’’تم دل چھوٹا نہ کرو‘‘

378

زاہد عباس
’’میں سب کا ہوں، میرا کوئی بھی نہیں۔ تم اچھے ہو، تمہارا خیال کرنے والے موجود ہیں، ہر شخص تمہیں دل وجان سے چاہتا ہے۔ کشادہ سڑکیں، انڈر پاس، فلائی اوور، بہترین ٹرانسپورٹ اور پھولوں سے سجے خوبصورت پارک تمہارا مقدر… جبکہ میرے نصیب میں وہی خستہ حالی، وہی کچرے سے اٹے محلے، ٹوٹی پھوٹی خاک اڑاتی سڑکیں، ابلتا سیوریج سسٹم، تباہ حال تفریحی مقامات… اپنے ساتھ ہونے والے اس سلوک کودیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ میری مثال تو اُس گائے کی سی ہے جس سے دودھ تو سبھی حاصل کررہے ہیں لیکن چارہ دینے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘
’’میرے بھائی ’کراچی‘ دل چھوٹا نہ کرو، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار ہر روز کسی نہ کسی شہر کا دورہ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں سمیت ہر محکمے کی کارکردگی پر سوموٹو بھی لے رہے ہیں۔ تم یقین جانو جس طرح عدلیہ کے فیصلے آرہے ہیں اس صورتِ حال میں تمہاری بھی شنوائی ہوگی اور تم کو وہ کھویا ہوا مقام ضرور حاصل ہوگا جو تمہاری وجۂ شہرت تھا، یقیناً تم ایک مرتبہ پھر پُرامن اور روشنیوں کے شہر کے طور پر جانے جاؤ گے۔‘‘
’’یار تمہیں یاد ہے جب سارے پاکستان سے لوگ میری خوبصورتی دیکھنے آتے تھے، اُس وقت میں پھولے نہ سماتا جب لوگ میری ترقی کی تعریفیں کرتے تھے، تب تم بھی اسی طرح گلے شکوے کیا کرتے تھے، اُس وقت تمہاری جو کیفیت تھی وہی آج میری بھی ہے۔ دیکھو برا نہ ماننا، جب لوگ کہتے ہیں کہ ’’لور لور اے‘‘ (لاہور لاہور ہے) تو میرے دل پر خنجر چلتے ہیں۔ بالکل، ترقی کرنا تمہارا بھی حق ہے لیکن اپنے اجڑنے کا غم زیادہ ہی ہوا کرتا ہے۔ تم میرے بھائی ہو اسی لیے اپنے دل کی باتیں کرلیتا ہوں۔ میں اپنے دل کی تمہیں نہ سناؤں تو کس سے کہوں؟‘‘
’’پریشان نہ ہو، جب مجھ جیسے شہر کی حالت بدل سکتی ہے تو تم پر بھی اچھے دن ضرور آئیں گے۔ ایک عرصے بعد کچرا کنڈی کی حالت بھی تبدیل ہوجاتی ہے، اور تم تو وہ ہو جس نے لوگوں کے نہ صرف مالی حالات بہتر کیے بلکہ رہن سہن تک بدل ڈالے۔ تمہارا دل بہت بڑا ہے، تمہارے دامن میں امیر، غریب، مزدور اور ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے، مختلف زبانیں بولنے والے سمائے ہوئے ہیں، بلکہ عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کھا کما رہے ہیں۔ انہی خصوصیات کے باعث تو تمہیں منی پاکستان کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ میں پھر کہہ رہا ہوں وقت ایک سا نہیں رہتا، لہٰذا اس پر توجہ نہ دو۔‘‘
’’کیسے توجہ نہ دوں، کیوں نہ پریشان ہوں؟ مجھے یاد ہے جب تمہارے وہاں میٹرو بس چلائی جا رہی تھی تو میرے آنگن سے پبلک ٹرانسپورٹ کا خاتمہ کیا جا رہا تھا۔ جب تمہارے وہاں خوبصورت پارک بنائے جارہے تھے تو میرے ہاں خوشبو بکھیرتے پارکوں پر قبضہ کیا جارہا تھا۔ جب تمہارے وہاں اورنج ٹرین چلانے کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا تب یہاں کے وسائل لوٹے جا رہے تھے۔ تمہیں کیا بتاؤں کس طرح میری زمینوں پر قبضے کیے گئے۔ یہ میں ہی جانتا ہوں کہ قبضہ مافیا کی جانب سے میرے سینے کو چیر کر کیسے ناجائز تعمیرات کی گئیں، مجھ پر ایک سے بڑھ کر ایک وار کیا گیا، اور لوگ خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے۔ مجھ سے وفاداری نبھانے کے لیے اگر کسی نے آواز بلند کرنے کی کوشش کی بھی، تو وہ آواز ہمشہ کے لیے بند کردی گئی۔ آگ اور خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی جس نے میرا دامن جلا ڈالا۔ خودغرضی، لالچ اور ناجائز ذرائع سے پیسہ کمانے کی دھن میں مجھے بہت ڈسا گیا ہے۔ میرا جسم زخموں سے چور چورہے۔ مجھے کسی ایسے مسیحا کی ضرورت ہے جو نہ صرف جسم بلکہ میری روح کا بھی علاج کرے۔‘‘
’’میں سب جانتا ہوں۔ ایک ایک بات میرے سامنے ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کس طرح یہاں مذہب اور زبان کے نام پر لوگوں کو لڑایا گیا۔ میں جانتا ہوں کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیسے کیا گیا۔ مجھے یہ بھی خبر ہے کہ یہاں تیرے میرے حقوق کی جنگ کے نام پر تعصب کا وہ بیج بویا گیا جس کے نتیجے میں تیار ہونے والی فصل زہر قاتل ثابت ہوئی۔ ظاہر ہے جو بویا جائے گا وہی کاٹنا بھی پڑے گا۔ کیکڑ کے پیڑ سے آم کی امید لگانا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اس میں تیرا کیا قصور ہے! جس نے جو کیا اسے بھگتنا پڑے گا، یہاں نہیں تو وہاں اس کی عدالت میں ہر چیز کا حساب دینا ہوگا۔ زمین کا مالک خدا ہے، طاقت کے زور پر جس جس نے اس کی زمین پر قبضہ کیا یا معاونت کی، وہ اپنے انجام کوضرور پہنچے گا۔‘‘
’’بے شک تمام کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے، اور میرا ایمان ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ بے شک یوم حساب ضرور آئے گا، بے شک ہر کسی کو اپنے کیے کا پورا حساب دینا ہوگا، لیکن دوسری طرف وہی خدا ہے جس نے زمین پر حاکمیت کے لیے انسان کو پیدا کیا، اسے اختیار دیا کہ وہ انصاف کرے، امانت میں خیانت نہ کرے، جابروں اور ظالموں کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے انہیں طاقت سے ختم کردے، اور زمین پر ایسی حاکمیت قائم کرے جو قرآن و سنت کے عین مطابق ہو۔ انہی احکامات کے تحت زمین کے ایک ایک آنچ کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ اس نظام میں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں تو ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ ہر محکمے میں سیاسی بنیاد پر کی جانے والی بھرتیوں کے باعث بندر بانٹ کا وہ نظام رائج ہوا جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تو سب کچھ ہی وکھرا ہے۔ شہروں کو اُن کی پرانی حالت میں لانے کے لیے ناجائز تجاوزات کے خلاف کیے جانے والے آپریشن کی مثال ہی لے لو، یہی آپریشن تمہارے وہاں بھی کیا گیا یا کیا جارہا ہے۔ کارروائی قانون کے مطابق ہونے کی وجہ سے کسی کو بھی کچھ کہنے کی ضرورت
محسوس نہیں ہوئی، لیکن میرے گھر میں…‘‘
