صحافی اور صحافت پر براوقت

1179

زین صدیقی
ایم اے ماس کمیونی کیشن کیے کئی برس بیت گئے۔ یونیورسٹی میں کسی کا م کے سلسلے میں جانا ہوا تو وہاں اساتذہ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اور صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ سے بھی۔ کئی طلبہ کو جب پتا چلا کہ ہم صحافت سے وابستہ ہیں تو ان کی دل چسپی میں اضافہ ہوا اور وہ ہم سے گویا ہوئے۔کئی معصومانہ سوالا ت کیے۔ ایک طالب علم نے کہا کہ کیا میں انٹرن شپ کرسکتا ہوں، ایک نے سوال پوچھا کہ ہم صحافت کے طالب علم ہیں بتائیں اس کا مستقبل کیا ہے؟ ایک اور طالب علم نے سوال کیا مجھے جاب مل جائے گی؟ مختلف سوالات سن کر ہم سوچ میں پڑ گئے، اس صورت حال میں ہمارے پاس ایک ہی ٹکا سا جواب تھا جو موجود صورت حال کے لحاظ سے حقیقت کے قریب تر تھا کہ اس شعبے کو اختیار نہ کیا جائے۔ لیکن ہم نے ان تمام سوالات کرنے والوں سے یکایک ایک سوال کرڈالا، یہ بتائیں کہ آپ یہ شعبہ کیوں اختیار کرنا چاہتے ہیں؟ ایک طالب علم نے کہا کہ یہ ایک مشنری شعبہ ہے، میں صحافی بن کر بطور مشن اپنانا چاہتا ہوں۔ دوسرے طالب علم نے کہا کہ یہ میڈیا کا دور ہے، اس میں چارم ہے اور مواقع ہیں۔ ایک اور طالب علم نے کہا کہ یہ اچھا شعبہ ہے، اس میں عزت ہے اور پیسہ بھی ہے۔ میں ان تما م طلبہ کی باتیں غور سے سن رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا کہ یہ چند طالب علموں کے سوالات نہیںہیں بلکہ ملک کی تمام یونیورسٹیز میں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں طلبہ کے سوالات ہیں اور تمام طلبہ عین اسی سوچ کے مطابق تعلیم حاصل کررہے ہیں لیکن وہ اس تعلیم کے بعد اس کے مضمرات سے لاعلم ہیں۔ ہم نے ان تمام طلبہ کو انتہائی متانت سے دیکھا اورکہا آج دور بہت بدل چکا ہے، میری ذاتی رائے ہے کہ اگرآپ کوئی بھی کام دیانت داری سے کرتے ہیںتو یہ ازخود مشن بن جاتا ہے اور اگرآپ محض پیسے اور شہرت کمانے کے خواہش مند ہیں تو یہ کام ایک پیشہ ہوتا ہے، رہا عزت والے کام کی بات توآپ کوئی بھی کام کرلیجیے وہاں ایمانداری کو اپنا شعار بنایئے آپ کو عزت ضرور ملے گی۔ آپ اگر کسی بھی شعبے میں ایمان داری سے کام کرتے ہیں، دوسروں کے لیے آسانیا ں پیدا کرتے ہیں تو یہ بھی آپ براہ راست خدمت کر رہے ہوتے ہیں ۔
ہم ان طلبہ سے کوئی منفی بات نہیں کرناچاہتے تھے کہ یہ اس شعبے سے بدگماں ہوں، اور بھٹک کر اپنی سمت غلط جانب نہ موڑ لیں۔ حقیقت تو بہت دل خراش ہے۔ کسی زمانے میں یہ شعبہ واقعی مشنری تھا۔ آج اس شعبے کا ایک المیہ یہ ہے کہ تمام نشریاتی اداروں میں اپنے قواعد وضوابط موجود ہیں جوکارکنوں پر لاگوکرنے کے لیے ہیں اوروقتاً فوقتاً ادارے ان کی تجدید کرتے رہتے ہیں، مگر کارکنان کے حقوق کے لیے آج تک کوئی قاعدہ نہیں بنایا گیا۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ ہم ایک مستحکم نجی نشریاتی ادارے کے ساتھ 5 سال سے زائد عرصے تک منسلک رہے۔ وہاں سے ملازمت چھوڑنے سے قبل ایک ماہ کا نوٹس بھی دیا جیسا کہ ہر جگہ رائج ہے، مگر اس ادارے میں ہمیں کہا گیا کہ آپ کو ملازمت چھوڑنے سے 3 ماہ قبل ادارے کو اطلاع دینا ہوگی۔ یہ بات ہمیں بہت عجیب لگی کہ کون سا ادارہ ہے جہاں تین ماہ کا نوٹس دیاجاتا ہے ،کون سا ادارہ ہے جو آپ کا تین ماہ انتظار کرے گا کہ صاحب آئیں گے‘ یہ اسامی ان کے لیے خالی رکھنی ہے۔ یہ بات تو لیبر قوانین کے بھی منافی ہے۔ خیر اس ادارے میں ہمیں خطیر رقم کے واجبات چھوڑنا پڑے۔
یہاں تعلیم کی کوئی قید نہیں ہے‘ ہم نے میٹرک پاس صحافی بھی دیکھے اورانٹر پاس بھی گریجویٹ بھی دیکھے ایم اے بھی، اگر آپ میٹرک پاس بھی ہیں اور ’’تھوڑ اکام کا تجربہ‘‘ ہے تو آپ کسی چھوٹے ادارے سے منسلک ہوسکتے ہیں۔ چند بڑے اداروں میں ایم اے کی شرط پرعمل کیا جارہا ہے۔ چھوٹے اخبارات میں ایک صحافی کی تنخواہ مزدورکے برابر ہ ہوتی ہے، چند بڑے اخبار میں مناسب تنخوا ہ ہے مگر موجودہ مہنگائی کے لحاظ سے 50 ہزار تنخواہ بھی 30 ہزارکے برابر ہوگئی ہے، سوکھی تنخواہ ملتی ہے ، مراعات کا نام مت لیجیے، آپ کو نہ بونس ملے گا نہ کوئی انکریمنٹ ، نہ آپ ہنگامی صورت حال میں کوئی قرضہ لے سکتے ہیں، آپ بیمار پڑ جائیں، بستر مرگ پر پہنچ جائیں، سوائے چند اداروں کے جو آپ کو انشورنس کی مد میں صحت کی سہولت دے رہے ہیں‘ اور کسی نشریاتی ادارے میں یہ سہولت نہیں ہے۔ وہ بھی اسپتال میں داخلے پر۔آپ شدید زخمی ہوں گے۔ جب آپ کو دل کا دورہ پڑے یا اس جیسا کوئی اور مسئلہ درپیش ہوگا، اصل مسئلہ تو اوپی ڈی کا ہے،اس کا نام بھول جایئے حالاں کہ اوپی ڈی کی مد میں بچوں والے گھر میں ہر ماہ ہزاروں روپے خرچ ہورہے ہوتے ہیں ۔
ہمیں بیشتر اداروں میں نہ تو ملازمت کا لیٹر دیا جاتاہے ،نہ ہمیں مستقل کیا جاتا، ایک زمانے میں چند بڑے اخبارات میں صحافتی ملازمین مستقل ہوتے تھے مگر ان اداروں نے ان سے بھی جان چھڑالی ہے اور اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی کو مستقل کیا جائے۔ ہمیں پینشن ملتی ہے نہ گریجویٹی، لیو اِن کیش منٹ ملتی ہے نہ کوئی بونس نام کی چیز، مستقبل کا کوئی پلان نہیں نہ کوئی مالی تحفظ، اس کے لیے ہم خود بھی اس کی منصوبہ بندی نہیںکرسکتے کیوں کہ تنخواہ ہی اتنی تھوڑی ہوتی ہے کہ اس میں یومیہ دال روٹی چل جائے کافی ہے۔ بیوی بچوں کی خواہشات پوری کرنا، بچوں کو ہائی لیول اسکولز میں پڑھا نا تو بہت دور کی بات ہے ۔
ایک زمانے میںکہا جاتا تھا پاکستان صحافیوں کے قتل کے لحاظ سے خطرناک ملکوں کی فہرست میں ہے،کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ صحافیوں کے حقوق کو سلب کرنے اور معاشی قتل میں بھی سرفہرست ہے۔
