راہ ہدایت کی آگہی

374

افروز عنایت
اماں گرچہ زیادہ پڑھی نہ تھی مگر بچوں کی تربیت کے سلسلے میں وہ آج کی مائوں سے کئی گنا بہتر تھیں۔ اچھائی و بُرائی کا ادراک اس طرح ہم بہنوں کے ذہنوں میں پیوست کرتیں کہ ہر جگہ ہم قدم سنبھل سنبھل کر اُٹھانے کی عادی ہوگئیں۔ ایک جملہ تو آج تک ہم سب کو ازبر ہے جو وہ بڑے پُراعتماد لہجے میں کہتی تھیں کہ مجھے اپنی بچیوں پر مکمل اعتبار ہے کہ وہ اسکول سے گھر اور گھر سے اسکول کا راستہ ہی جانتی ہیں، کہیں اور کا راستہ تو انہیں معلوم ہی نہیں۔ یہ ان کا ہم پر اعتبار تھا کہ ہم نے اسے ٹھیس نہ پہنچنے دی، کالج و گھر کے راستے میں مارکیٹ تھی، اکثر و بیشتر لڑکیاں مارکیٹ یا دوستوں کے گھر چلی جاتیں لیکن ہم ان سے معذرت کرلیتے۔
تمام والدین بچپن سے اپنی اولاد کو اچھائی بُرائی یا غلط صحیح کام کی آگاہی فراہم کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں جیسے کہ بیٹا پڑھائی میں خوب محنت کرو تا کہ فرسٹ آسکو، یا بیٹا بجلی کے تاروں کے قریب نہ جانا، کچن میں چولہے سے دور رہنا، بالکونی میں لٹک کر نہ کھڑے رہنا، رات میں جلدی سوجانا، میں کام سے جارہی ہوں نہ بابا کو تنگ کرنا نہ گھر میں گند پھیلانا، اسکول کی ڈائری دھیان سے لکھنا، امتحانی پرچے میں جو سوال سمجھ میں نہ آئے ٹیچر سے پوچھنا، اسکول میں الٹی سیدھی چیزیں نہ کھانا، دروازے پر دستک سنو تو دروازہ نہ کھولنا کسی بڑے کا انتظار کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ کام اچھی خوبیاں ہیں جن کی نصیحت والدین فرماتے رہے ہیں، یعنی نقصان دہ چیزوں و باتوں سے احتیاط برتنے کی تاکید کی جاتی ہے، یہ سب دنیاوی فائدوں کے لیے بے حد ضروری احتیاطیں ہیں لیکن غور طلب بات ہے کہ وہ بُرائیاں جو بندے کے لیے آخرت میں خسارے کا باعث بنیں گی ان بُرائیوں سے والدین بچنے کی کم ہی تاکید کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج معاشرے میں وہ برائیاں بڑی تیزی سے پھیلتی جارہی ہیں اور ہمارے معاشرے کا حصہ بن گئیں ہیں۔ خصوصاً اکثر گھرانوں میں جوان اولاد کو بے لگام چھوڑ دیا جاتا ہے، مثلاً ہم میں سے کتنی مائیں ہیں جو اپنے بچوں کو اسکول و کالجوں میں ہونے والے امتحانات میں نقل کرنے سے روکتی ہیں کہ بیٹا اس غلطی کی آخرت میں بھی جوابدہی ہوگی، کتنی مائیں ہیں جو H.W نہ کرنے کی وجہ سے بچوں کو کہیں کہ بیٹا اپنی ٹیچر سے کوئی جھوٹ نہ بولنا، صحیح بات (وجہ) بتادینا۔
ہم میں سے کتنی مائیں ہیں جو اپنے بچوں کو تاکید کرتی ہوں کہ بیٹا ایسی ملازمت سے دور رہنا جہاں رشوت، سود کا کاروبار چمکتا ہو، کتنی مائیں ہیں جو بچوں کو تاکید کرتی ہوں کہ بیٹا دھیان سے ہر قدم بڑھانا کہ کسی بندے کی حق تلفی نہ ہوجائے، کتنی مائیں ہیں جو اپنے بچوں کو T.V، یا نیٹ پر ’’الم غلم‘‘ بیکار پروگرام دیکھنے سے روکتی ہوں، کتنی مائیں ہیں جو اپنے بیٹوں کو تجارت یا کاروبار میں ایمانداری سے چلنے کی تعلیم دیتی ہوں کہ حرام طریقے سے یا ذرائع سے مال اکٹھا کرنے سے روکتی ہوں، کتنی مائیں ہیں جو بیٹیوں کے سروں سے دوپٹے اُترتے جارہے ہیں ٹانگیں ننگی ہوتی جارہی ہیں انہیں روکتی ہوں کہ رب العزت کو تمہارا یہ حلیہ پسند نہیں، کتنی مائیں ایسی ہیں جو اولاد کو جھوٹ، غیبت، لالچ، چغلی، دوسرے کو دھوکا دینے سے روکتی ہیں۔ شاید 25 فیصد یا 30 فیصد، باقی والدین کی یہ سوچ ہے کہ وقت آنے پر بچوں کو عقل آ ہی جاتی ہے، یہ میں نے یہاں صرف چند برائیوں کا ذکر کیا ہے، نہ جانے ہمارے آس پاس کتنی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں جنہیں لوگ بے دھڑک کر گزرتے ہیں، اس بات سے غافل ہو کر کہ قیامت کے دن ان برائیوں کے طفیل ہمارا انجام کیا ہوگا، اگر ان برائیوں کو برائیاں سمجھا جائے اور انجام کا ڈر ہو تو انسان کے قدم خود بخود برائیوں میں ملوث ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ وہ ہر لمحے اسبات کو ذہن میں رکھے گا کہ یہ ’’بُرا کام‘‘ (گناہ) ہے، جس کی وجہ سے میری پکڑ ہوگی، یعنی دل میں برائی کا احساس ہی نہ صرف بندے کو برائیوں سے دور رہنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ آہستہ آہستہ اسے اللہ کے قریب کردیتا ہے۔ اس لیے والدین کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ وہ اولاد کے دل میں اچھائی برائی کی تمیز پیدا کریں اور شعور اُجاگر کریں کہ وہ اس بُرائی کو بُرائی سمجھیں۔
ۨافسوس کا مقام ہے کہ 60 فیصد سے 70 فیصد لوگ برائیوں کو برائی تصور ہی نہیں کرتے کہ سب یہی کررہے ہیں، ہم نے کیا تو کیا گناہ ہوگا اور کسی ایک کے کرنے سے فائدہ ہی کیا ہوگا، چاروں طرف یہی ’’سب کچھ‘‘ چل رہا ہے بلکہ بہت سی برائیوں کو فیشن اور اپنے مرتبہ کا معیار سمجھ کر فخر سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً شادی بیاہ کی فضول رسمیں، نمود و نمائش و دولت کو لٹانا، مخلوط ناچ گانے وغیرہ۔ میں نے ایک خاتون سے جب کہا کہ یہ تو لہو و لعب و بیہودی ہے تو کہنے لگی بچوں کی خوشی کے لیے کرنا پڑتا ہے اور ایسا تو ہر جگہ چلتا ہے، اسی طرح لڑکے لڑکیوں کا آپس میں گھل مل جانا، دوستانہ تعلقات استوار کرنے پر اکثر مائیں یہ کہتی ہیں کہ ظاہر ہے اسکول و کالجوں میں مخلوط تعلیم ہے اور ملازمت کی وجہ سے مردوں کے درمیان خواتین کام کرتی ہیں تو ظاہر ہے آپس میں ’’گھل مل‘‘ کر تو رہنا پڑتا ہے، ایسا نہ کریں گی تو کیسے ’’سیٹ‘‘ ہوسکیں گی۔ میں ایسی مائوں کو معذرت کے ساتھ یہ کہوں گی کہ آپ ’’محتاط‘‘ رہ کر بھی تو (اسلامی تعلیمات کے مطابق) ملازمت کرسکتی ہیں، مجھے ’’جماعت‘‘ کی ایک خاتون کی بات بہت پسند آئی کہ میں نے بچپن سے اپنی بچیوں کو ’’سترپوشی‘‘ کی تعلیم دی، بے پردگی کو بُرائی بتایا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ میری بچیاں میڈیکل کی طالبات ہیں، مکمل پردے میں اپنی کلاسیں اٹینڈ کرتی ہیں۔ انہیں کبھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ بلکہ اکثر ہم جماعت انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ زمانہ ماضی کی کسی اداکارہ کے بارے میں ایک خبر نظروں کے سامنے سے گزری کہ جب فلم ڈائریکٹر (ہدایت کار) نے اس کو فلمی نام ’’عائشہ‘‘ رکھنے کا مشورہ دیا تو وہ زار و قطار رونے لگی کہ میرا کام اور پیشہ ایسا نہیں کہ میں ایک معتبر نام اپنائوں۔ یعنی وہ برائی کو برائی سمجھ رہی تھی اسی لیے اس نے اپنا پیشہ ہی چھوڑ دیا اور گھر بیٹھ گئی۔
اس قسم کے بہت سے واقعات ہمارے سامنے پیش آتے رہتے ہیں یا ہم پڑھتے رہتے ہیں۔ میرے بیٹے نے اپنے ایک دوست کے بارے میں بتایا جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا اور کینیڈا میں ملازمت کررہا تھا، اس کے گھر کا ماحول دینی تھا جس پر وہ کینیڈا میں رہتے ہوئے بھی عمل پیرا تھا۔ شادی کے بعد اپنی بیوی کو بھی کینیڈا لے کر گیا جہاں وہ بڑی اچھی و محتاط زندگی گزار رہے تھے، جب بیٹی پیدا ہوئی تو اسے پریشانی لاحق ہوئی کہ کیا میں اس بچی کو یہاں کی آزادانہ زندگی کی برائیوں سے محفوظ رکھ پائوں گا جو کہ بہت مشکل تھا اسے وہاں کی برائیوں کا ادراک و آگہی حاصل تھی۔ لہٰذا اس نے ایک دانشمندانہ فیصلہ کیا اور بڑی مشکل سے ایک اسلامی ملک میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور سکون کا سانس لیا اور وہاں بچوں کے ساتھ شفٹ ہوگیا۔ ہدایت دینے والا رب العزت ہے لیکن رہنمائی و آگہی کا ذریعہ والدین اور اساتذہ کرام ہیں جو بندے کو ابتداء ہی سے برائی کو برائی سمجھنے کا ادراک فراہم کرتے ہیں اور ان برائیوں سے بچنے کی ہدایت و رہنمائی بھی فرماتے ہیں، جبکہ اولاد کو ’’بے لگام‘‘ چھوڑنے سے وہ خودسر گھوڑے کی طرح بغیر منزل کے بھاگتے ہی رہتے ہیں جبکہ منزل انہیں ملتی ہے جنہیں اس کی راہوں میں آنے والی صاف پگڈنڈیوں اور رکاوٹوں کی آگہی و شعور ہو کہ کون سے راستے ہماری منزل سے ہمیں بھٹکا سکتے ہیں، منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے ان غلط راستوں کی آگہی ہونی بھی ضروری ہے جو ہمیں گہری کھائیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔
رب العزت ہم سب کو یہ صلاحیتیں عطا کرے کہ ہم برائیوں کو برائی سمجھ کر محتاطی سے اپنی زندگی کا یہ سفر پورا کریں (آمین ثم آمین) اور اپنے آس پاس رہنے والوں کو بھی اس بات کا ادراک پہنچائیں جو والدین برائی کو برائی سمجھتے ہیں وہ یقینا اپنی اولاد کو بھی گناہ و ثواب کی اہمیت واضح کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ان ہی کی اولاد حدود اسلامی کو توڑنے کی کوشش نہیں کریں گی۔ بے شک نفس کی تربیت و اصلاح کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ بندہ ان برائیوں کو برائی سمجھ کر ان سے دور رہنے کی کوشش کرے۔

حصہ