تو انہیں ٹوٹکا بتا رہی تھیں کہ دانت نکلتے ہوئے بچوں کے ساتھ ایسا کرنا چاہیے، حالانکہ وہ تو اُن کی دور کی رشتہ دار تھیں، میں تو ان کی بہو ہوں۔
اماں: تو بیٹا اس میں برا ماننے والی کیا بات ہے! انہوں نے جو ٹوٹکا عالیہ کو بتایا تم بھی اس پر عمل کرلو، اگر فائدہ ہو تو آگے دوسروں کو بھی بتائو۔ بیٹا، ہر ایک کا اپنا انداز ہوتا ہے، وہ سمجھ رہی ہوں گی تم بہت پڑھی لکھی ہو شاید اُن سے کچھ سیکھنے میں قباحت محسوس کرو، اسی لیے وہ بتانے سے کتراتی ہیں۔ جہاں سے بھی کچھ سیکھنے کا، سنورنے کا موقع ملے ضائع نہ کرو۔ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ، جن کو والدین، دوستوں اور اساتذہ سے کچھ سیکھنے کا اور سنورنے کا موقع ملے۔
……٭٭٭……
اظہر: مما مجھے چپس بنا کر دیں، میں یہ کھانا نہیں کھائوں گا۔
زینت: (جو صبح سے مہمانوں کی آئو بھگت کرتے کرتے تھک گئی تھی اور ابھی ان کے جانے کے بعد کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹی تھی، بولی) اظہر اب میں بہت تھک گئی ہوں، جو ہے وہ کھالو، میرا مغز نہ کھائو۔
6 سالہ اظہر روتی صورت بنا کر منہ پھلا کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ زینت کو بیٹے کی صورت دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ 8 برسوں کی منت مرادوں کے بعد تو پیدا ہوا تھا۔ وہ اپنی تھکن بھول کر فوراً کچن میں آئی اور آلو نکال کر چھیلنے کے لیے چھری اٹھائی تاکہ فنگر چپس بنائے۔
ساس: زینت بیٹا کچھ کام کررہی ہو؟
زینت: اماں، اظہر کی فرمائش پر چپس…
ساس: بیٹا آپ نے تو اسے منع کردیا تھا؟
زینت: اماں وہ روئے گا تو مجھ سے برداشت نہیں ہوگا۔
ساس: ہوں… بیٹا اگر کسی وجہ سے منع کیا تھا تو اپنی بات پر قائم رہتیں، یوں تو اس کی عادت خراب کرو گی، وہ ہر جائز ناجائز چیز کے لیے اسی طرح کا رویہ اختیار کرے گا۔ کبھی کبھی اپنی بات پر قائم رہنا اولاد کے بھلے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ زینت کو ساس کی مداخلت پر غصہ آگیا، اس نے جھنجھلا کر چھری ایک طرف پٹخ دی اور اپنے کمرے میں آگئی۔ اس نے دیکھا تھوڑی دیر میں اظہر کا موڈ بھی ٹھیک ہوگیا اور وہ ہنسنے بولنے لگا۔ بلکہ جب اس نے اپنے بابا کو کھانا کھاتے دیکھا تو وہ بھی اُن کے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھ گیا تو زینت کا موڈ بھی ٹھیک ہوگیا۔ رات کو سونے کے لیے لیٹی تو تھوڑی دیر پہلے کی تمام صورت حال اُس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ اب اس نے ٹھنڈے دل سے سوچا تو اسے ساس کی بات میں وزن نظر آیا کہ واقعی وہ صحیح کہہ رہی تھیں۔ اس نے نوٹ کیا کہ نہ صرف تھوڑی دیر میں اظہر کا موڈ بھی ٹھیک ہوگیا تھا بلکہ اس نے پیٹ بھر کر کھانا بھی کھایا۔ آئندہ کے لیے اُس نے اپنی ساس کی اس نصیحت کو گرہ میں باندھ لیا۔ اس چھوٹے سے واقعے کے بعد زینت کو یہ احساس بھی ہوگیا کہ ہمارے آس پاس ایسے لوگوں کا ہونا بھی ضروری ہے جن سے ہمیں کچھ ’’اچھا‘‘ سیکھنے کو ملے۔
……٭٭٭……
راشدہ: سونیا، تمہاری ساس تو خاصی پڑھی لکھی اور سمجھ دار ہیں، اُن کے سلیقے کی بڑی تعریف سنی ہے، تمہیں تو اُن سے سیکھنے کو بہت کچھ مل جاتا ہوگا۔
سونیا: ہونہہ… وہ پہلے ہی اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتی ہیں، اگر اُن کی باتوں پر عمل کروں گی تو سر پر جا بیٹھیں گی، اس لیے مجھے تو معاف ہی رکھو (حالانکہ اسے بھی معلوم تھا کہ وہ ایک پڑھی لکھی سمجھ دار اور سگھڑ خاتون ہیں، لیکن سونیا کی ہٹ دھرمی تھی کہ کسی موقع پر جب بھی ساس نے کچھ بتانے اور سکھانے کی کوشش کی، اس نے اس پر عمل نہیں کیا۔ بیشک بعد میں کسی موقع پر اسی چیز پر یوں عمل کرتی جیسے یہ چیز اُسے اس کی ماں نے یا بہن نے سکھائی ہے۔ لیکن سونیا کی ساس اس میں بھی خوش تھی کہ چلو کچھ نہ کچھ تو اس کے پلے پڑ رہا ہے، یہی کافی ہے۔ آگے اس کے کام آئے گا۔
……٭٭٭……
