کہکشاؤں کا دروازہ

688

سیدہ عنبرین عالم
دادا جان کی طبیعت خاصی خراب تھی، وہ پچھلے سات سال سے جگر کے کینسر کا مقابلہ کررہے تھے، کچھ دن پہلے دو مہینے کے لیے اسپتال میں بھی داخل رہے، پھر ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ انہیںگھر لے جائو، ان کا اب مزید علاج ممکن نہیں۔ دادا جان ایک ہفتے پہلے گھر آگئے تھے، تمام رشتے دار اور دوست احباب ان سے ملنے کے لیے گھر آرہے تھے۔ دادا جان نے بھی یہ بات تسلیم کرلی تھی کہ ان کا آخری وقت آگیا ہے، لیکن ڈرنے، گھبرانے کے بجائے ان کا رویہ بہت بہتر ہوگیا تھا، اب وہ تکلیف سے چیختے نہیں تھے بلکہ مسکراتے رہتے تھے، حالانکہ چہرے پر کرب واضح تھا، ملنے والوں سے بھی خوب ہنسی مذاق کرتے، ان کے انگ انگ سے خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی، جیسے کوئی تڑپتا ہوا عاشق محبوب سے ملنے سے پہلے شادیٔ مرگ کی کیفیت میں ہوتا ہے، یا کوئی ایسا قیدی جو برسوں سے قید ہو، آزادی کی خبر پاکر نہال ہوجاتا ہے، یا کوئی ایسی لڑکی جو بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچنے اور ہر امید کھو دینے کے بعد اچانک اپنے بیاہ کی خبر سن کر مسرور ہوتی ہے۔
19 نومبر 2017ء کو دادا کی مسکراہٹ میں اضافہ ہوگیا۔ نہ کچھ کھاتے پیتے تھے، نہ منہ دھلوانے پر راضی ہوئے، نہ کسی کی بات کا جواب دے رہے تھے، آنکھیں بند کیے لیٹے رہے اور ہونٹ مسلسل چل رہے تھے، شاید کلمہ طیبہ کا ورد کررہے تھے۔ اذان ہوتی تو آنکھیں کھول دیتے اور اٹھنے کی کوشش کرتے جیسے نماز ادا کرنا چاہ رہے ہوں، پھر اٹھ نہ پاتے تو بے بسی سے پھر ساکت ہوجاتے، تھوڑی دیر بعد پھر مسکرانے لگتے۔ وہ ایک سنجیدہ طبیعت آدمی تھے، آخری وقت میں اس قدر مسکرانا حیران کن تھا۔ پھر ابو کو اشارے سے بلایا اور ان کا ہاتھ پکڑ لیا، نحیف سی آواز میں بولے ’’قرآن پر عمل کرنا اور اپنے بچوں کو بھی یہی سکھانا، ورنہ میری پکڑ ہوجائے گی… یاد رکھنا‘‘۔ کچھ ہی دیر میں انتقال کرگئے۔ رونا دھونا شروع ہوگیا، چاندنیاں بچھنے لگیں، غسل کا انتظام، قبر کی بکنگ، میت گاڑی کا انتظام، رشتے داروں کو اطلاع… سبھی مصروف ہوگئے۔
چند دن گزر گئے۔ عظیمہ دادا کے سب سے زیادہ قریب تھی، اس لیے دادا کی وفات کا سب سے زیادہ دھچکہ اسے ہی لگا تھا، مگر وہ حیران اس بات پر تھی کہ دادا مسکرا کیوں رہے تھے، اس نے یہ بات ابو سے پوچھی۔
’’بیٹا! ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی عالم نزع میں تھیں، آپؐ نے انہیں اپنی گود میں کچھ دیر رکھا، پھر اپنے سامنے لٹا دیا اور وہ فوت ہوگئیں۔ اُم ایمن نے چیخ کر رونا شروع کردیا تو آپؐ نے فرمایا ’’تم رسولؐ خدا کے سامنے رو رہی ہو!‘‘ اُم ایمن نے فرمایا ’’آپؐ بھی تو رو رہے ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’میں چیخ نہیں رہا، یہ (آنسو) تو رحمت ہے، مومن ہر حال میں بہتر رہتا ہے، اس کی روح اس کے پہلو سے کھینچی جا رہی ہوتی ہے اور وہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کررہا ہوتا ہے‘‘۔ یہ روایت شمائل ترمذی 324، اور سنن نسائی 1844 میں موجود ہے‘‘۔ ابو نے بتایا۔
