برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

289

قسط نمبر167
(پچیسواں حصہ)
مغربی اور مشرقی دونوں محاذ بیک وقت گرم تھے۔ 6 دسمبر آنے تک مشرقی محاذ پر جنرل نیازی کی خفت مٹانے والی اوٹ پٹانگ حرکتیں جاری تھیں۔ کرنل صدیق سالک شہید لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں دشمن سے نبرد آزما جوانوں کا حوصلہ بڑھا نے کے لیے جنرل نیازی نے من گھڑت خبروں کا سہارا لینے کی بھی کوشش کی، جیسے کہ یہ اطلا ع ’’…وہ چاہتے تھے کہ امرتسر پر پاکستانی فوجوں کے قبضے کی خبر کو پھیلایا جائے تاکہ فوج کا مورال بلند ہوسکے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ خبر بے بنیاد ہے۔ امرتسر پر ہماری فتح کی دور دور تک کوئی کہانی نہیں تھی۔‘‘
اگرچہ یہ جنگ 26 مارچ 1971ء کو علیحدگی پسندوں کے اعلانِ بغاوت سے شروع ہوچکی تھی۔ اس جنگ میں مقامی تربیت یافتہ جنہیں مجموعی طور پر مکتی باہنی کہا جاتا ہے، نے افواجِ پاکستا ن اور پاکستان کو متحد دیکھنے والے محب وطن عوام کا قتلِ عام شروع کیا۔ مارچ سے لے کر 16 دسمبر تک ہندوستان بھرپور انداز میں مکتی باہنی اور دیگر علیحدگی پسند مسلح گروہوں کو فوجی، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا۔ مشرقی پاکستان میں تو دشمن براہِ راست بھی موجود تھا اور مکتی باہنی کی صورت میں گلیوں اور علاقوں میں کارروائیاں کررہا تھا، پاک فوج کے لیے ان سے چومکھی لڑائی کرنا روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا تھا۔
مشرقی پاکستان میں جیسور سیکٹر کا محاذ ہمارا کمزور ترین مورچہ تھا، یہاں اس سے پہلے بھی ہماری افواج کو ہندوستانی فوج کے ہاتھوں خاصا بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ عملی طور پر دشمن نے نومبر کے مہینے میں ہی جیسور کے علاقے غریب پور میں 150 مربع کلومیٹر رقبے پر اپنا کنٹرول قائم کرکے مورچے قائم کرلیے تھے، جنہیں ہماری فوج نکالنے میں ناکام رہی۔ پاک فوج اس کے جواب میں صرف اتنا کرسکی کہ دشمن کے مورچے کو اطراف سے گھیر کر ایک اور حصار قائم کرلیا۔
جنگ زوروں پر آئی تو دشمن نے اسی علاقے(غریب پور) سے بھاری گولہ باری شروع کردی۔ دشمن چاہتا تھا کہ گولہ باری کرکے پاک فوج کے حصار کو کسی طرح توڑا جائے۔ اس حصار کو بچائے رکھنا ہی جیسور کے تحفظ کی ضمانت تھی۔ اسی اہمیت کے پیش نظر ہماری تین پلاٹونز اس علاقے میں لگائی گئیں۔
غریب پور پر دشمن اپنا دباؤ بڑھاتا چلا گیا اور گولہ باری میں شدت آتی گئی۔ یہاں ہماری نفری کم تھی، باقاعدہ لڑنے والی فوج جیسور سے 45 کلومیٹر دور بینا پول اور اس سے بھی آگے ستکھیر کے مقام پر (90 کلومیٹر دور) تھی۔
بریگیڈیئر حیات نے حکمت عملی یہ بنائی کہ اگر حصار ٹوٹ جاتا ہے تو پھر ہم کھلنا کی جانب پسپائی اختیار کریں گے۔ جبکہ جنرل انصاری کے زبانی حکم میں پسپائی کا علاقہ کھلنا نہیں بلکہ منگورہ تھا۔