یہ چند جھلکیاں جو میں نے آپ سب سے شیئر کیں، یہ میرے چاروں طرف لوگوں کی حقیقی زندگیوں سے لی گئی ہیں۔ جی ہاں بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے آس پاس ایسے لوگ موجود ہیں جن سے انہیں کچھ ’’اچھا‘‘ سیکھنے کا موقع میسر آئے۔ ایسے لوگوں کی قدر اُن سے پوچھیں جنہیں ایسے ذہین، سمجھ دار، تجربہ کار لوگوں کا ساتھ میسر نہیں ہے۔ چاہے وہ آپ کا بھلا نہ بھی چاہیں، آپ اُن کی ذہانت، اُن کے تجربات سے کچھ حاصل کرنے یا سیکھنے کے معاملے میں تعصب کا مظاہرہ نہ کریں۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنے اساتذہ، والدین، دوستوں، بچوں اور آس پڑوس میں رہنے والوں سے بھی بہت کچھ سیکھا اور حاصل کیا ہے۔ لیکن آج افسوس کے ساتھ یہ لکھ رہی ہوں کہ آس پاس بہت اچھا ہورہا ہے لیکن اس سے سیکھنے یا نصیحت پکڑنے کے لیے لوگ تیار نہیں، یہاں تک کہ والدین کی نصیحتوں پر بھی بہت سی اولاد ناک بھوں چڑھاتی ہے کہ یہ تو ان کی عادت ہے کہ ہمارے کام میں کیڑے نکالیں یا اپنا سبق یاد کرائیں۔ اسی وجہ سے کچھ والدین نے اولاد کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی بہتر جانا ہے۔ اگرچہ ایسے بچوں اور ایسے والدین کی تعداد کم ہے، لیکن اس چیز کا رجحان ہمارے معاشرے میں بڑھتا جارہا ہے جو کہ غلط روش ہے۔ مغربی معاشرے میں اولاد کو خودرو پودوں کی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے کہ ٹھوکریں کھا کر خود ہی سنبھل جائیں گے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اولاد یا کسی بھی انسان کو رہنمائی کی اشد ضرورت رہتی ہے، کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے، وہ جانوروں کی طرح زندگی نہیں گزار سکتا۔ رب العزت نے اسے عقل و شعور کی دولت سے نوازا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے سیکھے اور سکھائے، اس طرح اپنی اور دوسروں کی زندگی کو بھی سنوارے۔ ورنہ انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں ہے۔ میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ تمام معاملات میں مجھے کچھ حاصل کرنے اور سیکھنے کے لیے ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جن سے بلاتفریق کچھ حاصل کرنے کا موقع ملا، چاہے وہ میری اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ میں نے ان سے بھی بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اب بچے بھی میری عادت سے واقف ہوگئے، لہٰذا مجھ سے شیئر کرتے ہیں۔ اور جہاں کوئی کارآمد بات ہو، زندگی میں نہ صرف اسے شامل کرتی ہوں بلکہ مفید ثابت ہونے پر آگے بھی پہنچاتی ہوں۔ زندگی میں آگے بڑھنے، زندگی کی مشکلات کو کم کرنے، حوصلہ پکڑنے کے لیے آس پاس کے لوگوں سے سیکھنا اور فیض حاصل کرنا اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے مترادف ہے۔ اس لیے اُن والدین سے بھی گزارش ہے جو بچوں کے ناراض ہونے یا چڑنے کی وجہ سے لب پر مہر لگا کر صرف تماشا دیکھتے ہیں، کہ یہ غلط روش ہے۔ انہیں اپنی بات، اپنی نصیحت بچوں کے کانوں تک پہنچانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ ہاں ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ سبق کی طرح رٹا نہ لگائیں بلکہ بہ وقتِ ضرورت کچھ ایسا اُن کے سامنے کریں یا کہیں کہ اُن پر اثر ہو ،اور وہ اس نصیحت کو فخر سے نہ صرف پلے باندھیں بلکہ اس پر عمل بھی کریں۔ میری بیٹی اکثر سب دوستوں کو بھی کہتی ہے کہ میری والدہ اس طرح پیار سے باتوں ہی باتوں میں کچھ نہ کچھ میرے پلو میں باندھ دیتی ہیں جو اکیلے میں بیٹھ کر سوچتی ہوں تو اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔ زندگی کے نشیب و فراز میں یہ چیزیں مفید و معاون ثابت ہوتی ہیں۔ لہٰذا آس پاس رہنے والوں سے کوئی بھی مفید بات سیکھنے میں عار محسوس نہ کریں۔ جہاں اور جب اچھی بات، اچھی چیز مل جائے اپنے دامن میں سمیٹ لیں۔

حصہ