’’مگر میں نے تو سنا ہے کہ موت کی تکلیف بے حد سخت ہوتی ہے‘‘۔ عظیمہ بے چین ہوکر بولی۔
’’بیٹا! پہلے موت کے عمل کو سمجھو۔ موت یہ نہیں ہے کہ آپ کو اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر جانا پڑرہا ہے، اپنا گھر، کاروبار چھوڑ کر جا رہے ہو، اس لیے آپ غم زدہ ہوجائو۔ بیٹا! اگر یہ سب کسی کو بھی چھوڑنا پڑے تو بے شک یہ دکھ کی بات ہے، لیکن اُس کے لیے نہیں جسے یہ سب ہزار گنا بڑھ کر ملنے والا ہو اور اسے نظر بھی آرہا ہو، اس سے انعام و اکرام کے وعدے ہوں۔ یہ شخص غم زدہ نہیں ہوگا بلکہ بے انتہا خوش ہوگا۔ مرنے کے عمل کے دوران بھی عبادت میں مصروف رہے گا تاکہ جو چند لمحے رہ گئے ہیں ان سے بھی کچھ ثواب کشید کرلے۔ یہ لوگ خوشی سے پھولے نہیں سماتے، موت ان کے لیے آزادی ہے، اور جو بیماری وغیرہ کی تکالیف ہوتی ہیں، وہ بھی دور ہوجاتی ہیں‘‘۔ ابو نے سمجھایا۔
’’یعنی موت کوئی خوف زدہ کردینے والی چیز نہیں ہے، موت اختتام نہیں ہے۔ اگر اختتام ہے تو صرف اُن کے لیے جو دنیا کے لیے ہی جیتے ہیں اور اُن کے تمام اعمال دنیا کے لیے ہی ہوتے ہیں، اُن کے لیے تو واقعی موت کے بعد خوف اور غم ہی ہے، کیوں کہ جس زندگی کے لیے ان کی ساری کوششیں تھیں وہ زندگی ان سے چھن جائے گی‘‘۔ عظیمہ نے خیال کا اظہار کیا۔
’’جی بیٹا! موت صرف ایک جہاں سے دوسرے جہاں منتقلی کا نام ہے، اس لیے موت کے لیے ’’انتقال‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسرا جہاں بھی وہ، جس سے ہمیں مکمل طور پر روشناس کرا دیا گیا، وہ ہمارے کوئی انوکھی جگہ نہیں ہے، وہ اِس جہاں سے بہتر ہے‘‘۔ ابو نے بتایا۔
’’لیکن ظاہر ہے ہمیشہ کے لیے ایک نئی جگہ جاتے ہوئے ڈر تو لگتا ہے‘‘۔ عظیمہ نے کہا۔
’’دنیا میں ہماری روح قید ہے، ہماری جو روح ہے وہ گوشت پوست کے جسم میں قید ہے، ہم کوئی بھی ایسا کام نہیں کرسکتے جو ہماری جسمانی پہنچ سے باہر ہو۔ ایک ایسی روح جو انتہائیی شفاف اور چمک دار ہے، یعنی نیک اور باحکمت، لیکن اسے ایک دھوبی کے جسم میں ڈالا گیا ہے، تو وہ سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی نوعِ انسانی کو نجات کی طرف نہیں لے جاسسکتی، زیادہ سے زیادہ آس پاس والوںکو نصیحت کرلے گی، لیکن نظام پر اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ اگر یہی روح کسی بادشاہ کے بیٹے کے جسم میں ڈالی جاتی تو وہ انقلاب برپا کردیتی۔ یعنی ہم اپنے جسم کی قید میں ہیں اور اپنے جسم اور طبعی حالات کے علاوہ کام نہیں کرسکتے‘‘۔ ابو نے سمجھایا۔
’’اور موت ہماری روح کو جسم کی مجبوریوں سے آزاد کردیتی ہے، لیکن ابو کبھی کبھی انسان جسمانی مجبوریوں کو خاطر میں لائے بغیر بڑے بڑے کام بھی کرلیتے ہیں‘‘۔ عظیمہ نے کہا۔
’’ہاں بیٹا! نپولین بونا پارٹ، اسٹیفن ہاکنگ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ لیکن ایسا کم ہوتا ہے، ورنہ جسمانی طور پر ہم مجبورِ محض ہیں، نہ اپنے ماں باپ چن سکتے ہیں، نہ معاشی سطح۔ جہاں اور جیسا جسم ہماری روح کو دے دیا گیا، وہی ہمارا امتحان ہے اور اسی کے مطابق ہمیں تمام زندگی حالات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے‘‘۔ ابو نے جواب دیا۔