صحافی برادری کے لیے آج صورت حال مخدوش ہے، بڑے چینلز بڑے کاروباری ہیں۔ اداروں میں پہلے لوگوں کو بھرلیا جاتا ہے پھر چھانٹی کی جاتی ہے جو سنگین مذاق ہے۔ ریاست کے چوتھے ستون کا آج کوئی کوئی پرسان حال نہیں،شدید غیر یقینی اوراصطراب کی کیفیت ہے ، جس کے باعث شعبے میں آجر اوراجیر کا تعلق میاں بیوی کے تعلق کی طرح نازک ہوچکا ہے،جو دکھنے میں انتہائی مضبوط مگر گھر ختم ہونے میں لمحوں کی مسافت پر ہے۔
صحافیوں کی کوئی سوشل لائف نہیں ہوتی ،آپ کے یہاں شادی ہے ،کوئی تقریب ہے،بچوں کی تفریح ،آپ اپنے رشتہ دراروں میں موت میت میں شریک ہونے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ڈیسک پر کام کرنے والے لوگ اپنی راتیں کالی کرتے ہیں پرتنخواہ کے سواکوئی انسینٹو نہیں دیا جاتا۔یہ لوگ نیند کی کمی اورغیر معتدل معمولات سے اپنی زندگی کے ایام کو کم کرنے میں مصروف ہیں ،بہت سے لوگ شوگر اورہارٹ کے مریض بن جاتے ہیں ۔یہ ساری صورتحال ایک صحافی کیلئے تکلیف کا باعث ہے ۔
گزشتہ چند سال میں چند بڑے اخبارات آنے سے کچھ امید بندھی تھی ، نئے اداروں میں صحافیوں کی تنخواہوں کی شرح میں کچھ اضافہ ہوا مگر اب اچانک غیریقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ایک بڑے اورمضبوط نشریاتی ادارے کے شام کے اخبارمیں ملازمین کام کرنے پہنچے توان کے ہاتھوں میں لیٹرتھما دیئے گئے جن میں اخبارکومکمل بند کرنے اورمالی خسارے سے متعلق چند نکات درج تھے اورساتھ ہی ان کی ملازمتوں کیلئے بھی انہیں ٹاٹابائے بائے کہا گیا ۔لاہوراورکراچی میں اخبارات بندکرکے 500ملازمین کو بیک جنبش قلم فارغ کردیا گیا،جبکہ مختلف اخبارات وٹی وی چینلز میں گزشتہ دوماہ ہے چھانٹیوں کا عمل جاری تھا اوروہاں سے بھی سیکڑوں ملازمین فارغ کیے جا چکے ہیں ۔
کسی بھی شعبے اورمحکمے میں کچھ یونینز ہوتی ہیں کچھ کو پاکٹ یونین بھی کہا جاتا ہے ۔ہمارے یہاں نشریاتی اداروں میں تو کوئی یونین نہیں ہے مگر علیحدہ سے صحافتی تنظیمیں موجود ہیں ۔ان کا کردار ہمیں آج تک سمجھ نہیں آیا ،سوائے ایک آدھ مظاہرے یا بیان کے کبھی انہوں نے صحافیو ں کے ان مسائل پر کام نہیں کیا جن کا اس کالم میں تذکرہ ہے ،جس سے ہمیں اخباری مالکان کے ساتھ گٹھ جوڑکا شائبہ گزرتا ہے، وہ ہمیں آجر کی زیادہ ہمدرد نظرآتی ہیں، اجیر کی ہمددر ہوتیں تو ملازمتیں چھن جانے پر احتجاج کے اور بھی کئی طریقے ہیںجو اختیار کیے جاسکتے تھے۔ان طریقوں سے ملازمتیں بے شک بحال نہ ہوتیں کم از کم ان کا اپنا کردار توواضح کردیتے کہ ہم اپنے پیٹی بھائیوں سے مخلص ہیں ۔ان تنظیموں نے مایوسی کے سواکچھ دیا بھی نہیں ۔اپنے اسی طرزعمل کی وجہ سے وہ آجر کے مفادات کی محافظ نظرآتی ہیں ۔وہ تو صحافیوں کیلئے ویج بورڈ ایوارڈ پر بھی آج تک عملدرآمد نہیں کراسکیں ۔
