اَنفُس میں توحید

317

قاضی مظہرالدین طارق
ہمارا جسم ستّر۷۰؍ سے سو۱۰۰؍ کھرب(سو ٹریلیئن) بنیادی اِکائیوں (سَیلز) میں تقسیم ہے، ہر سَیل ایک مکمل زندہ وجود ہے۔ جیسے ہم ، ایک زندہ کثیرالخَلوِی (ملٹی سَیلیولر ) وجود رکھتے ہیں ، زمین پر جو جو کام کر تے ہیں،وہ وہ کام یہ بنیادی اِکائیاں بھی کرتی ہیں۔
اِن کو زندہ رہنے کے لئے ، پانی ، غذا اور آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے ، حتّیٰ کہ یہ اپنی اَولاد بھی پیدا کرتی ہیں،یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ اپنے جیسے دو خَلیوں (سِیلز) میں تقسیم ہوتے ہیں۔
اِن میں سے ایک بھی، اپنی مقرر کردہ موت سے پہلے مَر جائے ، یا بیمار ہو کر اپنے حصے کا کام نہ کر سکے ، یا اُس تک غذا ، پانی اور آکسیجن نہ پہنچ سکے ، تو ہمارے پورے جسم میں خرابی پیدا ہو جا تی ہے،ہم فالج زدہ ہو جاتے ہیں ، ہمارے بہت سے اعضاء کام نہیں کر سکتے۔
ہمارے دماغ میں سب سے اُوپر ایک حصہ ہے جس کو عرشۂ دماغ کہتے ہیں ، اور واقعی یہ وہ حصہ ہے جو سارے نظام(آرگینیزم) کا واحد کنٹرولر ہے ، باقی سب اس کے فیصلوں پر مِن وعَن عمل کرتے ہیں ، کسی بھی نظام میں دو فیصلہ کُن ہستیاں اُس نظام میں بگاڑ پیدا کر دیتی ہیں، اُس کواحسن طریقے سے چلنے نہیں دے سکتی۔
ہر خَلیے(سَیل) میں ، ہر انسان کا ایک مکمل بلو پرنٹ نسل در نسل چلا آرہا ہے ، لیکن ہر خَلیے کو اس بلو پرنٹ میں موجود سارے کام نہیں کرنے ہو تے ہیں ،اس کو صرف اپنے حصے کا مخصوص کام کرنا ہو ہے ، مگر اُس کو کچھ معلوم نہیں کہ اُس کو کیا کرنا ہے ، یہ واحد عرشۂ دماغ ہی ہے ، جو اپنے اعصابی نظام کے ذریعہ ہر سَیل سے رابطہ کرتا ہے ، اور اُن کو بتاتا ہے ، بلکہ’ فیصلہ کُن‘ حکم دیتا ہے کہ اُس کو کیا کام کرنا ہے یا کیا نہیں کرناہے،کون سا پروٹین ، اَینزائیم ، ہارمون یا کچھ اور بنا نا ہے یا کوئی اور کام کرنا ہے، مثلاً وہ جگر(لیور) کو بتاتا ہے کہ اب بائیل بنائے یا گلائیکوجن یا گلوکوس۔
انسان اپنی مرضی سے کیا کیا کتنے سارے کام ایک وقت میں کرتاہے،اس کا علم بھی ہم کو رہتا ہے ، مگر ہمارے جسم کے اندر بہت سے کام ہمارے علم یااِحساس کے بغیر بھی ، ایک وقت میں ایک ساتھ ہو رہے ہیں ۔
حیرت انگیز!
سو کھرب خَلیوں (سَیلز)میں سے ہر ایک کو یہ پیغام یا حکم پہنچانا بے حد ضروری ہے کہ وہ کیا کام کرے ، اگر یہ حکم نہ پہنچا تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا ، یاد رہے ! ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہر خَلیے(سَیل) میں ہمارے سب کاموں کا بنیادی نقشہ اور کام کا طریقۂ کار(مَینوَل) موجود ہے،پسینے کے سَیلز کیا جانے کہ اُن کو خون سے پانی کے ساتھ کون کون سے نمکیات کشید کرنے ہیں؟ ہاضمے کے لئے، کون سے خَلیے کیا جانے کہ کون سا انزائیم بنانا ہے؟
یہ دماغ ہی تو ہے جو ہر خَلیے کو اُس کے کام کی ہدایات دیتا ہے۔
ہاں ! پھر حیرت میں ڈوب جائیے! ’سوکھرب‘ منفرد اور زندہ ’سَیلز‘ کو ایک وقت میں ایک ساتھ یہ ’عرشِ دماغ‘ ہی تو ہے جو بتاتا ہے کہ کس نے کیا کرنا ہے ! ! !
ہم چند کام ایک ساتھ کریں تو سب پر برابر کی توجہ رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔یہ دماغ ہی تو ہے جو سو کھرب کام پوری دیانتداری سے پوری توجّہ کے ساتھ ایک وقت میں،ایک ساتھ کرتا ہے ، ہر خَلیہ وی،وی، آئی،پی ہے کسی کا کام غیر اہم نہیں ہے،بلکہ کوئی ایک بھی کام نا کرے تو اگلا بھی اپنا کام نہیں کر سکتا۔