’’نہیں…‘‘ عظیمہ نے نفی میں سر ہلایا ’’ہمارا امتحان ہمارا جسم اور طبعی حالات نہیں بلکہ ہماری روح ہے، کیوں کہ روح کی حالت کو ہم اپنے اعمال سے اچھا اور برا بنا سکتے ہیں، جو بھی جسم اور طبعی حالات ہمیں دیے گئے، اسی دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے روح کو بہترین سے بہترین حالت میں رکھنا ہی اصل کامیابی ہے‘‘۔ اس نے کہا۔
’’بے شک بیٹا! یہ روح ہی ہے جو باقی رہ جائے گی، جو کمایا وہ چھوڑ جائیں گے اور جسم کو مٹی کھا جائے گی، اللہ کے حضور تو ہماری روح ہی پہنچے گی‘‘۔ ابو نے عظیمہ کی تائید کی۔
’’ابو! جب موت کے وقت روح جسم سے علیحدہ ہوجاتی ہے تو کیا اسے کوئی نیا جسم عطا کیا جاتا ہے؟ یا روح اپنی اصلی حالت میں اللہ کے دربار میں پیش ہوگی؟‘‘ عظیمہ نے پوچھا۔
ابو سوچ میں پڑ گئے ’’بیٹا گناہ گاروں کے بارے میں قرآن میں لکھا ہے کہ موت کے وقت جب ان کی روح نکالی جائے گی تو فرشتے انہیں مارتے ہوئے اوپر لے جائیں گے۔ پھر یہ بھی ذکر ہے کہ وہ جلنے کی تکلیف بھی محسوس کریں گے اور دیگر عذابوںکی بھی۔ لگتا تو یہی ہے کہ کوئی جسم ہے ضرور، مرنے کے بعد جو تمام تکالیف محسوس کررہا ہے۔ لیکن میرے اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے کہ براہِ راست روح کو ہی یہ تمام عذاب محسوس کرائے جارہے ہوں… بیٹا! یہ سب تفصیلات ہمارا مقصد نہیں ہیں، ہمارا مقصد اپنی روح کو اس قدر جگمگا کر رکھنا ہے کہ وہ میرے اللہ کے نور سے مطابقت پیدا کرلے اور میرے اللہ کے نائب کا مقام حاصل کرسکے، اور روح کی یہ برکت صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اللہ کی محبت سے سرشار ہوں‘‘۔ انہوں نے بتایا۔
’’بے شک دنیا میں چاہے جتنے قوانین بنا لیے جائیں، اصلاحی پروگرام بنالیے جائیں یا سزائیں تجویز کی جائیں، غلط کام سے صرف وہی رکے گا جسے اللہ سے محبت ہوگی، ورنہ ہر قانون کا توڑ نکل ہی آتا ہے‘‘۔ عظیمہ نے کہا۔
’’بیٹا موت کے دوران کیا ہوگا اور موت کے بعد کیا ہوگا، یہ سب بے کار کی باتیں ہیں، اصل چیز یہ ہے کہ ہم نے موت کے لیے کیا تیاری کی ہے۔ بیٹا! اللہ تمہارے پاس ہے، تمہاے ساتھ ہے، تم اپنے اللہ کو محسوس کرو، اسے راضی کرو، باقی کسی کی رضا اور ناراضی کی پروا نہ کرو۔ جب تک تمہارا رب تم سے راضی ہے، کوئہی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی وہی تمہارا واحد دوست ہے‘‘۔ ابو نے سمجھایا۔
’’ابو! یہ جو مرنے والوں پر لوگ روتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟‘‘ عظیمہ نے سوال کیا۔
’’بیٹا! اگر ہم اسلام آباد میں گھر بنا لیں اور میں وہاں گھر سیٹ کرنے پہلے چلا جائوں، آپ کو دو مہینے بعد بلائوں تو کیا آپ رونے لگو گے؟‘‘ ابو نے پوچھا۔
’’نہیں! آخر تھوڑے دن کی تو دوری ہے، پھر تو ہم سب آپ کے پاس آجائیں گے‘‘۔ عظیمہ بولی۔
’’بالکل بیٹا! اسی طرح سب کو ہی مر کر اوپر جانا ہے، اور جو ہمارا عزیز مر کر اوپر گیا ہے، ہم کچھ ہی دنوں میں اُس کے پاس پہنچ جائیں گے، پھر غم کس بات کا! اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ صالحین کو ان کی صالح اولادوں سے ملا دے گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ذہن میں رکھو کہ یہ سارے رشتے ناتے دنیا کے کام چلانے کے لیے ہیں، بعد میں ان کی اہمیت نہیں ہوسکتی‘‘۔ ابو نے تفصیل سے سمجھایا۔