محکمہ اطلاعات حکومت نے پاکستان 360اخبارات وجرائد بند کردیے ہیں۔ ان میں اکثریت ڈمی تھے ،یہ اچھی بات ہے۔ وہ اخبارات و رسائل نہیں چلنے چاہئیںجو خالی نام کے ہوں، مگر بڑے مضبوط اداروں کا اپنے ذیلی اداروں کو بند کرنا اور کے ملازمین کو بیک جنبش قلم نکالنا اوران کی تنخواہوں سے یہ کہہ کر کٹوتی کرنا کہ انہیں نکالا نہیں جارہا تنخواہوں سے کچھ کٹوتی کی جارہی ہے، سراسرظلم ہے، یہ ان مخلص صحافی ملازمین سے ناانصافی ہے جو تنخواہ کے سواکسی سہولت کے بغیر سال ہا سال سے بڑے اخلاص کے ساتھ کام کررہے ہیں ،چند اداروں سے کسی ملازم کو فارغ نہیں کیا گیا ،یہ خوش آئند بات ہے پر وہاں بھی خاص قسم کا اصطراب اور غیریقینی کی کیفیت موجود ہے ۔
ہم جہاں دیگر شعبہ جات میں ظلم ہوتا دیکھ رہے تھے وہاںآج دوسروں کیلئے حق کی آواز بلند کرنے والے خودعتاب کا شکار ہیں ،25سال سے صحافتی تنظیموں کا کرداردیکھ رہا ہوں،صحافیوں کو اپنا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے خود کچھ کرنا ہوگا ۔دنیا کا آغاز نہ صحافت سے ہوتا ہے نہ اختتام اس پر ہے،اللہ کی زمین وسیع ہے ،انہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔اللہ نے پیدا کیا وہی پالنے والا بھی ہے ۔بحیثیت مسلم ہماراس پر مکمل یقین ہونا چاہیے۔
نئی حکومت کے آنے کے بعد یہ پہلی بار براوقت ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر نکالا گیا ہے ۔نشریائی اداروں کے ایڈیٹرز کی بھی وزیراعظم عمران خان سے ملاقاتیں ہوچکی ہیں ،جن میں اخبارات کو سابقہ حکومت کے بلز کی ادائیگیوں کے احکام دیئے گئے اوراشتہارات جاری کرنے کا نیا طریقہ کار بھی بتادیا،اس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا بیان بھی سامنے آیا کہ نشریاتی ادارے اپنے مسائل خود حل کریں ،اس سارے عمل کے بعد صورتحال خراب ہوگئی ، کاغذ مہنگا ہوا،اخبار کی قیمتیں بڑھ گئیں ،صحافی نکالے جانے لگے اورریاست کے چوتھے ستون کو سنبھالا دینے والے کارکنان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردیئے گئے ۔بڑے نشریاتی اداروں میں بڑے صحافیوں کی بھاری بھرکم تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے فنڈز موجودہے ،نہیں ہے تو محنت ودیانت داری سے کام کرنے والے صحافیوں کیلئے نہیں ہے ۔
صحافت کی موجودہ صورتحال سے صحافت کے ان ہزاروں طلبہ وطالبات کا مستقبل بھی مخدوش ہو گیا جو اس شعبے میں آکر ملک وقوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ،ہم یہ نہیں کہتے کہ اخباری صنعت اورنجی نشریاتی اداروں کو مسائل درپیش ہوں ،لیکن اگرمسائل آتے ہیںتو ان کے حل کے بھی طریقے ہوتے ہیں ،اگروہ طریقے اختیار کرلیے جاتے تو غیریقینی کی آج جیسی کیفیت نہیں ہوتی ۔اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ ہمدردانہ ان کے مسائل پر غورکرے اوران کو حل کرے اورصحافت اورصحافیوں کو تاریخی بحران سے بچائے۔

حصہ