’’ٹھیرو ٹھیرو، ایک منٹ، یہاں مجھے تمہاری بات سے اختلاف ہے۔ میرے ہاں ماضی میں ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر جو ہوا، یا اب جو ہورہا ہے اُس سے تم واقف نہیں۔ دُور کے ڈھول ہمیشہ سے ہی سہانے لگتے ہیں۔ وہاں ترقیاتی منصوبوں کے درمیان آنے والے جائز طور پر بنائے جانے والے مکانات تک گرا دیئے گئے، کئی منزلہ پلازے بھی گرائے گئے، مارکیٹوں کے اندر ایسا آپریشن کیا گیا کہ خریدار آسانی سے خریداری کر سکے۔ مینارِ پاکستان کے اطراف میں ہونے والی غیر قانونی تجاوزات کے خلاف ہونے والے آپریشن کے دوران میرے شہریوں نے جس ضبط کا مظاہرہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ آج وہاں کانقشہ ہی بدل چکا ہے، لیکن اس سب کے پیچھے تم میں اور مجھ میں یہ فرق رہا کہ میرے وہاں کسی سیاسی پارٹی، انسانی حقوق کی کسی تنظیم یا خود متاثرین میں سے کسی نے بھی حکومتی اقدامات کے خلاف کوئی آواز بلند نہ کی بلکہ اس کارروائی کا بھرپور ساتھ دیا اوراپنی جائدادیں گروا کر شہر کی خوبصورتی میں اپنا حصہ ڈالا۔ ہاں تمہاری بات ٹھیک ہے کہ تمہارے یہاں ہر معاملے کو سیاسی یا مذہبی رنگ دے دیا جاتا ہے جس کی آڑ میں بجائے جائز لوگوں کے، غیر قانونی عمل کرنے والوں کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔‘‘
’’میں بھی تو یہی رونا رو رہا ہوں، میں یہی ماتم تو کررہا ہوں کہ اگر انتظامیہ نے میری خوبصورتی نکھارنے کے لیے اقدامات کرنے شروع کر ہی دیے ہیں تو اس کی مخالفت کرنے سے میری خوبصورتی کے لیے کی جانے والی کارروائی کو دھچکا لگے گا اور ناجائز تجاوزات کے خلاف ہونے والا آپریشن بند کردیا جائے گا۔ اس صورتِ حال میں مجھے قبضہ مافیا کے سپرد کردیا جائے گا۔ میں آزادی چاہتا ہوں۔ کیوں ان طاقتوں کے ساتھ کھڑا ہوا جا رہا ہے جو میرے ماتھے پر بدنما داغ ہیں، جنہوں نے چند سکوں کی خاطر میرے وجود کا سودا کر ڈالا۔ ہاں جن کی جائدادیں یا تعمیرات جائز ہیں اُن کے خلاف اگر زیادتی ہوئی ہے تو اس کے ازالے کے لیے آواز اٹھانا صحیح اقدام ہے۔ خدارا، ناجائز طور پر تعمیرات کرنے والوں اور جائز طور پر قائم عمارتوں کے درمیان تفریق رکھی جائے۔‘‘
سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے مطابق ناجائز تجاوزات کے خلاف کیے جانے والے آپریشن پر کراچی کا مؤقف یا یوں کہیے کراچی کی آہ و فغاں سننے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہی اس کے دل کی آواز ہے۔ یہ شہر قبضہ مافیا سے آزادی کے لیے بے قرار ہے اور ایک مرتبہ پھر خوبصورت پارکوں، کشادہ سڑکوں،کھیل کے میدانوں سمیت تمام تفریحی مقامات کی رونقیں بحال ہونے کے خواب بُننے لگا ہے۔ سرکلر ریلوے کی بحالی سے لے کر گلیوں اور محلوں کی صفائی ستھرائی تک کی امیدیں باندھ چکا ہے۔ لیکن اسے ڈر بھی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے جائز تعمیرات کرنے والوں کا ساتھ دینے کے نتیجے میں کہیں ناجائز تجاوزات یا قبضہ مافیا فائدہ نہ اٹھا لیں۔ شہر چاہتا ہے کہ یہاں کے مکین ایسے تمام لوگوں پر نظر رکھیں اور انہیں اپنی صفوں میں نہ گھسنے دیں جو کسی بھی غیر قانونی عمل کا حصہ رہے ہیں۔ ان مافیاز سے کنارہ کشی اختیار کریں جن کی وجہ سے اس کی خوبصورتی میں داغ لگے۔ اس کو ڈر ہے کہ مظلوموں کے لیے کیے جانے والے اقدامات ظالموں کے لیے تقویت کا باعث نہ بن جائیں۔ لہٰذا ان تمام رہنماؤں کو کراچی کے دل کی آواز کو سننا ہوگا۔ بے شک جس کے ساتھ ناانصافی ہوئی اس کے ازالے کے لیے بھرپور آواز اٹھانی ہوگی، لیکن اس ساری صورتِ حال میں قبضہ مافیا پر نگاہ رکھنا ہوگی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جائز طور پر اٹھائی جانے والی آواز غیر قانونی اقدامات کرنے والوں کے لیے توانائی کا باعث بن جائے۔

حصہ