’’جی ہاں! سورۃ الدخان آیت 41 میں درج ہے کہ جب فیصلے کے دن سب اٹھیں گے تو دوست دوست کے کام نہ آئے گا اور نہ آپس کی مدد ہوگی‘‘۔ عظیمہ نے تائید کی۔
’’بیٹا! یاد رکھو، موت ایک دروازہ ہے کہکشائوں کی طرف، سب راز افشا ہوجائیں گے، نیابت کا آغاز ہوجائے گا۔ بیٹا! نیابت کا کیا مطلب ہے ابھی ہمیں نہیں معلوم، مگر یہ بت بڑا منصب ہے، بہت بڑی ذمے داری ہے، اتنی بڑی ذمے داری کہ انتہائی کٹھن امتحان کے بغیر نہیں سونپی جاسکتی تھی، اتنا کٹھن امتحان کہ آسمان و زمین خوف کے مارے انکار کردیتے ہیں، اگر پاس ہوتے ہیں تو تمام کائنات کی تمام قوتوں میں ہم اللہ کے نائب بنتے ہیں، ورنہ ذلت اور اذیت‘‘۔ ابو نے سمجھایا۔
’’آپ کہتے ہیں کہ موت اختتام نہیں ہے‘‘۔ عظیمہ نے پوچھا۔
’’میری بیٹی! موت تو آغاز ہے ایک نئی اور بامعنی زندگی کا، ایک ایسی زندگی کا جہاں میری مرضی ہوگی، میں نائب ہوں گا اور میری بادشاہت ہوگی۔ بیٹی! آج جو زندگی ہم گزار رہے ہیں یہ تو امتحان ہے۔ میرے رب نے میرے لیے جو امتحان رکھ دیا، مجھے وہی دینا ہے۔ میری مرضی نہیں ہے، میری خوشی نہیں ہے۔ خوشی کا آغاز تو موت کے بعد ہوگا، جب سب پردے ہٹ جائیں گے اور سب راز کھل جائیں گے، جسم کی محتاجی نہ رہے گی، خوف نہ ہوگا، بھوک نہ ہوگی‘‘۔ ابو نے بتایا۔
’’پھر لوگ موت سے ڈرتے کیوں ہیں؟ کوئی مرنا نہیں چاہتا‘‘۔ عظیمہ نے پوچھا۔
’’بیٹا اگر کوئی تمہیں ایک عالی شان دعوت میں بلائے لیکن تمہاری تیاری نہ ہو، نہ اچھے کپڑے، نہ اچھے جوتے، نہ زیور، تو کیا تم جانا چاہو گی؟‘‘ ابو نے پوچھا۔
’’نہیں! جب تیاری ہی نہیں تو کیوں جانا چاہوں گی!‘‘ عظیمہ نے جواب دیا۔
’’جی بیٹا! موت سے وہ لوگ ڈرتے ہیں جن کی تیاری نہیں ہوتی، جنہیں پتا ہوتا ہے کہ ہم اتنے گندے اور بدبودار ہیں کہ دعوت سے ہمیں مار مار کر نکال دیا جائے گا، اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں‘‘۔ ابو نے بتایا۔
’’تو اللہ ان بدبودار روحوں کو جہنم میں ڈال دے گا؟‘‘ عظیمہ نے پوچھا۔
’’بیٹا! نیابت کا منصب اتنا اہم ہے کہ اسے حاصل کرنے کے لیے شیطان نے اپنی زندگی برباد کرلی مگر اللہ نے اسے لائق نہ سمجھا، اگر یہ منصب انسان کو دیا جارہا ہے تو انسان کو ہر داغ اور ہر غلطی سے پاک ہونے کی ضرورت ہے۔ انسان کو ہر دور میں ہر ہر طرح سے پرکھا گیا تاکہ اگر اللہ کی کوئی دوسری مخلوق سوال اٹھائے تو اللہ کہہ سکے کہ دیکھو انسان کتنی بھیانک آزمائشوں میں سے بچ نکلا اور اپنے آپ کو نیابت کا اہل ثابت کیا، ورنہ نیابت اسے بھی نہ ملتی۔ اسی لیے جو انسانی روح اپنی اہلیت ثابت نہ کرسکی، اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘‘۔ ابو بولے۔
’’یعنی اپنی دوسری مخلوق اور انسان کے درمیان انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کو امتحان کے بعد نیابت دی جائے، جب کہ دیگر مخلوق نے امتحان دینے سے انکار کردیا تھا‘‘۔ عظیمہ نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’بالکل بیٹا! موت جنت کی کھڑکی ہے، مومن موت سے نہیں ڈرتا‘‘۔ ابو بولے۔

حصہ