بریگیڈیئر حیات شاید کسی خوف میں مبتلا تھے۔ جیسے ہی دشمن کے حصار سے باہر آنے کے آثار دکھا ئی دئیے انھوں نے اپنے جوانوں کو کوچ کرجانے کا حکم دیا۔ وہ اتنی عجلت میں تھے کہ بہت بڑی تعداد میں موجود اسلحہ کے ذخیرے کو بھی تلف نہیں کرسکے۔
6 اور 7 دسمبر کی درمیانی رات بریگیڈیئر حیات نے جو جلد بازی دکھائی اُس کا خمیازہ یہ بھگتنا پڑا کہ ہماری آدھی فوج کو یہ معلوم نہیں تھاکہ ہنگامی صورت حال میں کھلنا کی جانب جانا ہے یا منگورہ کی جانب؟ جیسور سیکٹر میں پھیلی ہوئی ہماری فوج تتربتر ہوچکی تھی۔ ایک بریگیڈ فوج نے کھلنا کی جانب دوڑ لگائی تو ایک بریگیڈ دریا پار کرکے شمالی بنگال میں جا نکلا۔ علاقے نامانوس اور قدم قدم پر مشکلات۔ اس بکھری ہوئی فوج کا مکتی باہنی اور دشمن کی فوج کے ہاتھوں جو معاملہ ہونا تھا وہی ہوا۔ ہمارے بکھرے ہوئے جوان دشمن کے لیے تر نوالہ بن چکے تھے۔
برہمن باڑیہ سیکٹر، ناٹور سیکٹر، چاند پور سیکٹر، میمن سنگھ سیکٹر سمیت دور دراز سرحدی علاقوں میں پھیلے ہوئے ہزاروں جوان محض اللہ کے آسرے پر متحدہ پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے۔ پاک فوج کا اصل مقابلہ براہِ راست دشمن سے نہ تھا بلکہ اپنے ہی پاکستان آرمی کے باغی بنگالی فوجیوں سے تھا جو ہمارے ہی تربیت یافتہ تھے اور جان لڑانے کا ہنر جانتے تھے۔ انہوں نے عام بنگالی تربیت یافتہ مکتی باہنیوں کو سامنے رکھا اور خود پاکستان کے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کو گھیر گھیر کر اپنے نشانے پر لے رہے تھے۔ پاک فوج کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے، وہ ہر بنگالی پر گولی نہیں چلا سکتے تھے کیونکہ ان میں بہت سے محب وطن بنگالی بھی تھے۔ ایسی جنگ میں پاکستان کے فوجی جوانوں نے بے مثال جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا۔
برہمن باڑیہ سیکٹر چٹاگانگ کے پہاڑوں اور برما کی سرحد سے متصل علاقوں پر مشتمل تھا۔ پاک فوج کی 14 ڈویژن اس علاقے کی حفاظت پر مامور تھی۔ اس علاقے میں تری پورہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہاں کا راجا تری دیو رائے پاکستان کا سچا ہمدرد تھا اور اس جگہ پاکستانی فوج کو راجا کی بھرپور معاونت حاصل تھی۔ یہ وہی راجا تری دیو رائے ہیں جو سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد مستقل طور پر پاکستان چلے آئے تھے اور اپنا گھربار اور سلطانی سب کچھ ہندوستان کے منہ پر دے مارا تھا۔
اس محاذ پر ہماری افواج نے دشمن کو بہت مشکل میں رکھا۔ برہمن باڑیہ سیکٹر میں پاک فوج نے دشمن کو اچھا خاصا نقصان پہنچایا، اور دشمن اس علاقے سے پسپائی اختیار کرکے سلہٹ کے مشرق میں اٹگرام اور ذکی گنج کے علاقوں کی جانب نکل گیا۔
چاند پور اور میمن سنگھ سیکٹر کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں تھی۔ ہمارے حصے میں محض جرأت اور بہادری کی داستانیں تھیں اور دشمن کے پاس ہماری زمین!
