مجھے سوالوں کا جواب مل گیا

310

سید منورحسن
ایک طریقہ یہ بھی سوچاگیا کہ جمعیت کے باصلاحیت افراد سے رابطہ بڑھایا جائے اور انھیں بھی ادھر لانے کی کوشش کی جائیہم نے سوچ لیا کہ الیکشن ختم ہوجائیں تو ہم یہاں این ایس ایف بنائیں گے اورجمعیت کے ان ’’پارسائوں‘‘ کو سبق سکھائیںگے
جمعیت سے تعارف دو مرحلوں میںہوا۔ ایک منفی تعارف اوردوسرا مثبت تعارف۔ جہاں تک جمعیت سے منفی تعارف کا تعلق ہے یہ اُس وقت ہواجب میں سنٹرل گورنمنٹ کالج ناظم آباد میںپڑھتا تھااس وقت وہاں ایک صاحب نے جو جمعیت کے جانے جاتے تھے۔ کالج الیکشن سے کچھ قبل مجھ سے رابطہ کیااور زور دیا کہ میںالیکشن میںکھڑا ہوجائوں۔ اس کے بعد بہت سی نشستیں ان کے گھر پرہوئیں جہاں بہت اچھی دعوتیں ہوتی رہیں۔
میرے ساتھ میرے ایک دوست تھے نفیس صدّیقی ( جو پہلے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں اور پھر تحریک استقلال میں رہے)۔ ہم دونوں سے کہاگیا کہ آپ الیکشن میں کھڑے ہوں، ہم کام کریں گے اورہر ممکن تائید کریں گے جب ہم کھڑے ہوگئے تو انتخابی مہم کے دوران میںایک دن انھوں نے کہاکہ ہم آپ کی حمایت نہیںکرسکتے۔ وجہ معلوم کی گئی تو میرے بارے میںایک مجلس میں میرے دوستوں کو بتایاکہ یہ کچھ غیر سنجیدہ آدمی ہیں اورنفیس صدّیقی کے بارے میںکہاگیا کہ وہ نماز نہیںپڑھتے۔ یہ جمعیت سے ہمارا پہلاتعارف ہوا اور بہت منفی اثرات ڈالنے والا ہُوا۔ الیکشن کی گہما گہمی کی وجہ سے ہم نے کسی ردّعمل کااظہار نہیں کیا لیکن یہ سوچ لیا کہ الیکشن ختم ہوجائیں تو ہم یہاں این ایس ایف بنائیں گے اورجمعیت کے ان ’’پارسائوں‘‘ کو سبق سکھائیںگے جو وعدہ کرتے ہیں اور ایفا نہیں کرتے۔ چنانچہ دو تین ہفتہ کے بعد جب الیکشن ختم ہوگیاتو ہم نے وہاں این ایس ایف بنوائی اوراین ایس ایف کے بانی ڈاکٹر شیرافضل کو بلوایا۔ ہم کونسلر بنے کچھ دوسرے لوگ اورعہدیدار بنے۔ گویا جمعیت کی ضد میںاین ایس ایف قائم کرلی یہ ۱۹۵۸ء کی بات ہے۔
ہم این ایس ایف میںرہے تاآںکہ ایوب خان کامارشل لا لگ گیا اورسب پارٹیاں غیر قانونی قرار پائیں۔ ۱۹۵۹ء کے آخر میں این ایس ایف کے لوگوں کی کئی خفیہ میٹنگز ہوئیں اور یہ طے پایا کہ کوئی ایسی تنظیم ہونی چاہیے جو این ایس ایف کی جگہ پرکام کرے۔ اس وقت DMC میں کام مضبوط تھا۔ا س میں ڈاکٹر محبوب، ڈاکٹراحتشام، ڈاکٹر موجود، محمد احمد فاروقی، آغا جعفر وغیرہ نمایاں تھے STUDENT CIRCLE اس کانام رکھا گیا۔ دستور بنا،منظور ہوا، الیکشن ہوئے۔ اس الیکشن میں، میں اس کاصدر چُنا گیا، نفیس صدّیقی اس کے سیکرٹری جنرل ہوئے۔ اس تنظیم میں سیکنڈر ینک کے لوگوں کوآگے رکھاگیاتھااوراین ایس ایف کی اصل نظریاتی قیادت پس پردہ تھی۔ میں اس زمانے میںگورنمنٹ کالج میںبی ایس سی میں پڑھتا تھا۔تھرڈائیر میںجون ۶۰ء میں طے کیاگیاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اسٹوڈنٹس سرکل میںشامل کیاجائے۔ اورایک طریقہ یہ بھی سوچاگیا کہ جمعیت کے باصلاحیت افراد سے رابطہ بڑھایا جائے اور انھیں بھی ادھر لانے کی کوشش کی جائے اس لیے کہ جمعیت پرپابندی کی وجہ سے وہ بھی فارغ پھرتے ہیں۔ میں چونکہ ناظم آباد میںرہتاتھا اس لیے مَیںنے وہاں کے قریبی لوگوں کو اپنا ٹارگٹ بناکرکام کرنے کافیصلہ کیا۔ ان میںایک عبدالرشید صاحب تھے اورآصف صدیقی صاحب تھے یہ دونوں ڈی جے کالج میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ یہ دونوں عزیز یہ مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔ نماز تو مَیںبھی پڑھتا تھالیکن اب رابطہ کی غرض سے عزیز یہ مسجد میں پڑھنے لگا۔
یہ جون جولائی ۶۰ء کی بات ہے۔ آصف بھائی مجھے پہلے ہی سے جانتے تھے۔ رشید سے زمانہ اسکول سے تعارف تھا۔ اس بنا پریہ دونوں ایک اچھے فرد کی حیثیت سے ہی جانتے تھے لیکن انہیں این ایس ایف میں میری سرگرمیوں کا علم نہیںتھا۔
آصف صدیقی صاحب نے مجھ سے اورمیں نے اُن سے رابطہ رکھنا شروع کیا۔ یہ گویا جمعیت سے مثبت تعارف کا نقطہ آغاز تھا۔
آصف صاحب نے ’’شوشلزم‘‘ کے بارے میں میری گفتگو سُن کرپروفیسر عبدالحمید صدیقی ؒ صاحب (مرحوم) کی کتاب ’’انسانیت کی تعمیر نواوراسلام‘‘ مجھے پڑھنے کو دی جو میں نے بغیر پڑھے ہی کچھ دن کے بعد انہیں واپس کردی تھی۔
فجر کی نماز کے بعد میں اور رشید ٹہلنے کے لیے عزیزیہ مسجد سے نکلتے اوربڑی دُور تک چلے جایا کرتے تھے۔ اس دوران بحث کرتے تھے۔ اسلام اور سوشلزم کی، جو کچھ اسلام اُنھیں معلوم تھا وہ اسلام کی اور جتنا سوشلزم مجھے معلوم تھا میں سوشلز م کی۔ عبدالرشید بحث کرنے کے بادشاہ ہیں، بہت اچھے انداز میں گفتگو کرتے ہیں، مجھے یاد ہے کہ جب کچھ عرصہ گزر گیا تو میں اپنے دل میںقائل ہوگیا کہ اُن کا مؤقف اوراستدلال مضبوط ہے۔ یہ تو نظری معاملہ تھا۔ آصف بھائی اپنے کردار، اخلاق اورمحبت واخلاص سے اس دوران میں اپنا بناتے رہے ’’خطبات ‘‘ کے کچھ حصّے انھوں نے پڑھنے کو دیے غالباً مَیںنے یہ بھی اُس وقت نہیں پڑھے۔ اگست ۶۰ء میںمیرے والد صاحب کاانتقال ہُوا، آصف بھائی کارویہ میرے ساتھ اور بھی زیادہ مشفقانہ ہوگیا۔
وہاں اوربھی لوگ تھے۔ پُورا گروپ تھا۔ میں نے اپنا ٹارگٹ بنایاتھا آصف صاحب کو اور ابراہیم شیخ کویہ بھی جمعیت کے کارکن تھے۔ ابراہیم کوآخر میں اپنے ساتھ اسٹوڈنٹس سرکل میں لے بھی آیا اورانھیں اپنی تنظیم کا خزانچی بنادیا۔
۶۰ء کے اکتوبر یانومبر کی بات ہے آصف بھائی نے مجھے ’’دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات‘‘ کتاب پڑھنے کودی۔ کتاب دینے کے لیے وہ مجھے گھر لے گئے اوراس کے کچھ اقتباسات مجھے پڑھ کرسنائی۔ شاید وہ سمجھ گئے ہوئے گے کہ پہلی کتابیں میں نے پڑھے بغیر واپس کر دی ہیں، اس طرح گویامیں نے پہلی مرتبہ لٹریچر کاکوئی حصہ سُنا۔ اس سے پہلے نہ سُناتھانہ پڑھا تھا، آصف بھائی کازوربیان گرم چائے اورشامی کباب پوری نشست کانہایت گہراتاثر دل نے قبول کیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جس اسٹوڈنٹس سرکل کاکام خاصا پھیل گیا تھا۔ خفیہ میٹنگز ہوتی تھیں اور میں بدستور اس کاصدرتھا۔ یہ کتاب میں نے تھوڑی سی پڑھی اورسوچاکہ واقعتا یہ کتاب پڑھنے کے قابل ہے۔ کچھ عرصہ کے بعددسمبر یاجنوری میںمجھے نوشہرہ جانے کااتفاق ہوا۔ اپنے سب سے بڑے بھائی کے پاس چھٹیاں گزارنے جاتے ہوئے آصف بھائی نے ’’رسائل ومسائل‘‘ کی ایک دو جلدیں بھی دیں،’’دعوت اسلامی اوراس کے مطالبات ‘‘ تومیرے پاس پہلے ہی تھی۔ اسٹیشن چھوڑنے کے لیے آئے، کچھ ناشتہ ساتھ تھا۔ بغل گیرہوئے، آنکھوں ہی آنکھوں میں بہت کچھ کہا۔ اور آبدیدہ ہوکر مجھے رُخصت کیا، وہاں نوشہرہ میں مجھے یہ کتابیں پڑھنے کاموقع ملا۔ بنیادی طور پر میاں طفیل محمدصاحب کی تقریرسے متاثر ہُوا جس میںبتایا گیا ہے کہ ہم نماز میں کیاپڑھتے ہیں اور کس طرح اس سے مختلف زندگی بسر کرتے ہیں۔اتفاق سے اسی کتاب میں مولانا مودودی کے مضمون میں مجھے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے بعض سوالات کاجواب مل گیا۔اگر مجھے صحیح یاد ہے تو میں نے ان چھٹیوں میں’’دعوتِ اسلامی اوراس کے مطالبات ‘‘ کو تسلسل کے ساتھ کوئی سترہ مرتبہ پڑھ اورپورے ایک ماہ اسی کاوردکرتارہا۔
مارچ میں جب میں کراچی واپس پہنچا ہوں تو ذہنی اعتبار سے ایک تبدیل شدہ انسان تھا اب فکریہ تھی کہ اسٹوڈنٹس سرکل کا کیا کیا جائے جس کاصدرمیں خود ہوں۔ نوشہرہ سے واپس آیاتو یہ عزم کرکے آیاتھاکہ نمازیں تمام باجماعت اداہوںگی اور اپنے دیگر’’مشاغلِ جاہلانہ‘‘، موسیقی اور فلم وغیرہ سے پرہیز کروں گا۔ اس وقت خاص طور پرمجھے موسیقی سے بہت لگائوتھا اوراس غرض کے لیے ایک کلب میںفن کو سیکھنے سکھانے کاسلسلہ جاری تھا۔
اُس سال گورنمنٹ کالج میںموسیقی کے ایک مقابلے میںمَیںنے انعام حاصل کیا تھا۔ اسی سال انگریزی مباحثہ میں بھی مجھے اوّل انعام ملاتھا اور مقابلہ حسن قرأت میں بھی انعام ملاتھا۔ مَیں کالج کے انگریزی میگزین کاایدیٹر بھی تھا۔ مجھے یہ خیال گزرا کہ بہت سے بُری عادات کو بیک وقت چھوڑنا شاید ممکن نہ ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسافضل کیااوراس طرح غیب سے تائید کی کہ ہر مشکل آسان ہوتی تھی۔ حلقہ دوستی تبدیل ہوا، شب وروز بدل گئے، معمولات اور مصروفیات بدل گئیں۔ دل کی دنیا کیا بدلی کہ ہر سو کایا پلٹ ہوگئی۔گھرمیںبھی لوگوں نے نوٹ کیا کہ اب یہ ریڈیو سے کان لگائے نہیںبیٹھارہتا۔ جس سے جتنا رابطہ تھا اُسے تبدیلی کااحساس اتنا قدر شدید ہوا اور ایک بدلے ہُوئے انسان کواپنے قریب پایا۔ لیکن اصل مسئلہ اسٹوڈنٹس سرکل کاتھا۔ نفیس صدیقی کے ساتھ کچھ اختلافات پیدا ہوگئے، چنانچہ میں نے ان کو بنیاد بناکر، کہ آپس کے اختلافات شدید ہو گئے ہیںاورلوگ کام نہیںکرتے وغیرہ وغیرہ، ایک اجلاس بلاکرتنظیم ختم کرنے کاباقاعدہ فیصلہ کروا لیا۔ اس وقت این ایس ایف کے لوگوں کو شبہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ مجھ میں کیاانقلاب رونما ہو چکا ہے۔
اس طرح گویا آصف بھائی اپنابنانے میں کامیاب رہے اورمیں انھیں اپنے ساتھ لے جانے میں ناکام ٹھہرا اورااس ناکامی میںہی دراصل میری کامیابی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کافضل خاص تھا، اس کی تائید شاملِ حال تھی اوراپنے بندے پر اس کی عنایت تھی کہ میںہَدایت یا ب ہوسکا۔
٭…٭

حصہ