ناظم کا حکم ہے

414

جمعیت کے سابق ناظم اعلیٰ محترم سراج الحق سے ایک ملاقات کا احوال
میں کہہ سکتا ہوں کہ میں لٹریچر سے نہیں بلکہ ناظم کے کردار اور اس کی لگن سے متاثر ہو کر جمعیت میں آ یا
سوال :آپ جمعیت میں کیسے آئے ؟ کس سے متاثر ہوئے ؟
جواب: میں آٹھویں میں کارکن بنا تھا اور نہم میں رفیق ۔دہم میں امیدوار رکنیت بنا ۔ اصل تاریخ تو مجھے یاد نہیں اور پھر ۷ جنوری ۱۹۸۰ء کومیں فرسٹ ایئر میں رکن بنا ۔
جمعیت میں آ نے کا اور متاثر ہونے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ میں کئی وجوہات کی بنا پر جمعیت سے متاثر ہوا ۔مجھے سب سے زیادہ متاثر کرنے والی چیز میرے ناظم کا مثالی کردار تھا ۔اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ میں لٹریچر سے نہیں بلکہ ناظم کے کردار اور اس کی لگن سے متاثر ہو کر جمعیت میں آ یا ۔ ناظم کا کردار کتاب کی صورت میں ملا تھا جو میں نے قریب سے دیکھا اور بار بار پڑھا ۔
سوال : کون ناظم تھے ؟
ج: میرے خیال میں نام لینا مناسب نہیں ، اللہ پاک ان کو اجر دیں ۔
یہ سخت گرمیوں میں رمضان المبارک کے ایک دن کی بات ہے کہ دوپہر کو میرے ناظم محترم دس کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کر کے میرے گائوں آئے ۔ ان کا چہرہ سفر کی تھکان کو ظاہر کر رہا تھا ، کپڑے بھیگ چکے تھے اور سارا جسم پسینہ میں نہایا ہوا تھا ۔دس کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے وہ میرے گھر ، جو کہ ایک پہاڑی پر واقع ہے ، آئے تو اس کا نتیجہ ہوا کہ جب اُنھوں نے مجھے کہا کہ آپ کو میرے ساتھ جا نا ہے تو میں انکار نہیں کر سکا ۔مجھے یاد ہے کہ میرے لیے میری والدہ صاحبہ نے کپڑے دھوئے تھے ، ابھی وہ خشک نہیں ہوئے تھے تو ناظم صاحب نے کہا کہ ان کو ایسے ہی پہن لیں ۔
سوال: ۔ گیلے ہی ؟
جواب: ۔ جی ہاں ! گیلے ہی ۔ میں نے جب وہ پہنے تو والدہ بھی پریشان ہوئیں کہ کیا وجہ ہے ؟ میں نے کہا ناظم صاحب کا حکم ہے کہ ایسے ہی پہن لو ، وہ مہمان بھی ہیں ، دور سے آئے ہیں ۔ والدہ صاحبہ بھی حیران ہوئیں کہ ناظم صاحب کیا بلا ہوئے کہ میرا بیٹا اس سے اتنا ڈرتا ہے اور اتنا خیال کرتا ہے ۔میں نے وہ گیلے کپڑے پہنے تو ناظم صاحب کہنے لگے کہ آہستہ آہستہ چلنے کی بجائے دوڑ لگائیں تا کہ کپڑے خشک ہو جائیں ۔
سوال :۔ یہ نویں جماعت کی بات ہے نا !