اگرچہ مختلف منفرد خَلیے(سَیلز) ، اِجتمائی طور پر ایک دوسرے کے تعاون سے ٹشیوز بناتے ہیں اور یہ ٹشیوز جمع ہو کر ایک مخسوس عضو(آرگن) بناتے ہیں ، ہر ٹشیو ایک خاص کام کرتا ہے،اور ہر عضو، ٹشیوز کے کاموں کو مجتمع کر کے ایک ٹارگیٹڈ حدف حاصل کرتا ہے، مثلاً نظامِ ہضم میں بہت سارے عُضلات ہیں ، ہرعُضو میں بہت سارے ٹشیو ہیں،ہر ٹشیو ، بہت سارے خَلیوں سے بنا ہوا ہے ، سب اپنے اپنے مقرر کردہ کام دماغ کے اشاروں کے مطابق کر رہے ہیں،سب کا ایک ہی حدف ہے کہ غذا کے کثیر السّالمُوِی (ملٹی مولیکیولر) سالموں کو سادہ ترین سالموںمیں تقسیم کرکے دَورانِ خون کے حوالہ کرنا، تاکہ خون اِس کو ہر خَلیے تک پہنچائے۔
ہم نے دیکھ لیا کہ ہمارے جسم میںکتنے کام ایک ساتھ ایک وقت میں چل رہے ہیں ، سو کھرب خَلیے اِن کو انجام دے رہے ہیں، مگر ایک دماغ کے عرشے کے حکم سے!
ہم مزید حیرت میں غرق ہوجائیں !
یہ واحد دماغ ہی تو ہے جو اِن سو کھرب خَلیوں(سَیلز) کو ایک وقت میںاحکام و ہدایات دے رہا ہے ،نہ صرف ہدایات دے رہا ہے بلکہ ان کے کاموں کو ’کوآرڈینیٹ‘ بھی کر رہا ہے کہ کس نے ،کس ترتیب سے ،کس وقت کیا کرنا ہے، کیا دیوار بننے سے پہلے دیوار پر رنگ و روغن کیا جا سکتا ہے ؟
مسلز کے کام میں کوآرڈینیشن کی مثال دیکھیے،جب ہم چل رہے ہوتے ہیں ، ہمارا اِرادہ یا ’نیّت‘ صرف چلنے کی ہے،جس کے لئے ہزاروں مسلز چند ہڈیوں کو ایک خاص ترتیب سے ہلاتے ہیں، یوں ہمارا یہ چلنا سر انجام پاتا ہے کہ دماغ بجلی کے سگنلز کے ذریعہ مسلز کے ہر خَلیے کو پیغام بھیجتا ہے کہ کس کو کیا کرنا ہے،اس ترتیب میں ذرا بھی فرق آگیا تو ہم لڑکھڑا جائیں گے یاگر پڑیں گے۔
اگر ہر خَلیہ اپنا اپنا کام خود بخود کر رہا ہوتا ،یا دو فیصلہ کرنے والے دماغ ہوتے ، تو کیاہم چَل سکتے تھے ؟
ہمارا جسم خود ’وحدانیت‘ کا ایک زبردست نمونہ ہے، اس کے مقابلے میں یہ کائنات کتنی بڑی ہے۔ اس میں کھربہا کھرب گیلکسیز ہیں، ہر گیلکسی میں کھربوں ستارے ہیں ، ان ستاروں کے کھربوں سیارے ( پلینِٹس) ہیں ، ہم کو تو علم بھی نہیں کہ ان میں کتنی قسموں کی مخلوقات ہوں گی۔
صاف ستھری دلیل ہے ، پھر یہ ایک خالق کا اِنکار کرنے والے کیوں نہیں غور کرتے؟ کیوں نہیں سمجھتے؟ کیوں نہیں مانتے ؟
اب اِس جدید سائنسی اور علمی دَور کے بعد اِنکار کر نے والوں پر ایک حجت تمام ہو گئی ہے،اب وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ’’ہمیں تو کچھ معلوم نہ تھا‘‘۔
آخرت میں بجا طور پر جب ان سے پوچھا جائے گا، کہ تم اتنی واضح اور روشن دلیل سامنے دیکھنے کے بعد کیو ں اپنے خالق،ربّ، الہٰ اور مالک، ’اللہ‘ کا اِنکار کرتے تھے؟
تو کیا اِن کے پاس کوئی جواب ہو گا!!!
پندرہ سو سال قبل اپنے محبوب اور ہمارے پیارے ، آخری نبی محمد مصطفی ﷺ کے واسطے سے ، قرآن میں ’اللہ ربّ العالمین‘ کا اعلان ہے :
’’عنقریب ہم اِن کواپنی نشانیاں ، آسمانوں اور اِ ن کے ’اَنفس‘ میں بھی دکھائیں گے!‘‘( ۴۱:۵۳)
’اَنفُس‘ کیا ہے ؟
ہمارا اپنا وجود!
اللہ ، واحد القہَّار ، اُس کے نہ ماننے والوں کو ، سائنسی علم کے واسطے سے ، اُن کے اپنے وجود میں ، اللہ کے واحد ہونے کی واضح اور روشن نشانی دکھا رہا ہے!
اِنکار کرنے والو!دیکھو! اگر دیکھنے والے ہو !!!
٭…٭…٭

حصہ