بچوں کی تربیت، اک جہد مسلسل

225

ام محمد عبداللہ
آج پھر دانیال اور رابعہ دانت صاف کیے بغیر سو گئے۔ بلال نے بھی عشاء کی نماز نہیں پڑھی۔ میں نے افسردگی سے سوئے ہوئے بچوں پر نظر دوڑائی۔ میں نہیں کر پارہی ان کی ڈھنگ سے تربیت۔ میں نے مایوسی سے خود کلامی کرتے ہوئے بچوں کے بیگ سمیٹے۔ ہاں کام سمیٹتے ہوئے سورۃ الملک کی تلاوت کر لوں۔ میرا دھیان بدل گیا۔ میں تلاوت کرنے لگی۔ پندرھویں آیت پر آکر اٹک گئی۔ اللہ دو سال پہلے اس سورۃ کو حفظ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ مجھ سے کوئی کام بھی پایہ تکمیل تک کیوں نہیں پہنچتا؟ بے بسی سے میں نے سوچا۔ ایک آنسو بھی پلکوں کے بند توڑ گیا تھا۔ بد دلی سے آ کر میں بستر میں لیٹ گئی۔
پچھلے پندرہ دنوں سے خود فجر کی نماز پڑھ کر میں بچوں کو بھی اٹھا دیا کرتی تھی۔ آج طبیعت پر ایسی مردہ دلی چھائی تھی کہ میری اپنی نماز بھی قضا ہو گئی۔ ہڑبڑا کر جو اٹھی تو بچوں کے اسکول کا وقت ہو رہا تھا۔ جلدی جلدی بچوں کو جگا کر میں ناشتہ بنانے میں مصروف ہو گئی۔ ساتھ کمرے سے تیار ہوتے ہوئے بچوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ ’’آج میں نے فجر کی نماز نہیں پڑھی‘‘، یہ رابعہ تھی۔ ’’ہم نے بھی نہیں پڑھی‘‘، دانیال کہنے لگا۔ ’’پچھلے کچھ دنوں سے تو امی زور و شور سے اٹھا رہی تھیں۔ آج انہوں نے اٹھایا ہی نہیں‘‘، مجھے بچوں کی باتیں سن کر سخت شرمندگی ہونے لگی۔
ناشتے کے بعد میں گھر پر اکیلی تھی۔ عجیب جھنجھلاہٹ کا شکار مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا آخر میں ایک اچھی ماں کیسے بن سکتی ہوں؟ کیسے اپنی اولاد کی بہترین تربیت کر سکتی ہوں؟ کچھ دن پہلے ایک مضمون میں پڑھا تھا کہ دین دار عورت ہی اچھی ماں ثابت ہو سکتی ہے تب سے الھم فقہ فی الدین کی دعا بھی گاہے بگاہے پڑھنے لگی تھی۔ قرآن پاک کا ترجمہ تفسیر اور حدیث بھی پڑھنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ میں کوشش کرتی کہ اچھے سے نماز پڑھوں اور قرآن پاک کی تلاوت بھی۔ مگر اس وقت تو بے چینی سوا تھی۔ گھر کا کام چھوڑ حدیث کی کتاب لے کر بیٹھ گئی۔
عنوان تھا صبر و استقامت۔ میں پڑھنے لگی۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اور کسی شخص کو صبر سے بڑھ کر اچھا اور تحفہ نہیں دیا گیا۔‘‘ صبر ایک ایسی صفت ہے جو مومن کے لیے دنیا اور آخرت کا سرمایہ ہے۔ صبر کی یہ اہمیت کیوں ہے؟ میں نے سوچا۔آگے لکھا تھا۔ ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہاں انسان کو دو حالت سے لازماً سابقہ پیش آتا ہے ایک تو یہ ہے کہ یہاں ہر چیز ہماری پسند کے مطابق نہیں ہے، بلکہ اکثرحالات ہماری مرضی کے خلاف ظہور میں آتے ہیں اور ان کو بدل ڈالنا ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔ مثلاً بیماری، رنج و غم اور مصائب و مشکلات۔ دوسرے یہ کہ انسان اس زندگی میں جو عقیدہ و مسلک اور طرزِ زندگی اختیار کرتا ہے اور اپنا جو نصب العین مقرر کرتا ہے اس کی پابندی اور اس کے حصول میں ایک طرف تو اسے باہر کے ماحول سے مزاحمت اور کشمکش سے سابقہ پیش آتا ہے۔
کیونکہ اس کے اس عقیدہ و مسلک اور طرزِ زندگی کے اثرات اس سے مختلف عقیدہ اور نصب العین رکھنے والوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور وہ اس پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں اور دوسری طرف انسان کو اپنی ذات کے اندر سے بھی بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ خود اس کا اپنا نفس بھی بسا اوقات اس کے انتخاب کردہ طرزِ زندگی اور نصب العین کے ناگزیر تقاضوں کو قبول کرنے سے پہلو تہی کرتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں انسان کی جو اخلاقی صفت اس کی مدد کرتی ہے۔ وہ صبر ہے یعنی ایک صبر تو وہ ہے جو انسان بعض غیر اختیاری حالات و مصائب اور پریشانیوں کے مقابلے میں اختیار کرتا ہے اور اس صبر کا مظاہرہ اس طرح ہوتا ہے کہ وہ گھبراہٹ اور مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔ ایک صبر وہ ہے جس کا مظاہرہ اس کی طرف سے اپنے نصب العین کے معاملے میں مستقل مزاجی کی شکل میں ہوتا ہے۔ ان دونوں کے نتیجے میں انسان کے اندر ایک طرح کی اخلاقی بلندی اور خود اعتمادی کی صفات جنم لیتی ہیں۔ اس طرح یہ صبر انسان کی شخصیت کی تعمیر کاسبب بنتا ہے۔
صبر کی صفت اگرچہ ہر انسان کے لیے ایک زبردست قوتِ حیات ہے، لیکن ایک مومن تو اس سے ایک لمحے کے لئے بھی بے نیاز نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی پوری زندگی ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے، اولاً اس دنیا میں سرگرم باطل طاقتوں کے خلاف، اور ثانیاً اس نفس کے خلاف جو ہر اچھی بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،’’اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے جس پر اس کا اختیار کرنے والا ہمیشگی اختیار کرے۔‘‘ (متفق علیہ)۔مقصود یہ نہیں ہے کہ آدمی وقتاً فوقتاً نیکیوں کے کچھ کام انجام دے بلکہ مقصود یہ ہے کہ اس کی پوری زندگی ان اعمال صالح پر دوام اختیار کرے۔ اس لیے یہ نصیحت فرمائی گئی کہ اعتدال و توازن کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور مستقل مزاجی کے ساتھ نیکیوں پر کار بند رہا جائے۔
الحمدللہ رب العالمین۔ مجھے لگا جیسے اندھیرے چھٹ گئے ہوں۔ بچوں کی اچھی تربیت کے لیے مجھے کچھ اہداف مقرر کر کے ان پر دوام اختیار کرنا تھا۔ ہاں مستقل مزاجی سے اگر میں انہیں روز ایک آیت پڑھاؤں، روز ایک جملہ سکھاؤں روز ایک سوال کرواؤں تو ہفتے کے سات اور مہینے کی تیس آیات،جملے اور سوال بنتے ہیں۔ میرا دل کھل اٹھا۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے مجھے مستقل جدوجہد کرنی تھی۔ اپنے ماحول سے بھی مستقل جنگ کرنی تھی اور اپنے نفس سے بھی۔

حصہ