جواب: جی ہاں ! یہ نہم کی بات ہے جب میں رفیق بنا تھا ۔اسی واقعے نے بہت متاثر کیا۔ ناظم صاحب جو کہتے میں کرتا تھا ۔سب سے پہلا اجتماع مجھے کہ ہم آٹھویں کے امتحان کے لیے اپنے علاقے سے آئے تھے ۔اس وقت سب لوگ بورڈ کے امتحان نہیں دیتے تھے چند لوگ امتحان دیتے تھے ۔ جب میں نے اجتماع کو دیکھا تو سب چہرے اجنبی تھے ۔ان کے پاس بیٹھنا اور ان سے بات کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی ۔ ہم وہاں سے نکل آئے۔ ہمیں جاتے دیکھ کر ناظم ڈویژن ہمارے پیچھے آئے ۔میرے ساتھ اور ساتھی بھی واپس آ رہے تھے ۔ان کے پاس کتاب تھی جو گر گئی اور قلم بھی۔ انہوں نے ہمیں پکڑا اور کان سے پکڑ کر اجتماع میں لے گئے ۔میں بھی ساتھ گیا ۔اس وقت اجتماع میں جو بات ہوئی تھی وہ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ’’ جس طرح آپ لوگوں نے امتحانی ہال میں پرچہ دیا اور تین گھنٹے گزارے، آخر میں ممتحن نے اعلان کیا کہ وقت ختم ہو گیا ہے لکھنا بند کر دیجیے ۔‘‘ یہ دنیا بھی اسی طرح ایک امتحان گاہ ہے ۔یہاں پر جب وقت ختم ہو گیا تو حکم ہو گا کہ سٹاپ رائٹنگ ، ٹائم از اوور ( لکھنا بند کر دیجیے ، وقت ختم ہو گیا ہے ) پھر آپ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ عمل کے دروازے بند ہو جائیں گے ۔اس لیے جس طرح امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے طالب علم محنت کرتا ہے اور پھر پاس ہو کر خوشی خوشی اپنے والدین کو نتیجہ سے آگاہ کرتا ہے ۔اسی طرح اس دنیا کے دارالمطالعہ میں بھی آدمی نیک عمل کرتا ہے تو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملتا ہے تو وہ خوشی خوشی اپنے دوستوں کے پاس جاتا ہے ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے کسی کے منہ سے امتحانی ہال اور دنیا وآ خرت کے امتحان کا موازنہ سنا ۔ایک ربط معلوم ہوا ۔تو یہ پہلے الفاظ تھے جو ناظم کے منھ سے سنے ۔
سوال: ۔ اس کے بعد کیا ہوا ؟
جواب : ۔ میں جب جمعیت میں آ یا تو گورنمنٹ ہائی سکول حاجی آباد میں پڑھتا تھا۔ وہاں میرے والد صاحب استاد تھے ۔ ناظم صاحب کے کہنے پر میں گورنمنٹ ہائی سکول تھا نہ مالا کنڈ ایجنسی آ گیا اور وہاں داخل ہو گیا ۔اس میں تقریباََ چھہ مہینے رہا ۔ اس کے بعد ناظم صاحب نے کہا کہ گورنمنٹ ہائی سکول تیمر گرہ چلے جائو تو میں وہاں چلا گیا ۔
سوال : ۔ یہ سب سکول آپ جمعیت کے کام کے لیے بدلتے رہے ؟
جواب : ۔ ہاں ! ناظم صاحب کا حکم تھا ۔وہاں میں نے تقریباً چھہ مہینے گزارے تو ناظم صاحب نے کہا کہ اب آپ کی منتقلی گورنمنٹ ہائی سکول خال ہو گئی ہے چنانچہ میں سرٹیفکیٹ لے کر وہاں چلا گیا۔
سوال: ۔ آپ سکول ہی بدلتے رہے ؟
جواب: ۔ ہاں! بالکل۔
سوال: ۔ تعلیم متاثر نہیں ہوئی آپ کی ؟
جواب : ۔ لیکن جب ناظم صاحب کا کہنا ہو تو کرنا ضروری تھا ۔میرے ناظم میرے ساتھ پڑھائی میں بھی مدد کرتے تھے ۔مجھے ٹیوشن پڑھاتے تھے اور امتحان کے دنوں کے قریب مجھے ساتھ بٹھا کر میری پڑھائی میں مدد کرتے تھے ۔جب میں دسویں میں تھا تو مالا کنڈ جمعیت نے ایک پورے ڈویژن کی سطح پر ایک مہینے کے لیے منتخب رفقا اور امیدواران کے لیے ٹیوشن سنٹر کا بھی اہتمام کیا تھا ۔
پھر ایک مہینے کے لیے ہم پڑھنے کے لیے جمع ہوتے ۔ایک علاقہ تھا بانڈئی ضلع سوات۔ وہاں جمعیت نے ہمارے لیے اساتذہ کا بھی اہتمام کیا تھا اس لیے تعلیم متاثر نہیں ہوئی ۔
سوال : ۔ آپ جب لاہور آئے تو آپ کے والدین نے آپ کو روکا نہیں تھا کہ کہاں جارہے ہیں ؟