ڈھاکہ میں بیٹھے جنرل نیازی مغربی محاذ کو ٹیلی گرام پر ٹیلی گرام بھیج رہے تھے۔ وہ ایک ایک ڈرافٹ کو دس بار چیک کرتے اور معاونین کو دکھاتے، اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے ایک ناامیدی کے ساتھ متن کو فائنل کرکے ٹیلی گرام کا حکم جاری کرتے۔ انہیں اب بھی امید تھی کہ مغربی محاذ سے کوئی اچھی خبر آئے گی۔ مگر ان کی یہ امیدیں ہاتھ سے لکھے نوشتہ دیوار کو نہ مٹا سکیں۔
جنگ کے آخری دنوں میں جب جنرل نیازی ڈھاکہ ملٹری اسپتال سے باہر نکل رہے تھے تو چند غیر ملکی اخبار نویسوں نے ان کو گھیر لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کردی… سوال، اور جنرل نیازی کے جواب دیکھیں:
سوال: ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ اس کی فوج ڈھاکہ کے منہ پر پہنچ چکی ہے۔ آپ کے خیال میں وہ کتنی دور ہے؟
جواب: تم خود جاکر دیکھ لو۔
سوال: آپ کے کیا ارادے ہیں؟
جواب: میں آخری سپاہی ہوں گا، جو وطن کے لیے آخری دم تک لڑے گا۔
سوال: کیا اپنے دفاع اور دشمن کو ڈھاکہ سے دور رکھنے کے لیے آپ کی فوج کافی رہے گی؟
جواب: (اپنا سینہ ٹھونکتے ہوئے) میری لاش سے گزر کر ہی دشمن ڈھاکہ پہنچ سکتا ہے۔ میرے سینے پر دشمن کو اپنے ٹینکگزارنے ہوں گے۔ over my body!14 دسمبر تک ڈھاکہ میں مغربی پاکستان کی عمل داری ختم ہوچکی تھی۔ گورنمنٹ ہاؤس سے پاکستانی حکام نے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر پانچ ستارہ ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل کا رخ کرلیا ۔
امریکا اور چین کے دباؤ اور یقین دہانیوں پر جنگ بندی کے لیے پاکستان نے آمادگی ظاہر کی، راولپنڈی ہیڈ کوارٹر سے جنرل یحییٰ خان نے گورنر اور جنرل نیازی کو لوگوں کی جان و مال کے ضروری تحفظ اور جنگ بندی کے احکامات صادر فرمائے۔ اس وقت آل انڈیا ریڈیو نے ہندوستان کی کامیابی کی خبریں اور قبضے کے مکمل ہونے کے اعلانا ت شروع کر دیئے تھے۔
دشمن میرپور پل پر موجود تھا، 101 کمیونی کیشن ونگ کے کمانڈر جنرل ناگرہ نے پاک فوج کے میجر جمشید کو ایک لائن کا خط دیا جس میں لکھا تھا ’’ڈیئر عبداللہ… میں میرپور پل پر ہوں، اپنا نمائندہ بھیج دو۔‘‘
اب ہماری جانب سے جنگ بندی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں، ہندوستانی جنرل مانک شا کو جنرل نیازی نے ایک پیغام بھجوایا کہ عارضی طور پر جنگ بندی کی تفصیلات طے کرنے کے لیے 15 دسمبر کو صبح پانچ بجے سے اگلے دن رات نو بجے تک سیز فائر رہے گا۔ پھر اس کا دورانیہ بڑھا کر 16 دسمبر کی دوپہر تین بجے کردیا گیا۔ جنگ بندی کے حکم کے بعد ہمارے ٹینکوں نے گولے اگلنے بند کردئیے۔
اگلے دن 16 دسمبر کو ڈھاکہ کے رمنا گرائونڈ میں ایک جشن کا سماں تھا۔ بنگلہ دیشی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر’’رمنا گرائونڈ‘‘ میں امڈ آیا تھا۔ بنگلہ دیش بنانے والے رضاکاروں کے لیے جشن اور پاکستان کو متحد و یکجا دیکھنے کی تمنا کرنے والوں کے لیے قیامت کا دن!
جنرل نیازی جنرل اروڑہ کے ساتھ رمنا گرائونڈ پہنچے… سینے پر ٹینک گزارنے والا جنرل بھیگی بلی بنا غلیظ لطیفے سنا کر جنرل اروڑہ کو ہنسانے اور رام کرنے کی ناکام کوشش کررہا تھا… اور پوری پاکستانی قوم اپنی تذلیل کے مناظر دیکھ رہی تھی۔ ہمارا ایک بازو (مشرقی پاکستان) ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوچکا تھا۔
(جاری ہے)

حصہ