جواب : ۔ جب میں پشاور میں ہوتا تھا تو والدین کو معلوم نہ تھا کہ میری کیا کیا ذمہ داریاں ہیں اور ان کے یہ تقاضے ہیں وہاں میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں بھی نبھاتا رہا لیکن جب مرکزی ذمہ داری لگی تو پھر میں نے والدصاحب کو ایک خط لکھا کہ اس طرح مجھ پر اب یہ ذمہ داری عائد ہوئی ہے ۔جمعیت مجاہدوں کی تنظیم بھی ہے اور شہدا ء کا سرمایہ بھی ہے ۔اس میں ہزاروں طالب علم ایسے ہیں جو صبح و شام خدا کے دین کے لیے کام کرتے ہیں ۔مجھ سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں انہوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اوران کی عظیم روایات کے طور پر بھی اور ذمہ داری کے تقاضوں کے اعتبار سے بھی مجھے اس کو ادا کرنا ہے لیکن آپ کی دعائوں کے بغیر میں اس امتحان سے نہیں گزر سکتا ۔ اس لیے آپ خلوص دل کے ساتھ مجھے اجازت بھی دیجیے اور دعا بھی ،تا کہ میں اس ذمہ داری کو ادا کر سکوں ۔ یہ آزمائش بھی ہے اور اگر میں اس آزمائش اور امتحان میں کامیاب ہو گیا تو اس کی وجہ سے قیامت کے دن آپ کے سر پر بھی اللہ تعالیٰ عزت کا تاج رکھے گا جو ان والدین کے لیے ہو گا جن کی اولاد قرآن سیکھے اور دین کی خدمت کرے ۔اس لیے میں چاہتا ہوں کہ قیامت میں سرخروئی کے لیے آپ مجھے اجازت بھی دیں اور دعائیں بھی ۔جب میں گھر گیا تو اس خط کا اثر ہوا تھا ۔میرے والد صاحب ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ کہاں جا رہے ہو ؟ کیا کرتے ہو ؟لیکن اس بار میں گھر گیا تو انہوں نے کہا کہ ہر پندرہ دن بعد ایک خط لکھا کریں کہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں ؟ اب میں گھر گیا تو باقاعدہ بیٹھ کر پوچھا کہ بلوچستان میں جمعیت کا کیا حال ہے ؟ پنجاب کا الیکشن کیسا رہا ؟ صوبہ سرحد میں کیا امکانات ہیں ! جس طرح کارکن دریافت کرتے ہیں ،سوال کرتے ہیں ایسا ہی اشتیاق میں نے ان میں محسوس کیا ۔
سوال: ۔ تو گویا وہ جمعیت سے متاثر ہوئے ؟
جواب: ۔ بالکل ! جب میں گھر میں نہیں ہوتا تھا تو تعریف کرتے تھے کہ تبدیلی بھی آئی ہے اور بہتری بھی پیداہوئی ہے لیکن جب میں موجود ہوتا تو وہ اتنی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے۔
سوال : ۔ جمعیت کے کارکنان کے والدین اور قریبی عزیزوں کا رویہ اور تاثر حوصلہ افزا کیوں نہیں ہوتا ؟ آپ کے والدین کیا سوچتے ہیں ؟
جواب : ۔ میری والدہ جماعت اور جمعیت کو پسند کرتی ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ آج کے معاشرے میں اولاد والدین کا احترام نہیں کرتی ۔جب وہ اٹھیں نہ ان کے قدموں میں جوتے رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کی خدمت کرتے ہیں ۔ رات کو سوتے وقت ان کے سر اور ٹانگیں نہیں دباتے ، ان کو سلام نہیں کرتے ۔ اس طرح جب جمعیت کا کارکن یہ سب کام کرتا ہے تو والدین بہت خوش ہوتے ہیں اور اپنے پڑوسیوں کو بھی بتاتے ہیں کہ میرا بچہ تو ایسا ہے اور خوب خدمت کرتا ہے ۔یہ چیزیں انہیں حوصلہ ، جذبہ اور قوت دیتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ تحریک میں شامل ہونے پر تیار ہو جاتے ہیں یا کم از کم دعائیں ضرور دیتے ہیں ۔یہی حال میرے والدین کا بھی ہے ۔وہ جماعت اور جمعیت کو بہتر سمجھتے ہیں لیکن جب کارکن یہ سارے کام نہیں کرتا ، والدین کا خیال نہیں رکھتا ، گھر پر وقت نہیں دیتا۔ ان کے ساتھ ادب اور احترام کا پورا خیال نہیں رکھتا تو الٹا اثر ہوتا ہے جو کہ غلط طریقہ ہے اور اس کو ختم ہونا چاہیے ۔جہاں والدین ایسے بچوں کو برداشت کرتے ہیں، جو فلمیںدیکھتے ہیں، جوا کھیلتے ہیں، فحاشی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ان کو گھر سے نہیں نکالتے ہیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ وہ نمازی ، متقی اور خادم اسلام کو برداشت نہ کریں۔

حصہ